• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان حکومت کیا کررہی ہے؟ شہریوں کو کچھ علم نہیں

بلوچستان میں جدید ٹیکنالوجی سے خاطر خواہ استفادہ نہ کرنے اور قوانین میں خامیوں کے سبب شہریوں کو حکومتی اُمور خاص طور پر ترقّیاتی منصوبوں اور اُن پر پیش رفت سے متعلق بروقت آگاہی نہیں مل رہی۔ سرکاری حلقوں میں یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ صوبائی محکمے احتساب کے خوف سے اپنا نظام جدید خطوط پر استوار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق، حکومت کو اپنی کارکردگی اور مفادِ عامّہ کے منصوبے عوام کے سامنے پیش کرنے چاہئیں، جس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، بہرام لہڑی کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان میں’’ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘ کم زور شکل میں نافذ ہے، جب کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اس قانون میں کئی اصلاحات کر چُکے ہیں۔ وہاں حکومتی اقدامات اور مفادِ عامّہ کے منصوبوں کو گاہے بہ گاہے عوام کی معلومات کے لیے ویب سائٹس پر اَپ لوڈ اور دفاتر میں آویزاں کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ قانون کا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ 2005ء کے ایکٹ میں ترامیم اور اصلاحات لائی جائیں، جس طرح خیبر پختون خوا اور پنجاب میں 2013ء میں معلومات تک رسائی کا ایکٹ لایا گیا اور2017 ء میں وفاقی قانون بنا، اسی طرز پر بلوچستان میں بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔‘‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ 2005ء کے ایکٹ میں، جو بلوچستان میں’’ فریڈم آف انفارمیشن‘‘ کے نام سے نافذ ہے، معلومات تک رسائی کا جو طریقۂ کار بتایا گیا ہے، اُس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور کسی کو اس سلسلے میں ذمّے دار بھی نہیں بنایا گیا۔ اس قانون میں ایک سقم یہ ہے کہ اگر آپ کسی محکمے کو معلومات کی فراہمی کے لیے درخواست دیتے ہیں اور وہ محکمہ معلومات فراہم نہ کرے، تب بھی عدالت سے رجوع کرنے پر قانون میں سزا و جزا کا تصوّر موجود نہیں۔نیز، محکمے کسی مخصوص مدّت میں معلومات فراہم کرنے کے بھی پابند نہیں ۔ دوسری اہم بات یہ کہ جس طرح وزیرِ اعظم نے سٹیزن ویب پورٹل بنایا ہے اور اُس پر براہِ راست شکایات موصول ہوتی ہیں، حکومتِ بلوچستان کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے ویب پورٹل پر کام کرے۔ علاوہ ازیں، حکومت کی جانب سے عوام، میڈیا اور سِول سوسائٹی کو وقتاً فوقتاً بریفنگ دی جانی چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ فنڈز کہاں اور کیسے استعمال ہو رہے ہیں۔‘‘

بلوچستان حکومت کیا کررہی ہے؟ شہریوں کو کچھ علم نہیں
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، جام کمال خان

آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ، حکومتِ بلوچستان کے ڈائریکٹر ٹریننگ، جوّاد احمد نے ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے بتایا’’ بلاشبہ موجودہ دَور میں حکومتیں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار کر رہی ہیں، کیوں کہ پرانے طریقۂ کار سے اب درست فیصلہ سازی یا ترقّی نہیں کی جا سکتی۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان تمام محکموں میں کمپیوٹرائزڈ نظام کے لیے ذاتی طور پر دِل چسپی لے رہے ہیں۔اُن کی خواہش ہے کہ کم ازکم حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے محکمے، پی اینڈ ڈی میں تو یہ نظام ناگزیر ہے تاکہ تمام ترقّیاتی منصوبوں میں شفّافیت آ سکے۔‘‘جوّاد احمد کے مطابق’’ بلوچستان میں’’ رائٹ ٹو انفارمیشن‘‘ ایکٹ تاحال نافذ نہیں ہو سکا، تاہم حکومت نے اپنا ایک ویب پورٹل بنا رکھا ہے، جس پر تمام محکموں کی بنیادی اور اہم معلومات دست یاب ہیں، مگر محکموں کی کارکردگی وغیرہ شیئر کرنے کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔تاہم، اب اس سمت میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میں حکومت کی جانب سے اپنے ترقّیاتی منصوبوں کی تفصیلات متواتر اپنی ویب سائٹس پر اَپ لوڈ کی جاتی ہیں، تاہم بلوچستان میں یہ سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ بد قسمتی سے ہمارے محکمے آئی ٹی کو اپنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ظاہر سی بات ہے، جب تمام معلومات عوام کے سامنے آئیں گی، تو محکمے’’ عوامی احتساب‘‘ کی زَد میں آ جائیں گے، جس کا خوف محکموں میں بہرحال موجود ہے، مگر وزیرِ اعلیٰ چاہتے ہیں کہ تمام محکموں کا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو تاکہ معاملات میں شفّافیت آسکے۔‘‘ سینئر قانون دان، راحب بلیدی ایڈووکیٹ نے اِس معاملے کا قانونی نقطۂ نظر سے تجزیہ کرتے ہوئے بتایا’’ حکومتی اُمور اور ترقّیاتی منصوبوں کی تمام تفصیلات ایک لحاظ سے عوامی دستاویز’’ Public Documents‘‘ ہوتی ہیں، لہٰذا کوئی بھی شہری یہ معلومات ایک سادہ درخواست کے ذریعے حاصل کر سکتا ہے اور محکمے اِس طرح کی درخواستوں پر معلومات فراہم کرنے کے پابند بھی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں، تو اُن کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے علاوہ، قانونِ شہادت کے تحت بھی شہریوں کو معلومات کے حصول کا حق حاصل ہے۔ اِس سلسلے میں حکومت کو ازخود تمام منصوبوں کی تفصیلات پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا یا آفیشل ویب سائٹس کے ذریعے عوام کے لیے جاری کرنی چاہئیں۔‘‘ بلوچستان یونی ورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے فیکلٹی کو آرڈینیٹر، ڈاکٹر ندیم بلوچستان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریز کے رویّے کو تشویش ناک قرار دیتے ہیں۔اُنھوں نے اِس ضمن میں ایک مثال بھی دی کہ’’حکومت کی جانب سے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، مگر محکموں میں شہریوں کے لیے وَن ونڈو آپریشن تک کی سہولت دست یاب نہیں۔ وہ بنیادی فارمز، جو مختلف مواقع پر جمع کروانے پڑتے ہیں، سرکاری محکموں کی ویب سائٹس پر نہیں ملتے۔ اگر یہ چیزیں آن لائن دست یاب ہوں، تو عوام کی ایک بنیادی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ جہاں تک شفّافیت کی بات ہے، تو یہ بہت لمبا سفر ہے۔ اگر حکومت کسی اور مُلک کا ماڈل فالو کرے، تو اس سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ وسط ایشیائی ممالک نے اِس سلسلے میں کافی ترقّی کی ہے۔ وہاں ٹریفک چالان سے لے کر شہریوں کی تمام بنیادی معلومات تک ،سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہمارے ہاں پالیسیز میں تسلسل کا فقدان ہے، بلوچستان میں طویل عرصے بعد مائننگ پالیسی بنی ہے، جسے بہت پہلے بننا چاہیے تھا۔ تاہم، تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے، بلوچستان پولیس جدید سی آئی ٹی بی ماڈل کے حصول کے لیے پنجاب سے رابطے میں ہے، جو ایک اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ حکومت آئی ٹی کے مختلف منصوبوں کے لیے ہماری یونی ورسٹی سے مدد لینے کے لیے رابطہ کرتی ہے اور ہم اس پر کام کر کے اُسے ریسپانس بھی دیتے ہیں، مگر آگےاس پر زیادہ مثبت کام نظر نہیں آتا۔‘‘

