• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صادقہ خان

اس وقت دنیا بھر میں سیاست کے بعد جو موضوع سب سے زیادہ زیرِبحث ہے وہ بڑھتی ہوئی آلودگی اور گلوبل وارمنگ ہے۔ جن کے باعث دنیا کا ہر خطہ شدید موسمیاتی تبدلیوں کی زد پر ہے۔

ماحولیات میں معمولی سی دلچسپی رکھنے والا شخص بھی فضائی ، زمین اور آبی آلودگی جیسی اصطلاحات سے اچھی طرح واقف ہوگا، مگر کیا آپ نے کبھی خلائی آلودگی کا ذکر سنا ہے؟

یہ آلودگی کی ایک نئی قسم ہے ،جس نے خلا میں انسان کی سرگرمیاں بڑھنے کے بعد جنم لیا اور دنیا بھر میں خلائی سفر کا جنون بڑھنے کے ساتھ خلا میں انسان کے پھیلائے ہوئے کچرے کی شرح بھی انتہائی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

زیادہ تر اسپیس جنک لوارتھ آربٹ میں زمین سے 250 میل کی بلندی پر موجود ہے 

ایک اندازے کے مطابق 9.4ٹن وزنی خلا ئی ملبہ اسپیس شپ اور دیگر اجسام کی صورت میں اس وقت خلا میں زمین کے گرد محوِ گردش ہے جن کی رفتار17,500 میٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہے ۔

ان میں سب سے زیادہ تعداد ناکارہ ہوجانے والے خلائی مرکز اور مصنوعی سیاروں ( سیٹلا ئٹس ) کے بعد خلا میں بھیجے جانے والے راکٹوں کے حصوں کی بڑی تعدادکی ہے جو خلا میں آزادانہ گھوم رہے ہیں ۔

اس خلا ئی آلودگی کا آغاز انسان کا خلا میں قدم رکھتے ہی ہوگیا تھا ،ان میں سے زیادہ تر اجسام لو ارتھ آربٹ میں زمین سے 250 میل کی بلندی پر موجود ہیں ۔ جب کے کچھ اجسام اس سے بھی زیادہ بلندی پر ہیں جنھیں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے22,300کی انتہائی بلندی پرجیو اسٹیشنری مدار میں بھیجا گیا تھا ۔

گرچہ خلا میں کسی حادثے یا دوسرے ذرائع سے شامل ہونے والا یہ خلائی کچرا جلد یا بدیر زمین کی طرف ہی آتا ہے ،کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے بیرونی ماحول کی کشش کے اپنے جانب کھینچنے کے باعث ان کی گردشی رفتار کم ہونے لگتی ہے اور نسبتاً بڑے اجسام عموما ً رگڑ کھا نے سے جل کر سینکڑوں چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو کر سمندروں میں جا گرتے ہیں ،جس کی ایک مثال چین کا خلا ئی ا سٹیشن ' تیان گانگ ون ہے جو اپریل 2018 ءمیں زمین کے بیرونی ماحول سے رگڑ کھانے کے بعد جلتا ہوا سمندر میں جا گرا تھا ۔

یہ خلا ئی اسٹیشن لگ بھگ چھ ماہ کے عرصے میں زمین کی جانب آیا لیکن اس دوران ناسا اور خود چین کی خلائی ایجنسی کی جانب سے ابتدا میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ یہ خلائی اسٹیشن سمندر میں جا گرے گا۔

اس سے پہلے روس کا خلائی اسٹیشن بھی ناکارہ ہوکر کچھ عرصے خلا میں معلق رہنے کے بعد زمین پر آ گرا تھا، جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔

خلا میں اب تک جن ممالک نے سب سے زیادہ آلودگی پھیلائی ہے ان میں روس سر ِ فہرست ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق زمین کے لوارتھ آربٹ میں 23 ہزار اجسام موجود ہیں ۔ جن میں سے 14 ہزار قابو سے باہر ہیں ۔

ان میں سے 6,512 تیرتے اجسام روس کی ملکیت ہیں۔ جن میں سب سے بڑی تعداد خلا میں بھیجے جانے والے راکٹوں کے ناکارہ حصوں کی ہے۔

ان میں سے تقریباً5 ہزار اجسام ایسے ہیں جو کنٹرول سے باہر ہیں اور آزادنہ خلا میں گھومتے رہتے ہیں اور یہ کسی بھی حاد ثے یا ڈیزاسٹر کا سبب بن سکتے ہیں ۔

روس کے بعد خلائی کچرے کی پیداوار میں دوسرا نمبر امریکا کا ہے، جس کی ملکیت 6,262اجسام اس وقت خلا میں موجود ہیں جن میں سے 4,684اجسام قابو سے باہر اور انتہائی خطرناک ہیں ۔

