• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوان الحق رضی

ہوچی من کے دیس ’’ویت نام‘‘ کی سیّاحت کا پروگرام تشکیل پایا، تو حُسنِ اتفاق دیکھیے، مستنصر حسین تارڑ کی کتاب’’ ویت نام تیرے نام‘‘ ہاتھ لگ گئی، جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ’’یہ زندگی دنیا دیکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کا احساس شدّت سے مجھے پچھلے دنوں ہوا، جب مَیں ویت نام گیا۔میری آوارگی کی خواہشوں کی کسی کتاب میں ویت نام کا نام نہ تھا۔ اگرچہ امریکا کے خلاف ویت نام کی جنگ میری جوانی کے وحشی جذبات کا سب سے بڑا ارمان تھا۔ یہ جنگ ہم سب کے خون میں گردش کرتی تھی۔ ایک جانب تیسری دنیا کا ایک کم زور اور لاچار مُلک تھا،جس کا رقبہ ہمارے بلوچستان سے بھی کم ہوگا اور دوسری جانب، دنیا کی سب سے قاہر اور طاقت وَر سُپر پاور تھی، جس نے پورا ویت نام جلا کر راکھ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں جہاں ویت نام کی زمین تھی، وہاں جو کچھ بھی تھا، انسان، جانور، جنگل اور پھول سب کے سب آگ کے سُپرد ہوئے، یہاں تک کہ جھیلیں اور دریا بھی سُلگ اُٹھے۔‘‘تو صاحبو! ویت نام کے حوالے سے ہمارے خیالات بھی کم و بیش تارڑ صاحب سے ملتے جلتے ہیں کہ اس کے ذکر سے ذہن کے پردے پر ماضی کے واقعات، ویت کانگ گوریلوں کی چھاپہ مار کارروائیاں، دریائے میکانگ، ہنوئی، سائیگون پر امریکی بم باری، باکسر محمّد علی کا ویتنام جنگ میں جانے سے انکار، پھر امریکی فوج کی ذلّت آمیز پسپائی،امن معاہدہ، پاکستان میں ویت نامی مسلمان مہاجرین کی آمد، وغیرہ ایک فلم کی مانند چلنے لگتے ہیں۔ 

ہوچی مَن کے دیس میں....
ایک ریستوران میں پیش کیا گیا دیسی کھانا

گو کہ ویت نام ایک طویل جنگ کا شکار رہا ہے، پھر بھی اس کا شمار آج دنیا کی تیزی سے ترقّی کرتی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ تقریباً دس کروڑ نفوس پر مشتمل اس مُلک میں صنعتی ترقّی کا عمل1975ء میں ختم ہونے والی جنگ کے دس سال بعد شروع ہوا۔ اس کی تیز رفتار ترقّی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ2017ء میں ویت نام کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6.8رہا، جو پڑوسی ممالک سمیت دیگر کئی ممالک سے خاصا بہتر تھا۔ یقیناً اس کی بڑی وجہ برآمدات میں غیر متوقّع اضافہ تھا، جس سے فی کس آمدنی میں اضافے کے ساتھ، عوام کی زندگی پر بھی خوش حالی کے اثرات مرتب ہوئے۔ ویتنام کی برآمدات میں کپڑے کی مصنوعات، جوتے، الیکٹرانکس آئٹمز، سی فوڈ، خام تیل، چاول، کافی اور لکڑی کی مصنوعات شامل ہیں۔

ہوچی مَن کے دیس میں....
ہوچی مَن سٹی کی تقریباً ہر شاہ راہ کچھ ایسا ہی منظر پیش کرتی ہے

