• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا سید حسن ظفر نقوی

بارش تھی کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور مَیں تیسری منزل پر واقع اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی سے ، اپنے نئے اسمارٹ فون سے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے میں مصروف تھا۔موسلا دھار بارش کی وجہ سےسڑک پر تقریباً ڈیڑھ فیٹ پانی کھڑا ہوچکا تھا، درجنوں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں پانی میں پھنسی تھیں۔ متاثرین ، مددکی تلاش میں یہاں وہاں گھوم رہے تھے کہ شاید کوئی ان کی گاڑیوں کو پانی سے نکالنے یا آگے دھکیلنے میں مدد کرے۔پانی میں پھنسی کچھ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر خواتین اور بچّے بھی تھے۔ اور مَیں اس تمام صورتِ حال کو انتہائی انہماک سےموبائل کیمرے کی آنکھ میں بند کرنے میں مصروف تھا، بلکہ کمنٹری بھی کرتا جارہا تھا ’’انتظامیہ کی بے حِسی دیکھیے! شہری امداد کے منتظر ہیں، مگر کوئی حکومتی اہل کار یا رضا کار ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچ رہا۔ ‘‘مجھے یقین تھا کہ سوشل میڈیا پر میری کم از کم کوئی ایک ویڈیو تو ضرور وائرل ہو کر کسی چینل کی بریکنگ نیوز بن جائے گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش نے طوفانی رنگ اختیار کرلیا۔ گاڑیوں میں پھنسے لوگ اپنی سواریاں چھوڑ چھوڑ کرپناہ کے لیے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔پانی دو بلکہ تین فیٹ کی سطح کو چھو رہا تھا۔ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ سے ماحول اور خوف ناک ہو گیا ۔ اچانک میری نظر ایک گاڑی پر پڑی، جس میں ایک خاتون کھڑکی سے گردن باہر نکال کر مدد کے لیے چِلّارہی تھیں۔ شاید گاڑی کے دروازے لاک ہوچکے تھے، مگر وہاں کوئی مدد کرنے والا نہ تھا۔ مَیں نے جلدی سے اپنے موبائل کیمرے کو زوم کیا اور اس خوف زدہ عورت کے چہرے کے تاثرات کی عکس بندی کرنے لگا۔ مَیں نئےموبائل فون کے رزلٹ سے بہت متاثر اور خوش تھا کہ اس کی وجہ سے آج بہت سی ایکس کلیو سیوو ویڈیوز بن گئیں۔ جب خاتون سے کچھ نہ ہو سکاتو انہوں نے بڑی جدّوجہد کے بعد اپنے آپ کو گاڑی کی کھڑکی سے باہر پانی میں گرادیا، مگر پانی میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پارہی تھیں ۔ اوہ… یہ تو اور بھی اچھا شاٹ ہے، مَیں خیالی دنیا میں اپنی اس ویڈیو کومُلک بھر میں مشہور ہوتا دیکھ رہا تھا اور دل میں یہ خیال آرہا تھا کہ عن قریب اس ڈوبتی عورت کی لائیو ویڈیو بنانے پر مجھےکتنے ایوارڈز اور انعامات سے نوازا جائے گا۔

ابھی مَیں ان ہی خیالوں میں گُم تھا کہ شدید گڑ گڑاہٹ ہوئی، جیسے زلزلہ آگیا ہو،۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا ،بالکونی کا فرش جیسےپھٹنے لگا۔ خوف کے مارے مَیں نے بالکونی کی مُنڈیر پکڑنی چاہی، مگر ممکن نہ ہوا۔مَیں کمرے کی طرف بھاگنا چاہتا تھا، قدم اٹھایا ہی تھا کہ یک دَم بالکونی نیچے گرنے لگی۔ ہائے…!! جس کیمرے میں میرا پورامستقبل محفوظ تھا، وہ تیسری منزل سے نیچے پانی میں گرچکا تھا اور پھر مَیں خود بھی ٹوٹتی بالکونی سے نیچے کی طرف آرہا۔ گِرتے گِرتے بالکونی کا ایک سریا میرے ہاتھ آگیا، جس کے سہارے لٹکا مَیں لوگوں سےمدد کی بھیک مانگ رہا تھاکہ اچانک میری نظرنیچے پڑی، جہاں میڈیا والے اور کئی افراد ہاتھوں میں موبائل لیےمیری ویڈیو بنانے میں مشغول تھے۔ یقیناً وہ اس ایکس کلیوسیورپورٹِنگ اور لائیو ویڈیو سے اپنے چینل یا پیجزکی ریٹنگ بڑھانےکے خواب دیکھ رہےہوں گے۔اور تب زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا، محض ایک سریےکے سہارے لٹکے مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا، دنیا نہیں ’’مکافاتِ عمل‘‘ ہے۔

تازہ ترین