• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور حاضر ٹیکنالوجی کا دور ہے، آج ہر چھوٹے بڑے کام کو انجام دینے کے لیے مشینوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان کا استعمال کس طرح کرنا ہے، یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہم نے اکثر سنا ہے کہ نسل نو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا منفی استعمال کر رہی ہے، بےراہ روی کی جانب گامزن ہے، سوشل میڈیا کے باعث منفی سرگرمیوں اور رجحانات کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کے باعث معاشرے میں یہ عام خیال پروان چڑھنے لگا ہے کہ سوشل میڈیا نوجوانوں کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ، سوشل میڈیا کے نقصانات کو اپنے اصل سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ درحقیقت نوجوانوں پر اس کے اثرات معمولی نوعیت کے ہیں۔ یہ رپورٹ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کی ہے، جسے تحقیق مکمل کرنے میں8 برس کا عرصہ لگا، اس میں بارہ ہزار برطانوی نوجوانوں سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا اور اس تحقیق کو ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ نامی جریدے میں شائع کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اہم نقطہ نظر سامنے آیا ہے کہ سوشل میڈیا کے معلوم اثرات کے مقابلے میں نامعلوم اثرات خاصے زیادہ ہیں۔ محقق پروفیسر اینڈریو پریزیبلسکی کے مطابق ’’سوشل میڈیا کے نوجوانوں پر بُرے اثرات پر بحث میں شواہد مضبوط نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ، تحقیق میں سوشل میڈیا کے بجائے جدید ٹیکنالوجی کے نوجوانوں پر اثرات کے جائزے پر زور دیا گیا ہے۔ ماضی میں ہونے والی کسی بھی تحقیق میں اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا گیا کہ مایوسی کا شکار نوجوان اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزار سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ماضی کی تحقیق میں صرف اسکرین ٹائم اور اس کے ذہنی صحت پر اثرات کا جائزہ لیا گیا، لیکن اعداد و شمار کو نظر انداز کر دیا گیا اس لئے یہ تحقیق کسی طرح قابل اعتبار نہیں ہے‘‘۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ نسل نو کے لیے سوشل میڈیا اتنا نقصان دہ نہیں جتنا ڈرایا جاتا ہے، بلکہ یہ مکمل طور پر نوجوانوں پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس کا استعمال کس طرح کر رہے ہیں۔

اگر تازہ اعداد و شمار کا جائز لیں تو معلوم ہوگا کہ جہاں مختلف وجوہات کے باعث بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور وسائل کی کمی کے باعث نوجوانوں کے لیے کاروبار کرنا ممکن نہیں وہ انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے فری لانسنگ کے ذریعے ذریعہ معاش تلاش کر رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کے استعمال سے نوجوان خود مختار ہو رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا، اب انہیں جگہ جگہ، ایک دفتر سے دوسرے دفتر دھکے کھانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ گھر بیٹھے بھی روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔

ایک دور تھا جب خبریں حاصل کرنے کے لیے اگلے روز کا انتظار کرنا پڑتا تھا، پھر ٹی وی اور پرائیوٹ چینلز کے آنے کے بعد ہر گھنٹے آگاہی کا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ زندگی مصروف سے مصروف تر ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں تازہ ترین صورت حال جانے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر آپ کہیں راستے میں ہوں تو یہ انتظار مزید طویل ہوجاتا کہ جب آپ گھر پہنچیں گے، یا کہیں ٹی وی تک رسائی ہوگی تو آپ باخبر ہوسکیں گے۔ لیکن اس مشکل کا حل بھی سوشل میڈیا نے ڈھونڈ نکالا اب ہر خبر آپ کے ایک کلک کی دوری پر ہے۔ مختف فورمز اور گروپس کے ذریعے آپ چاہیے راستے میں ہوں یا مال میں شاپنگ کر رہے ہوں، ٹریفک جام میں پھنسے ہوں یا دفتری امور میں، بس ان گروپس اور فورمز پر جائیں اور اپنے علاقے کی تازہ صورت حال سے باخبر ہوجائیے، یا پھر آپ خود بھی دوسروں کو اپنے علاقے کی صورت حال سے بروقت آگاہ کرسکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ عام خیال پروان چڑھ رہا ہے کہ موجودہ دور میں نوجوانوں میں کُتب بینی کا شوق ختم ہوگیا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب نوجوان ماضی کی طرح لائبریری کا رُخ نہیں کرتے، بیشتر کُتب خانے ویران پڑے ہیں یا پھر ان کی جگہ شاپنگ مالز بنا دیئے گئے ہیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، البتہ ماضی کے مقابلے میں کُتب بینی کے شوق میں کمی واقعے ضرور ہوئی ہے، لیکن پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی۔ اب نوجوانوں کی اکثریت آن لائن کتابیں پڑھنے کوترجیح دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ وقت کی کمی اور دوسری وجہ فری ڈاؤن لوڈنگ ہے۔ انہیں کتابیں، رسالے یا اخبار پڑھنے کے لیے پیسے خرچ نہیں کرنے پڑتے بلکہ صرف ایک کلک پر آپ کی پسندیدہ کتاب مکمل طور پر آپ کے موبائل فون یا کمپیوٹر میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ آپ جب چاہیں اسے پڑھ سکتے اور شئیر بھی کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں آن لائن کتابیں، رسالے یا اخبارات پڑھنے والوں کے اعداد و شمار کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا ہے۔ جس سے ان کی درست تعداد کا اندازہ ہوسکے۔ صرف کُتب بینی ہی نہیں بلکہ آج کل طلبا کی بڑی تعداد بھی گوگل سے مستفید ہو رہی ہے۔ جب کبھی کسی مضمون میں دشواری پیش آئی یا کچھ سمجھ نہیں آتا تو طلبا اس مسئلے کا حل کتابوں میں تلاش کرنے کی بجائے گوگل یا یوٹیوب پر صرف ایک کلک سے تلاش کرتے ہیں، جس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا وقت بچ جاتا ہے، ساتھ مسئلے کا حل تلاش کرتے کرتے دیگر معلومات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ طلباء جن کا رجحان پولیٹیک یا تکنیکی تعلیم کی جانب ہے ان کے لیے گوگل اور یوٹیوب سب سے بہترین ہے۔ وہ گھر بیٹھے ہی مختلف چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔

برطانوی یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا کے اثرات مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ نمایاں ہیں۔ جب کہ جذبات، احساسات اور مستقبل کے حوالے سے خیالات کے اظہار کی خاطر سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چوں کہ ہمارے معاشرے میں آج کل علیحدہ گھر کا رواج عام ہوگیا ہے اور خواتین کی بڑی تعداد گھریلو امور سنبھالتی ہیں، اس لیے انہیں اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے کسی نہ کسی ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کی مشکلات کو سمجھے، ان کا مذاق اُڑانے کی بجائے انہیں صلح مشورہ دے جو کہ گھر کی چار دیواری میں ممکن نہیں، اسی لیے یہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے تسکین حاصل کرتی ہیں۔ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ اکثر اوقات مرد حضرات بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک جانب سوشل میڈیا صارفین اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرکے ذہنی دباؤ سے بچ سکتے ہیں تو دوسری جانب وہ دیگر صارفین کے تجربات سے مستفید بھی ہوسکتے ہیں۔ جس سے ممکنہ طور پر معاشرے میں بڑھتی ہوئی مایوسی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اکثر افراد کو زندگی میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تبدیلیوں کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کی عادت ہوتی ہے، کہیں گھومنے جائیں تو وہاں کی نت نئے زاویے سے لی گئی تصاویر، وہاں کی مکمل تفصیلات اور وہاں کا تجربہ لمبے چوڑے کیپشن کی صورت میں ڈالنے کا شوق ہوتا ہے۔ اگر ایسے صارفین اپنے شوق کو ہی اپنا پروفیشن بنالیں تو بہت کام یاب ہوں گے۔ اگر وہ اپنا ٹریول لاگ بنالیں، وڈیو بنا کراپنے یوٹیوب چینل پر ڈال دیں یا پھر بلاگ کی صورت میں لکھ کر شئیر کریں تو وہ بھی فری لانسنگ کے ذریعے پیسے کما سکتے ہیں۔ وہ بچیاں اور خواتین جنہیں کھانا پکانے اور نت نئی تراکیب آزمانے کا شوق ہو یا ان پر کھانا پکانے کی ذمہ داری ہو اور کھانا پکانا نہ آتا ہو، تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ گوگل اور یوٹیوب پر بے شمار تراکیب لفظی اور وڈیو دونوں صورتوں میں موجود ہیں جن سے صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی مستفید ہوسکتے ہیں یا پھر آپ بہت اچھی/اچھے شیف ہوں تو مختلف تراکیب کو وڈیو یا لفظی شکل میں دیگر افراد کے ساتھ شیئر کرکے نہ صرف ان کی مشکل آسان کرسکتے ہیں بلکہ خود بھی پیسے کما سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل بے شمار آئن لان سروسز بھی میسر ہیں جن سے مستفید ہوا جاسکتا ہے جیسے آئن لان ٹیکسی سروس، آئن لائن درزی، دھوبی، ماسی، پلمبر، میکینک، مستری، الیکٹریشن، بیوٹیشن، مہندی، شاپنگ یہاں تک کہ اب آئن لائن ڈاکٹرز بھی میسر ہیں جو گھر بیٹھے آپ کا علاج کردیتے ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا ایک آلے کی مانند ہے جس کا مثبت استعمال اپنے اور دیگر افراد کی بہتری کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے اور منفی استعمال سے معاشرے کو نقصان بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس بات کا انحصار صرف اور صرف صارفین کے رویہ اور مواد کے انتخاب پر ہے۔

تازہ ترین