جنوب مشرقی ایشیاء میں واقع اس مُلک کا سرکاری نام’’ویتنامی سوسائسٹ جمہوریہ‘‘ ہے اور اس کا دارالحکومت، ہنوئی ہے۔یہاں ویتنامی زبان بولی جاتی ہے اور کرنسی’’ ویتنامی ڈونگ‘‘ کہلاتی ہے۔ویتنام کے سب سے بڑے شہر’’ہوچی مَن‘‘ کا قدیم نام’’ سائیگون‘‘ ہے، جسے جنگ کے دَوران اہم کردار ادا کرنے کے باعث شہرت ملی۔ چوں کہ ویت نام نے فرانس سے آزادی حاصل کی تھی، لہٰذا فرانسیسی دَور کے آثار اب تک موجود ہیں، جن میں سب سے مشہور’’نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل‘‘ ہے، جس کی تعمیر کے دَوران ہر چیز فرانس سے درآمد کی گئی۔ انیس ویں صدی کا سینٹرل پوسٹ آفس بھی کیتھیڈرل سے متصل ہے۔ یہاں کی تنگ سڑکوں کے اطراف قائم کھانے پینے کے بے تحاشا اسٹالز اس شہر کی وجۂ شہرت ہیں۔ اگر جنگ کے زمانے کی بات کی جائے، تو ائیرپورٹ پر جنگی جہازوں کے بنکرز موجود ہیں، جنہیں آج تک برقرار رکھا گیا ہے۔ قریب ہی واقع وار میوزیم، کوچی سرنگیں اور انڈی پینڈنٹ پیلس سیّاحوں کو اپریل 1975ء میں لے جاتے ہیں، جب شمالی ویت نام کے ٹینکس نے صدارتی محل کے بڑے آہنی دروازے روند ڈالے تھے۔ محل کے احاطے میں امریکی فوج سے چھینا گیا ایک جنگی طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر نشانِ عبرت کے طور پر کھڑا ہے۔

ہوچی مَن کے دیس میں....
مضمون نگار، سابقہ صدارتی محل کے باہر کھڑے ہیں

بینکاک سے ہوچی من سٹی تک کا سفر گھنٹے بھر کا ہے، مگر جہاز کی ناہم وار اُڑان نے اُسے نہایت دشوار بلکہ خوف ناک بھی بنادیا۔ موافق موسم کے باوجود اتنے جھٹکے لگے کہ ہمیں جہاز کی کارکردگی پر شُبہ ہونے لگا۔ بہرحال، اللہ اللہ کرکے جہاز نے لینڈ کیا، تو مسافروں نے سُکھ کا سانس لیا۔ ویتنام کے لیے ائیرپورٹ ہی پر ویزا مل جاتا ہے اور ویزے کے حصول کے بعد امیگریشن کی کارروائی بھی انتہائی سُرعت سے ہوتی ہے۔ ہمارا ہوٹل مصروف کاروباری علاقے’’ڈائون ٹائون ‘‘میں واقع تھا۔ مذکورہ ہوٹل سے متعلق بنیادی معلومات ہم پہلے ہی حاصل کر چُکے تھے، اس لیے جاتے ہی منیجر سے کارنر روم کی فرمائش کردی، جس کی وجہ ہر کونے کے کمرے کی دو بڑی شیشے کی کھڑکیاں تھیں۔ ہمارا کمرا سولہویں منزل پر تھا، جہاں سے شہر کا دِل کش نظارہ ایک خوش کن تجربہ تھا۔ کچھ دیر آرام کے بعد آنکھ کُھلی، تو قد آور شیشوں کے پیچھے کالی گھٹائوں کا ڈیرہ پایا، چند لمحوں بعد گرج چمک کے ساتھ تیز بارش شروع ہوگئی، جو جلد ختم بھی ہوگئی، مگر اس قدر تیز بارش کے باوجود شاہ راہوں پر پانی جمع ہوا، نہ ہی بجلی غائب ہوئی۔

ہوچی مَن کے دیس میں....
شہر کی ایک مصروف مارکیٹ، جہاں بیش تر دُکان دار خواتین ہیں

