• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیٹ کی تیز تر ہوتی رفتار اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کی بھرمار نے سیکھنے سکھانے کے عمل کو بھی تیز ترین کردیاہے۔ آج اگر بچہ اسکول سے چھٹی کرتاہے تو والدین اسکول کی ایپ پر دیا گیا ’آج کا ہوم ورک‘ نوٹ کرکے بچے کو کروادیتے ہیں یا پھر بچے اپنے کسی کلاس فیلوسے ہوم ورک ڈائری کی تصویر بذریعہ واٹس ایپ منگوالیتے ہیں۔ بچے اپنا اسائنمنٹ مکمل کرکے ایپ پر بھی اَپ لوڈ کردیتے ہیں اور اسی پر ٹیچر کے فیڈ بیک یا اپنے کلاس فیلوز کے کمنٹس سے فیض یاب ہو جاتے ہیں۔ سائنس کا کوئی تجربہ ہو یاسوشل اسٹڈیز کا موضوع، بچوں کو یوٹیوب لنک دے دیا جاتاہے کہ اسے دیکھیں اور اس سے تیار ی کرلیں۔ دراصل جب کلاس رومز میں نت نئی ٹیکنالوجیز متعارف کرائی جاتی ہیں تو ان کی خریداری کے ساتھ ساتھ انہیں استعمال میں لانے کیلئے ٹیچرز کی تربیت کے اخراجات بھی سامنے آتے ہیں۔ طلباء کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی نئے ٹرینڈز سے مانوس ہو جاتے ہیں، جب طلباء کے سیکھنے کی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ چیز کامیابی کی کنجی گردانی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسکولوں میں سیکھنے اور سکھانے کے جدید و قدیم ٹولز جیسے کہ ٹیبلٹس، پروجیکٹرز، لیپ ٹاپس، کمپیوٹرز اور مہنگی ٹیکنالوجیز سے لدی پھندی کلاس رومز طلبہ سے بہتر نتائج حاصل کرنے کیلئے کافی ہیں یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب ابہام کا شکار ہے، ضروری نہیں کہ کمپیوٹر اسکرین پر چمکتے ڈیجیٹل پروگرام اور ڈیوائسز طلباء کی اکیڈمک صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بہت کمال دکھارہی ہوں، اس سے بھی اوپر ایک چیز ہے اور وہ ہے اعلیٰ معیار کی تدریس!

اگر آپ کا بچہ کسی ایسے اسکول میں پڑھتا ہے، جہاں وہ نت نئی ٹیکنالوجیز کے ذریعے تعلیم حاصل کررہاہے مگر دوسری جانب آپ کے گھر میں انٹرنیٹ سے جڑا ٹیبلٹ یا کمپیوٹر نہیں ہےتو پھر آپ کے بچے کے سیکھنے کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔

ٹیکنالوجی ہو یا کوئی بھی نئی ایجاد، اس میں فوائد کے ساتھ کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں۔ اگر ایک ٹیچر کے لیکچرکا سارا دارومدا ر انٹرنیٹ پر ہے اور انٹرنیٹ کی رفتار سست ہے یا پھر نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر اسے بغیر ٹیکنالوجی کے سبق پڑھانا ہوگا، جس سے نہ صرف ٹیچرکا کام بڑھے گا بلکہ ممکن ہے کہ وہ بہت سے مٹیریل کی عدم دستیابی کے باعث بہتر لیکچر نہ دے پائے۔

ایجوکیشنل ٹیکنالوجی دراصل مہنگی ہوتی ہے اور اکثر اسکول مالکان اور ٹیچر پر یہ دباؤ بھی ہوتاہے کہ وہ بچوں کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے جدید ٹولز استعمال کریں۔ چونکہ اسکولوں کو بھی زمانے کے ساتھ چلنا ہے، اسی لیے وہ موجودہ ٹرینڈکے مطابق ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر کی خریداری پر رقم خرچ کرتے ہیں۔

یہ موبائل ایپس کا زمانہ ہے، جوکہ اساتذہ کو معلومات جمع کرنے اور طلباء کوجاننے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان ایپس کے ذریعے اساتذہ اپنے طلباء کے موضوعات، لیول، حاضری کے اعدادوشمار، پرفارمنس، کوئز اور انگریزی زبان کی استعداد وغیرہ کی معلومات بآسانی دیکھ سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر گروپ کے سربراہ کے طور پر یا انفرادی حیثیت سے مداخلت کر سکتے ہیں۔

ایجوکیشنل ٹیکنالوجیز اساتذہ کواس قابل بناتی ہیں کہ وہ دیکھیں کہ طلباء میں کہاں کمزوری ہے اور کونسا نقطہ ہے جو انہیں سمجھ نہیں آرہا۔ اگر کوئی نقطہ کسی ایک طالب علم کو سمجھ آجاتاہے تو وہ اپنے ساتھی کو سمجھا سکتا ہے۔ دراصل ٹیکنا لوجی طلباءکو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ سیکھیں کہ ان کو کب اور کیا سیکھنا ہے۔

اگر اسکول میں درس و تدریس کیلئے ایجوکیشنل ایپس استعمال کی جارہی ہیں تو طلباء کو یہ ایپس اپنے وقت اور ضرورت کے حساب سے استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ویسےبھی طلباء کی کارکردگی سے سب کچھ سامنے آجا تاہے۔ دراصل طلباء کے سیکھنے یا سمجھنے کی بنیاد پر ایپس یا پروگرامز تیار کیے جاتے ہیں۔ مزیدبرآں بہت زیادہ ایپلی کیشنز اور سوفٹ ویئرز کی موجودگی میں طلباء ایک ہی کلاس میں مختلف سسٹمز کو استعمال کرتے ہوئے ایک جیسی چیزوں کو مختلف زاویوں سے سیکھتے ہیں، جس سے ان کی دلچسپی اور سیکھنے کا دائرہ وسیع ہوتاہے۔ ممکن ہے کہ کچھ طلباء لیکچر کے ماحول میں ترقی کی منازل طے کرلیں اور ہوسکتا ہے بعض طلباء انفرادی طور پر بہت اچھاسیکھ کرنئی چیزیں دریافت کرنے کی راہ پر چل پڑیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی اپنی جگہ لیکن گیجٹس کا استعمال دراصل بچوں میں سستی اور کاہلی بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال Auto Correct ہے ،جس نے بڑے بڑوں کا املا خراب کردیا ہے۔ اب تو ایسا ورڈپروسیسر بھی موجود ہے، جو آواز کو سن کر ٹائپ کردیتا ہے تو سوچیں کہ لکھنے کی محنت اورصلاحیت کے متاثر ہونے کا خدشہ کس قدربڑھ سکتاہے۔ 

تازہ ترین