• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عفت زرّیں، ملیر، کراچی

’’مام، مام !ویئر آر یو…؟؟‘‘ کی صدائیں لگاتی فاطمہ دروازہ کھول کر ثروت جہاں کے کمرے میں داخل ہوئی ،تو انہوں نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا ’’آگئیں تم ؟اتنی دیر کیوں ہوگئی؟‘‘ فاطمہ ماں کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی،’’یو نو مام، دِس اِز پاکستان۔ ڈِرگ روڈ پر وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثّر تھی۔‘‘ ثروت جہاں نے ایک آہ بھری ،’’ ہاں یہ تو روز کا مسئلہ بن گیا ہے۔‘‘ فاطمہ نےماں کے ہاتھ میں قلم اورمیز پر بکھرے صفحات دیکھتے ہوئے مسکرا کے پوچھا’’ پھر کچھ لکھا جا رہا ہے؟‘‘ ’’ ہاں، تمہیں کوئی اعتراض ہے کیا؟‘‘ ’’نہیں بھلا مجھےکیوں اعتراض ہو گا؟ویسے اگر آپ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال سیکھ لیں ،تو اتنی مصیبت نہ اُٹھانی پڑے، آرام سے کمپوزنگ اور میٹر ای میل ہوجائے گا یا پھر اپنا ایک الگ پیج بھی بنا سکتی ہیں ، جہاں اپنی تحریریں، خیالات پوسٹ کرتی رہیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کی تحریریں پڑھ سکیں گے۔ دُوسری بات یہ کہ ہاتھ سے لکھی تحریریں پوسٹ کروانے کے لیےجو دُوسروں کے ترلے منّتیں کرنی پڑتی ہیں ناں، اُن سے بھی نجات مل جائے گی۔ ‘‘فاطمہ نے ماں کو سمجھانے کے انداز میں کہا۔ جواباً ثروت جہاں نے خاصی خفگی کا اظہار کیا ’’دنیاچاہے کتنی بھی ترقّی کیوں نہ کرلے، مَیں قلم اور کتاب سے اپنا تعلق نہیں توڑوں گی، جو مزا ہاتھوں میں کتاب تھام کر پڑھنے اور قلم سے لکھنے میں ہے، وہ کمپیوٹر یا موبائل پر اُنگلیاں گھِسنے میں کہاں… اور جب مجھے کمپیوٹر ، موبائل فون سے دل چسپی ہی نہیں ، تو تم کیوں بار بار اصرار کرتی رہتی ہو؟یہ سوائے بربادیٔ وقت کے اور کچھ نہیں۔ فائدہ ہی کیا ہے اس ٹیکنالوجی کا ، جسے دیکھو ہر وقت واٹس ایپ ، فیس بُک میں لگا رہتا ہے، رشتوں کی تو اہمیت ہی ختم ہو گئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے ماں کی طرف دیکھا۔ ’’مائی ڈیئر مام! بات دل چسپی کی نہیں، ضرورت کی ہے ۔ ہمیں وقت کے ساتھ چلنا چاہیےاور اب ایسا بھی نہیں ہےکہ آپ کو انگریزی نہیں آتی، اتنے عرصے آپ نے انگریزی زبان پڑھائی ہے، آپ کو تو کوئی مشکل بھی نہیں ہوگی۔آج کل تو جو لوگ انگریزی سے واقفیت نہیں رکھتے یا ان پڑھ ہیں،وہ بھی کمپیوٹر، اسمارٹ فون استعمال کررہے ہیں۔ ‘‘ ’’اچھا ٹھیک ہے ، فی الحال تومیرا کوئی ارادہ نہیں، جب ہوگا تو سب سے پہلے تمہیں بتاؤں گی۔‘‘ ثروت نے فاطمہ کو ٹالا۔’’ویسے آپ کا ستارہ اَسد ہے ناں؟‘‘فاطمہ بھی کہاں باز آنے والی تھی۔’’ ہاں اَسد ہی ہےاور مَیں انتہائی ضدّی اوراپنی بات پر اَڑی رہنے والی ہوں۔ یہی کہنا چا رہی ہو نا ںتم؟ ‘‘ثروت نے قدرے سختی سے جواب دیا تو فاطمہ نے قہقہہ لگا کر ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا ’’اور میرا اسٹارجدّی ہے، پتا تو ہے ناں آپ کو کہ یہ کس کا اسٹار تھا؟‘‘ ثروت اس کا اشارہ سمجھتے ہوئےبولیں’’ہاں ہاں معلوم ہے، قائداعظم کا۔‘‘ فاطمہ ہمیشہ اس بات پر ناز کرتی کہ اس کا اسٹار وہی ہے، جو قائداعظم کا تھااور ثروت ہمیشہ اُسے یہی کہتیں کہ اس میں تمہارا کیا کمال ہے کہ تمہارا اور قائد اعظم کا اسٹار ایک ہے۔