ہوچی من سٹی، جدید ترین بلند عمارتوں کے ساتھ قدیم تہذیب وثقافت کا بھی حامل ہے۔ تنگ، مگر صاف ستھری سڑکیں، گلیاں، قدیم تہذیب کی یاد دِلاتی ہیں، تو دوسری طرف اُس کی بلند عمارتیں، دورِ جدید کی عکاّسی کرتی ہیں۔ تاہم، دوسرے بڑے شہروں کے برعکس وہاں فلائی اوورز اور انڈر پاسز کی تعداد کم ہے۔ چوں کہ معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، لہٰذا ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔ اگلی صبح بھرپور ناشتے کے بعد ہم سٹی ٹور کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارا پہلا پڑائو قریب ہی واقع ’’سائیگون نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل‘‘ تھا، جو ہوٹل کی کھڑکی سے بھی نظر آتا تھا۔ 1880ء کی دہائی کے اواخرمیں تعمیر کیے گئے اس کیتھیڈرل کا شمار اُس وقت کی بدھسٹ ویت نام میں کیتھولکس کی سب سے بڑی اور آخری نشانیوں میں کیا جاتا ہے۔ پیرس اسکوائر میں واقع اس چرچ کو ’’نوٹرے ڈیم‘‘ کا نام 1959 ء میں دیا گیا۔ عمارت میں استعمال ہونے والی سُرخ اینٹیں فرانس سے درآمد کی گئیں۔ نہایت خُوب صُورت باغ میں دو بڑے بیل ٹاورز اِستادہ ہیں، جہاں کانسی کی چھے گھنٹیاں آج بھی عبادت کے لیے بجتی ہیں۔ چرچ میں نامناسب کپڑوں میں داخلہ ممنوع ہے۔ وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر سابقہ صدارتی محل’’ ری یونی فیکیشن پیلس‘‘ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے، جسے اب میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ گیٹ پر دو ٹینک کھڑے تھے، جن کی توپوں کا رُخ عمارت کی طرف تھا۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ جنگ کے دَوران یہ ٹینکس صدارتی محل کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور اندر جانا چاہ رہے تھے کہ صدر نے اچانک ہتھیار پھینکنے کا اعلان کردیا، یوں جنگ ختم ہوگئی۔ صدارتی محل اب کسی میوزیم سے زیادہ عبرت کی جگہ معلوم ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے یہاں زندگی تھم سی گئی ہو۔ اس کی دیواروں پر جگہ جگہ جنگ کے دَوران ڈھائے جانے والے مظالم کی تصاویر آویزاں ہیں، جن کے نیچے رُوح فرسا تفصیلات بھی درج ہیں۔ ایک کمرے میں جنگ سے متعلق دستاویزی فلم بھی چل رہی تھی۔ صدارتی محل پانچ منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں صدر کی خواب گاہ، کھانے کا کمرا، وسیع و عریض میٹنگ روم کے علاوہ تیسری منزل پر تاش کھیلنے کی جگہ اور ایک منی سنیما گھر بھی ہے۔ چو تھی منزل پر صدر صاحب کی تفریحِ طبع کے لیے کیسینو بھی موجود تھا۔ تہہ خانے میں سرنگیں، ٹیلی کمیونیکیشن سینٹر اور وار کمانڈ روم بنایا گیا تھا، جہاں سے دورانِ جنگ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا۔ وارکمانڈ روم کی دیواروں پر محاذِ جنگ کے اصل نقشے لگے ہوئے ہیں۔ چھت پر ہیلی پیڈ اب تک قائم ہے، جہاں سے صدر جنگ بندی سے پہلے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہوئے۔صدارتی محل کی سیر کے دوران ایک تو حبس بہت شدید تھا اور دوسری جانب، ائیرکنڈیشنر نہ ہونے اور عمارت کے مختلف فلورز پر بذریعہ سیڑھی چڑھنے اُترنے کے باعث جلد ہی پسینے میں شرابور ہوگئے۔ البتہ، جب چھت پر ہیلی پیڈ دیکھنے گئے، تو آسمان کو کالے بادلوں سے گِھرا پایا۔ باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ تیز بارش شروع ہوگئی۔ اس دَوران یہ دِل چسپ چیز دیکھی کہ شاہ راہوں پر ایک ترتیب سے چلنے والے موٹر سائیکل سواروں نے بارش شروع ہوتے ہی اپنی اپنی برساتیاں کھول لیں، جو سوار کے ساتھ، موٹرسائیکل کو بھی پانی سے محفوظ کرلیتی تھیں۔ موٹر سائیکلز کا ذکر آیا، تو ضمناً بتاتے چلیں کہ ہوچی من سٹی کی کل آبادی تقریباً90لاکھ ہے اور موٹر سائیکلز کی تعداد75 لاکھ تک پہنچ چُکی ہے۔ٹریفک سگنلز پر موٹر سائیکلز کی طویل قطار کے بعد کاروں کا نمبر آتا ہے۔

ہماری اگلی منزل’’بین تھان مارکیٹ‘‘ تھی۔ یہ مارکیٹ ،جو اب اس شہر کی پہچان بن چُکی ہے، 1912ء میں قائم کی گئی تھی۔ روایتی گوتھک طرز پر تعمیر کردہ اس مارکیٹ میں تین ہزار سے زائد شاپنگ اسٹالز ہیں۔ مقامی ہینڈی کرافٹس، کپڑے، جوتے، پرس ، گھڑیاں، چشمے، سووینیرز غرض ضرورت کی ہر چیز خاصے کم نرخوں پر مل جاتی ہے، بس ہر چیز کی قیمت تین سے تقسیم کر کے بات شروع کرنی پڑتی ہے۔ زیا دہ تر کاروبار خواتین کے ہاتھ میں ہے، جن کے بے تکلّفانہ انداز سے متاثر ہو کر ہر کوئی کچھ نہ کچھ خریداری کر ہی لیتا ہے۔ وہاں سُکھائے ہوئے خشک پھل بہ کثرت فروخت ہو رہے تھے، جن میں آم، مالٹے، کیوی، امرود اور انناس وغیرہ شامل ہیں۔نیز، کھانے کے متعدّد اسٹالز بھی تھے۔ وہاں کے کھانوں میں نوڈلز کا استعمال بہت زیادہ ہے، جو مختلف اشیاء کے ساتھ ملا کر لکڑی کی اسٹکس کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔ صبح چھے بجے سے رات بارہ بجے تک کُھلی رہنے والی اس مارکیٹ میں تازہ سبزیوں، پھلوں، مچھلیوں، چکن اور گوشت کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ تاہم، دن ڈھلتے ہی مارکیٹ کے اطراف’’نائٹ بازار‘‘ سج جاتا ہے، جہاں نسبتاً بہتر معیار کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور دوسری طرف، کھانے پینے کی اشیاء کا کاروبار بھی عروج پر ہوتا ہے۔ یہ دو منزلہ شاپنگ مال بھائو تائو کرنے والوں کے لیے بھی آئیڈیل ہے، جہاں مردانہ ٹی شرٹس، زنانہ کپڑے، جوتے، ہینڈبیگز، سوٹ کیس، جیولری اور ٹیکسٹائل مصنوعات بہ کثرت فروخت ہوتی ہیں۔ تاہم، خریداری کے دَوران ٹیگ پر لکھی قیمتوں پر نہ جائیں، بلکہ اپنی بارگیننگ صلاحیتوں کی بنیاد پر دُکان دار سے بحث کریں۔ اُس کی ناراضی کی پروا قطعی نہ کریں، کیوں کہ وہاں ایک جیسی اشیاء بیچنے والے بہت زیادہ اسٹالزہیں۔ویتنام میں قیام کے دوران پھیکے کھانوں سے پیٹ بالکل نہیں بھرتا، سو ہم نے اپنے گائیڈ سے دیسی ہوٹل سے متعلق دریافت کیا، تو اُس نے ایک ریستوران کا پتا بتایا، جو ہمارے ہوٹل کے قریب ہی تھا۔ رات کے کھانے کے لیے اُسی ریستوران میں گئے، جہاں تھالی میں مختلف سالن اور چٹنیاں سجا کر پیش کیے جا رہے تھے۔