حکومتِ بلوچستان کے ترجمان، لیاقت شاہوانی اس حوالے سے بہت پرُامید ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ صوبائی حکومت بہت جلد جدید ٹیکنالوجی اپناتے ہوئے اپنے معاملات عوام سے شئیر کر سکے گی۔ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے بتایا’’ وزیرِ اعلیٰ، بلوچستان کا وژن ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر اہداف کا حصول ممکن نہیں۔ ہم کوئٹہ میں 500 ملین روپے کی لاگت سے آئی ٹی پارک اور ڈیٹا سینٹر بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ،100 پرائمری اور سیکنڈری اسکولز کو’’ Vertual Educationlal Mod‘‘پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ نیز، سی ایم سیکریٹریٹ اور سِول سیکریٹریٹ میں فائل ٹریکنگ سسٹم لایا جا رہا ہے۔ صوبے میں پہلی مرتبہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے لیے 1.8بلین روپے مختص کیے گئے ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جاسکے۔علاوہ ازیں’’ وزیرِ اعلیٰ شکایت سیل‘‘ کو ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے تاکہ عوام کی شکایات براہِ راست موصول ہوں۔ وزیرِ اعلیٰ سوشل میڈیا پر بھی عوام کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر اُس نے کارکردگی دِکھانی ہے اور آگے بڑھنا ہے، تو جدید ٹیکنالوجی کے تمام ذرائع استعمال کرنے ہوں گے،تاکہ ایک طرف نظام میں شفّافیت لائی جاسکے، تو دوسری طرف، عوام کو حکومتی کارکردگی سے بھی آگاہی ہوسکے۔‘‘ رکن بلوچستان اسمبلی، قادر علی نائل سوشل میڈیا کو حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ’’ اِن دنوں دنیا بھر میں’’ اِی گورننس‘‘ کا تصوّر فروغ پا رہا ہے۔ ہر حکومت کی خواہش ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اپناتے ہوئے دنیا تک اپنی کارکردگی پہنچائے۔ جہاں تک حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات ہے، تو اس بات کا انحصار معاشرے پر بھی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، اُس میں تعلیم کی شرح کتنی ہے؟ ٹیکنالوجی کی سہولت کتنی آبادی کو حاصل ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ دُور دراز کے علاقوں میں عوام کو اس طرح کی سہولتیں میّسر نہیں، تاہم شہروں میں لوگ اس سہولت سے استفادہ کرتے ہیں۔پھر یہ کہ عوامی نمائندوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کریں۔ بلوچستان میں منتخب عوامی نمایندے قبائلی روایات کے تحت جرگوں، کارنر میٹنگز اور جلسوں میں عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرتے ہیں، تاہم میری نظر میں دورِ جدید میں ٹیکنالوجی خصوصاً سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے، جس سے عوام کی اپنے نمایندوں تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔اب ہم سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کارکردگی لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اسی کے ذریعے عوام بھی اپنے مسائل اجاگر کرتے ہیں، جس کا نوٹس لیا جاتا ہے اور اُن کی داد رسی بھی کی جاتی ہے۔ دوسری جانب، ہم اپنے ناقدین کی رائے کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا حکومت کو الرٹ کرنے کا بھی ذریعہ ہے تاکہ وہ کارکردگی دِکھائے، جس طرح پی ایس ڈی پی اور بجٹ سوشل میڈیا اور اخبارات میں شائع ہوتا ہے اور معاشرے کا با شعور طبقہ اُس کا مطالعہ کرنے کے بعد اُس پر نظر بھی رکھتا ہے کہ حکومت نے جس شعبے کے لیے فنڈز رکھے ہیں آیا اس پر کام ہوا بھی ہے یا نہیں، ایک طرح سے یہ بھی حکومت کا احتساب ہے۔‘‘

ماہرین، منتخب نمایندوں اور حکومتی مؤقف کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘ میں جدید دَور کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات ضروری ہیں تاکہ شہریوں کو اپنی حکومت پر نظر رکھنے میں مدد مل سکے۔ نیز، حکومت بھی عوامی آرا مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرسکے، جن کے ذریعے شہریوں کو اُن کا بنیادی حق مل پائے۔ بلوچستان حکومت کو اِس ضمن میں پنجاب اورخیبر پختون خوا میں نافذ قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے تمام محکموں میں کمپیوٹرائزڈ نظام لانے کی تیز رفتار کوششیں کرنی چاہئیں۔ بلاشبہ،انفارمیشن ٹیکنالوجی ترقّی کا زینہ ہے، اپنے صوبے اور عوام کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت، سِول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اس حوالے سے سوچنا اور ایک دوسرے کا معان بننا ہوگا۔

تازہ ترین