تیسرے نمبر پر چین ہے ۔جسے گرچہ اپنا اسپیس پروگرام شروع کیے ہوئےمحض دس بارہ سال ہی ہوئے ہیں، مگر اس کے ناکارہ خلائی ا سٹیشن سمیت 3,601اجسام زمین کے لو ارتھ آربٹ میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد اس سیٹلائٹ کے ناکارہ پرزوں کی ہے۔ جسے 2007 ءمیں چین نے خود ہی خلا میں تباہ کر دیا۔

یعنی زمین کو صرف اندورنی آلودگی سے ہی شدید خطرات لاحق نہیں ہیں بلکہ انسان نے خلا میں بھی اسے محفوظ نہیں رہنے دیا ۔

اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے اجسام کے زمین سے کچھ ہی بلندی پر لو ارتھ آربٹ میں شامل ہو جانے سے کسی بھی وقت کسی نئے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اس کے لیےما ہرین فلکیات نے ایک نئی اصطلاح تخلیق کی ہے جسے’’ ' کیسلر سائنڈرم ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔

یہ نام امریکی خلا ئی ادارے ناسا کے ایک ریٹائرڈ سائنسدان ڈا نلڈ کیسلر کے نام پر رکھا گیا۔

جنھوں نے 1978 ءکے بعد خلائی کچرے یا اسپیس جنک پر کئی مقالے تحریر کیے تھے ۔

وہ ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر کی جانب سے شروع کیےجانے والے اس پروگرام کا حصہ رہ چکے ہیں ،جس میں خلا کے سفر سے زمین کے اندورنی و بیرونی ماحول پر پڑنے والے اثرات پر تحقیق کی جا تی رہی ہے۔

ڈانلڈ کیسلر کی تحقیق کے مطابق خلا میں موجود یہ کچرا نا صرف خلا بازوں کی آزادانہ محفوظ نقل و حرکت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اگر یہ خلائی آلودگی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو مستقبل میں زمین سے خلا میں راکٹ یا اسپیس شپ بھیجنا ممکن نہیں رہے گا، کیوں کہ ان کے لوارتھ آربٹ تک پہنچ کر ہی کسی بے قابو جسم سے ٹکرا نے کے امکا نات بڑھ جائیں گے۔

جب کہ جیوا سٹیشنری آربٹ میں تیرتے اجسام خلا میں ہزاروں سالوں تک گردش میں رہ سکتے ہیں اور ان کے آپس میں ٹکرا نے اور جل کر زمین پر گرنے کے باعث بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مصنوعی سیاروں کے آپس میں شدید ٹکراؤ سے زمین کے بیرونی ماحول میں ان کے چھوٹے چھوٹے اجزاء کی ایک تہہ بنتی جا رہی ہے جسے’’ڈیبریز بیلٹ ‘‘کا نام دیا گیا تھا۔

ڈانلڈ کیسلر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسپیس جنک پر اپنی تحقیق کا آ غاز اس وقت کیا تھا جب وہ محض 38 برس کے تھے اور اس وقت ناسا نے میری تحقیق کی جانب کچھ خاص توجہ نہیں دی تھی ، مگر جب میرا یہ مقالہ شائع ہوا تو ناسا کے حکام نے اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا۔

جسے ’’آربٹل ڈیبریز ‘‘پروگرام ' کا نام دیا گیا اور کیسلر کو اس کا انچارج مقرر کیا گیا ہے۔ کیسلر کے مطا بق خلا میں بڑھتے ہوئے کچرے سے اگلے 30 سے 40 سالوں میں ا ن اجسام کے آپس میں ٹکراؤ سے ہولناک تباہی ہوسکتی ہے جسے ’’کیسلر سائنڈرم‘‘ کہا جاتا ہے۔

کیسلر کی تحقیقات محض اندازوں یا تخمینوں پر ہی مبنی نہیں تھی بلکہ انھوں نے لو ارتھ آربٹ سے اس جنک کو صاف کرنے کے لیےایک پورا منصوبہ بھی پیش کیا ۔

جسے ابتداء میں ناسا کے ماہرین کی جانب سے بہت سراہا گیا، مگر چونکہ اس کے لیےبہت زیادہ فنڈز کی ضرورت تھی۔ لہٰذا آہستہ آہستہ ماہرین کی توجہ اس کی جانب کم ہوتی چلی گئی اور 1996 ءمیں ڈانلڈ کیسلر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسے بالکل ہی بھلا دیا گیا ، مگر گذشتہ کچھ عرصے سے اسپیس جنک کے اس مسئلے نے دوبارہ دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے ، جس کی وجہ زمین پر اس جنک کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات ہیں۔