کوچی سرنگیں1940ء کی دہائی کے اواخر میں فرانس سے آزادی کی جدوجہد کے دَوران ویت نامی حریّت پسندوں نے انتہائی گھنے جنگلوں میں ہاتھوں سے کھودی تھیں۔ یہ سرنگیں، شہر کے شمال میں 75 کلو میٹر کے فاصلے پر’’ کوچی‘‘ نامی قصبے میں واقع ہیں، جہاں کی زمین سخت اور سُرخی مائل ہے، جو اس طرح کی سُرنگوں کے لیے موزوں ہوتی ہے۔ سُرنگوں کی کل زیرِ زمین لمبائی120کلومیٹر ہے، جس میں داخلے کے خفیہ راستے، رہائشی کمرے، اسٹور، باورچی خانے، اسلحہ خانہ، اسپتال اور کمانڈ سینٹر شامل ہیں۔ آزادی کے بعد ویت نامی فوجیوں نے ان سُرنگوں کو کشادہ کرکے خصوصی طور پر ہوا کی آمدورفت کے انتظامات بھی کیے۔ بعد میں امریکی اور جنوبی ویت نامی فوجیوں سے جنگ میں ویت کانگ گوریلوں کی بہترین پناہ گاہ ثابت ہوئیں۔’’ ویت کانگ‘‘ بنیادی طور پر جنوبی حصّے میں رہنے والے وہ لوگ تھے، جن کی ہم دردیاں شمال کے نیشنل فرنٹ کے ساتھ تھیں۔ وہ ہوچی من کی قیادت میں جنوبی حصّے پر قبضہ کر کے ایک کمیونسٹ حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اُن کے خلاف لڑنے والی امریکی فوج کے علاوہ اس کے اتحادیوں میں جنوبی کوریا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور کچھ چھوٹے ممالک بھی شامل تھے۔1975 ء میں سائیگون پر قبضے کے بعد ویت نام حکومت نے ان سُرنگوں کو ’’وار میموریل پارکس‘‘ میں شامل کر کے محفوظ کرلیا۔ اب ان سُرنگوں کو مزید کشادہ اور پختہ کردیا گیا ہے تاکہ جو لوگ تنگ جگہوں پر جانے سے خوف کھاتے ہیں، وہ بھی اُن میں جاسکیں۔ البتہ ہر دس میٹر کے بعد ایمرجینسی ایگزٹ پوائنٹ بھی بنادیئے گئے ہیں تاکہ کسی پریشانی کی صورت میں باہر نکلا جاسکے۔ زیرِ زمین ایک ریسٹورنٹ بھی بنایا گیا ہے، جہاں وہی روایتی کھانے ملتے ہیں، جو دورانِ جنگ فوجی کھایا کرتے تھے۔

کسی بدھسٹ مُلک جائیں اور اُن کی عبادت گاہ کا، جسے پگو ڈا کہا جاتا ہے، دورہ نہ ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔ لہٰذا،ہمارے پروگرام میں’’ جنّت کے دیوتا، جیڈ‘‘ کے پگوڈے کا دورہ بھی شامل تھا۔ ہمارے لیے اس میں ایک خاص کشش یہ تھی کہ سابق امریکی صدر، باراک اوباما نے بھی وہاں کا دورہ کیا تھا۔ یہ ویت نام کی واحد جگہ ہے، جہاں تائو عقیدے کے لوگ عبادت کرتے ہیں۔ یہ عبادت گاہ 1892ء میں ایک چینی شخص نے اپنے کاروبار میں ترقّی کی نیّت سے تعمیر کروائی تھی۔تاہم، 1984ء سے اس کا نظم و نسق وہاں کی مقامی جماعت نے سنبھال رکھا ہے۔ پگوڈا سے نکلے، تو شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے، ہمارے گائیڈ کی خواہش تھی کہ خُوب صورت جزیرہ’’ Phu Quoc ‘‘بھی دیکھنا چاہیے، جو ویتنام کے خُوب صورت مقامات میں سے ایک ہے، لیکن دوسرے روز ہماری روانگی تھی، لہٰذا جزیرے اور وہاں کے باسیوں سے ملاقات ممکن نہ ہوسکی۔

تازہ ترین