فاطمہ کو گھر میں انگریزی میں بات کرنا بہت پسند تھا، مگر ثروت ہمیشہ یہی کہتیں کہ اُردو ہماری قومی زبان ہےاور وہی زیادہ سے زیادہ بولنے کی کوشش کیا کرو۔‘‘جواباً وہ چِڑ کر کہتی ’’مام! میرے سب ٹیچرز کہتے ہیں کہ میری اُردو بہت اچھی ہے۔اُردو میں ستّر، پچھتّر فی صد نمبرز آتے ہیں،اب اگر آپ کو یہ بھی کم لگتے ہیں، تو آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ایک سے زائد زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ اورمیرا بس چلے تو دنیا کی ساری زبانیں بولنا سیکھ لوں۔‘‘ دراصل اُس کا اور ثروت جہاں کا رشتہ صرف ماں ،بیٹی ہی کا نہیں ، دوست، غم گسار اورکبھی کبھی ناصح کا بھی ہو جاتا تھا۔ فاطمہ کودُوسروں کی تہذیب و ثقافت سے متعلق جاننے، مختلف زبانیں سیکھنے، نقل اُتارنے اور سیر و سیاحت کا بے حد شوق تھا۔ جب کہ ثروت جہاں ایک بہت روایتی، سیدھی سادی سی خاتون تھیں۔

ایک دن فاطمہ ،ثروت کے کمرے میں آئی اور بڑی سنجیدگی سے بات شروع کی ’’مام! آپ سے ایک بات کہنی ہے۔‘‘’’ہاں کہو‘‘ثروت اس کے انداز پر چونک گئیں۔’’اگر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرونِ مُلک چلی جاؤں تو کیسا رہے گا؟کیا آپ لوگ مجھے اکیلے جانے کی جا زت دے دیں گے؟‘‘ ثروت سمجھیں کہ وہ مذاق کر رہی ہے، انہوں نے کہا ’’ تمہارے بابا اجازت دے دیں تو چلی جانا، مجھے کیا اعتراض ہوگا۔‘‘ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ’’ دیکھیے گا، مَیں بھی ایک دن قائداعظم کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےمُلک سے باہر جائوں گی۔‘‘ وہ بابائے قوم کو آئیڈیلائزکرتی ، اسی لیے بات بات پر اُن کی مثالیں دیتی۔اُسے لگا ثروت نے اس کی بات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا، ماں کی گود میں سر رکھتے ہوئےبولی ’’ماما! مَیں سیریس ہوں، آپ مذاق سمجھ رہی ہیں؟‘‘ اب ثروت کو معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہواتو قدرے بلند آواز میں بولیں۔’’ہوش میں تو ہوتم ؟اپنے ابّا کو نہیں جانتیں کیا؟ وہ تمہیں کالج تک تواکیلے جانے کی اجازت نہیںدیتے۔ اور تم مُلک سے باہر جا نے کی اجازت مانگ رہی ہو‘‘ وہ بھی اُٹھ بیٹھی ’’دیکھیں ،جب آپ کسی مشکل یا تذبذب کا شکار ہوتی ہیں ، تو استخارہ کرتی ہیں ناں، پلیز آپ میرے کام کے لیے بھی اللہ کی رائے لے لیں۔ اگر استخارے کا جواب نفی میں آیا، تو پھر مَیں کبھی باہر جانے کی بات نہیں دُہراؤں گی اور اگرجواب ’’ہاں ‘‘ میں آیا، تو آپ کو بابا سے بات کرنی پڑے گی۔‘‘ خوش قسمتی سے استخارے کا جواب فاطمہ کے حق میں آگیا۔ اورتب چار و ناچار بابا کو بھی اجازت دینا ہی پڑی۔ فاطمہ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ IELTS کے امتحان کی تیاری کی اور خوش قسمتی سے کام یاب بھی ٹھہری۔ویزا آیا ، تو اُس نے اشک بار آنکھوں سےماں کو دیکھا، ’’اللہ کسی کی محنت اور لگن رائیگاں نہیں جانے دیتا ،وہ دلوں کی بھید جانتا ہے۔ جس دن استخارے کا جواب ہاں آیا تھا ناں، اُسی دن مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ویزا بھی مل جائے گا۔‘‘

اُس نے امریکا جانے سے قبل ماں کو بھی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ شناس بنا دیا تاکہ اُس کے جانے کے بعد وہ اس سے بآسانی رابطے میں رہیں۔ اب ثروت کو بھی وہ ٹیکنالوجی ، جو پہلےزحمت لگتی تھی، رحمت لگ رہی تھی۔ فاطمہ ہر روز یو نی وَرسٹی سے فارغ ہو کر ایک گھنٹہ ماں سے بات کرتی اور دن بھر کی رُوداد سناتی، اُس کے کہنے پر اب ثروت نے فیس بُک پیج بھی بنا لیا تھا، جہاں وہ اپنی تحریریں پوسٹ کرتیں۔ اسمارٹ فون ، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کو بُرا بھلا کہنے والی ثروت جہاں کو جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت کا اندازہ ہورہا تھا، گو کہ اب بھی وہ دن کا کچھ وقت کتب بینی اور قلم سے لکھنے میں صرف کرتیں۔ تاہم، زیادہ تر کام کمپیوٹر ہی پر انجام دینے کی عادی ہوگئی تھیں، کبھی کبھار فاطمہ سے ویڈیو کال پر کہتیں ’’بھلا ہو انٹرنیٹ ایجاد کرنے والوں کا کہ میری بیٹی سات سمندر پار ہونے کے با وجود بھی میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے۔ مَیں تو بلا وجہ ہی اسے لعنت سمجھتی رہی۔ ویسے اصل قصور تم بچّوں کا ہے، تمہاری نسل اگراس جدید ٹیکنالوجی کا درست استعمال کرے، تو کیا کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘جب کہ فاطمہ نے بھی اپنی خُوش گفتاری،اعلیٰ اخلاق اور والدین کی بہترین تربیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئےپر دیس میں سب دوستوں ، اساتذہ کے دل جیت لیے تھے۔ویسے تو اس کے خاندان کے کئی لڑکے بیرونِ مُلک اعلیٰ تعلیم کے لیے جا چُکے تھے، لیکن لڑکی پہلی فاطمہ تھی اور اُس نے بھی والدین کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اپنی معاشرتی روایات، خُوش اخلاقی اور ملن ساری سے پاکستان کا اچھا ہی تاثر قائم کیا ۔ویڈیو کال پر سب ہی گھر والے اس سے باقاعدگی سےبات کرتے۔

رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو ثروت کو بہت فکرہوئی، پتا نہیں فاطمہ روز ے رکھے گی بھی یا نہیں، اُن کی لاڈلی کو سحری میں کون اُٹھائے گا، اُسے افطاری کون دے گا… وہ ابھی انہی سوچوں میں گُم تھیں کہ واٹس ایپ پر فاطمہ کی کال آگئی ۔ اُس نے بتایا کہ ’’میں سحری کرنے اُٹھی تھی، یہاں روزے کا دورانیہ تھوڑا لمبا ہے، مگردن بآسانی گزر جاتا ہے۔ ‘‘ ’’تم روزے رکھ رہی ہو؟‘‘ثروت جہاں نے حیرانی و خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا۔ ’’جی بالکل! ماما! آپ کیا سمجھ رہی ہیں، کیا میں مریخ پر چلی گئی ہوں؟جہاں روزے نہیں رکھ سکوں گی۔ بس یہاں کے سحر و افطار میں اپنے مُلک جیسی بات نہیں۔‘‘ عید آئی تو فاطمہ بہت روہانسے لہجے میں بولی، ’’مجھے آپ لوگ بہت یا دآرہے ہیں۔ ماما! میری عیدی سنبھال کے رکھیے گا، مَیں واپس آتے ہی آپ سے لوں گی۔ آپ نے تومیرے حصّے کی ساری عیدی اپنے پاس رکھ لی ہوگی، سنہری موقع جو ہاتھ آیا ہے آپ کے۔‘‘ اُس کی شکایت سُن کر روتے روتے ثروت کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ’’تمہیں ہی شوق تھا جانے کا، اب یہ سب تو جھیلنا پڑے گا۔‘‘ فاطمہ بھی رو پڑی۔’’مجھے پاکستان کی عید اور آپ سب بہت یاد آرہے ہیں۔ پاکستان کی ایک ایک چیز یاد آتی ہے۔ ماما! اتنی محبِّ وطن میں شاید پہلے نہیں تھی ،جتنی اب ہوگئی ہوں۔‘‘ ثروت نےبڑی ہمّت سے مُسکرا کر، اُسے گالوں پر بہتے آنسو پونچھنے کے لیےکہا ’’تم تو میری اتنی بہادر بیٹی ہو۔رونا بالکل نہیں ہے۔ شاباش…‘‘

وہ ثروت جہاں، جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس قدر خلاف تھیں، اب گھنٹوں انٹرنیٹ پر بیٹھی بیٹی سے خوب باتیں کیا کرتی ہیں۔ گوکہ وہ آج بھی بہت روایتی، سیدھی سادی خاتون ہیں، لیکن اب قدرت کی ہر تخلیق کے ساتھ، سائنس کی ہر ایجاد کو بھی اچھا مانتیں ہیں، بہ شرط یہ کہ استعمال درست ہو۔ اُٹھتے بیٹھتے اُن کا ایک ہی مقولہ ہوتا ہے ’’تبدیلی وہی اچھی، جو مثبت ہو۔‘‘

تازہ ترین