10 فروری 2009 ءمیں ڈانلڈ کیسلر اسپیس جنک کے حوالے سے کی گئی پیش گوئی کو تیس سال ہو چکے تھے ۔سائبیرا کے علاقے میں زمین سے 500میل کی بلندی پر اریڈیم اور کاسموس نامی دو سیٹلائٹس جو 5 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے شمال اور مشرق کی سمتوں میں گردش کر رہے تھے، اچانک آپس میں ٹکرا گئے۔

یہ ٹکراؤ اس قدر خوفناک تھا کہ دونوں سیٹلائٹ 2100 چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے۔گرچہ اس ٹکراؤ سے زمین پر محض چند حصے ہی گرےتھے جو کہ آبادی سے بہت دور تھے ،مگر خلا میں اس حادثے کے اثرات بہت گہرے تھے اور فوراً ہی ڈیبریز کی ایک پتلی تہہ بن کر ہر جانب چھا گئی تھی،جس سے کسی بھی وقت کوئی دوسرا سیٹلائٹ بھی حادثے کا شکار ہو کر ایک اور ڈیبریز بیلٹ بنا سکتا ہے اور یہ سلسلہ زمینی وآبی آلودگی کی طر ح شدید ہوتا چلا جائے گا ۔

جیسے انسان کے ٹیکنالوجی جنون کے باعث دنیا کا ہر خطہ زمینی آلودگی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے اور یہاں تک کے ہمارے سمندروں کی گہرائیوں میں بھی پلاسٹک اور دیگر زیر ِ استعمال اشیاء کی ایک موٹی تہہ بنتی جا رہی ہے۔

اریڈیم اور کاسموس سٹیلائٹ کے حا دثے کے بعد امریکن آرمی کے تعاون سےا سپیس سرویلنس نیٹ ورک پروگرام کا آغاز کیا اور خلا میں موجود سیٹلائٹس کی باقاعدہ مانیٹرنگ کا آغاز کیا گیا ، تاکہ مستقبل میں اس طرح کے کسی حاد ثے کے بارے میں پہلے سے علم ہو۔

2010 ءمیں اس آپریشن کو اپ ڈیٹ کر کے جدید تیکنیکی سہولیات فراہم کی گئیں اور تب سے یہ خلا میں موجود 3700 سیٹلائٹس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

ہر روز 75 ایسے حادثات کے امکانات ریکارڈ کیےجاتے ہیں، جن میں خلا میں موجود نسبتاً چھوٹے اجسام کے ٹکراؤ کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں ۔

اریڈیم – کاسموس کے حادثے کے محض چند ماہ بعد بین الاقوامی خلا ئی مرکز میں خلا باز 100 بلین ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ لیبارٹری میں معمول کے تجربات کر رہے تھے کہ اچانک انھیں وارننگ موصول ہوئی کہ فوری طور پر ہنگامی صورتحال کے لیے تیار کردہ کیپسول میں منتقل ہو کر خود کو بند کرلیں، کیوں کہ خلا میں موجود جنک سے ٹکراؤ کا شدید خطرہ تھا۔

اس کے چند ماہ بعد دسمبر میں خلا بازوں کو ایک دفعہ پھر ایسی ہی شدید صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب ایک سیارے کا ناکارہ حصہ تیزی سے خلا ئی اسٹیشن کی طرف آتا دیکھا گیا۔ ان اجسام کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ بہت چھوٹے اجسام سے ٹکرائو بھی شدید دھماکےسے کم نہیں ہوتا ،مگر اس دفعہ بھی خلائی مرکز بڑی تباہی سے محفوظ رہا ۔

پچھلے ماہ بین الاقوامی خلائی مرکز اس وقت خبروں کا مرکز بن گیا جب اس کے اندر دو ملی لیٹر کا ایک چھوٹا سا سوراخ دیکھا گیا ،جس سے ہوا مسلسل لیک ہو رہی تھی۔

اس کے بارے میں ابتداء میں یہی قیاس کیا گیا کہ کوئی مائیکرو میٹارائڈ آٹکرا یا ہوگا۔

گرچہ بعد میں کچھ اور حقیقتیں سامنے آئیں، مگر ا سپیس جنک ایک بار پھر دنیا بھر کی سائنسی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔

جس سے ناصرف خلا میں انسانی سرگرمیاں شدید متاثر ہونے کا خطرہ ہے بلکہ زمین کا بیرونی ماحول اور زمین کے باسی بھی براہ راست اس کی زد میں آرہے ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین