• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبے کے تمام بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے

جنگ پینل :سلطان صدیقی، گلزار محمد خان

عکّاسی :فیاض عزیز

خیبر پختون خوا کے وزیرِ تعلیم، ضیاء اللہ بنگش نے 1978ء میں کوہاٹ کے گائوں، محمد زئی میں جنم لیا۔ سینٹ جوزف اسکول، کوہاٹ سے میٹرک اور پوسٹ گریجویٹ کالج، کوہاٹ سے گریجویشن کے بعد پشاور یونی ورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز معلّم کے طور پر کیا۔ کچھ عرصے کے لیے اسٹیٹ لائف انشورنس میں ملازمت اختیار کی ،بعد ازاں کوہاٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے وابستہ ہوئے۔ تاہم، وہاں بھی زیادہ عرصہ نہ ٹھہر سکے اور صحافت سے وابستگی اختیار کر لی۔

مختلف مقامی و قومی اخبارات میں خدمات انجام دینے کے علاوہ اپنا اخبار، ’’حقائق‘‘ بھی نکالا۔ نیز، کوہاٹ پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ صحافت کو خیر باد کہنے کے بعد ایک این جی او تشکیل دی، جس کے تحت مقامی باشندوں کے علاوہ صوبے کے مختلف اضلاع میں عارضی رہایش اختیار کرنے والے آئی ڈی پیز کی فلاح و بہبود کی خدمات انجام دیں۔ 2011ء میں پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

2013ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ اپنے حلقے سے رُکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، جب کہ 2018ء کے عام انتخابات میں دوسری مرتبہ کام یابی حاصل کر کے صوبائی کابینہ میں وزیرِ تعلیم کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ گزشتہ دنوں ہماری ضیاء اللہ بنگش سے خصوصی گفتگو ہوئی، جسے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

صوبے کے تمام بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے
جنگ پینل سے گفتگو کرتے ہوئے

س :گزشتہ ایک برس کے دوران تعلیم کے شعبے میں آپ کیا تبدیلیاں لائے؟

ج :اگر ہم وزارتِ تعلیم کی گزشتہ ایک سالہ کارکردگی کی بہ جائے پچھلی 6 سالہ پرفارمینس کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ سابق وزیرِ تعلیم، عاطف خان کے دَور میں سرکاری تعلیمی اداروں بالخصوص اسکولز میں سہولتوں اور تدریسی عملے کی کمی دُور کرنے پر خاصی توجّہ مرکوز رہی۔

چناں چہ بیش تر درس گاہوں میں نئے کلاس رُومز اور باتھ رُومز بنانے کے علاوہ پانی و بجلی کا بندوبست کیا گیا۔ نیز، اسکولز کے گرد چار دیواریاں تعمیر کی گئیں اور 40ہزار نئے اساتذہ بھرتی کیے گئے، جب کہ اس مرتبہ وزارتِ تعلیم کا اصل ہدف معیاری تعلیم کی فراہمی کے ساتھ اساتذہ کی کمی پوری کرنا ہے۔

چوں کہ اب قبائلی اضلاع بھی کے پی کے کا حصّہ ہیں، تو صوبے بھر میں 65ہزار نئے اساتذہ کی ضرورت ہے۔ ہم 17ہزار نئے ٹیچرز بھرتی کر چکے ہیں، جب کہ مزید 9,300اسامیاں مُشتہر کی گئی ہیں۔ قبائلی اضلاع میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے 12,500اسامیوں کی منظوری دی جا چکی ہے۔ یوں مجموعی طور پر 30ہزار اساتذہ کی بھرتی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

مارچ 2020ء تک مختلف اسکولز میں40 ہزار نئے اساتذہ کی تعیناتی متوقع ہے، جب کہ حکومت کی مدّت ختم ہونے سے قبل ہی ہم 65ہزار اساتذہ کی کمی پورے کرنےمیں کام یاب ہو جائیں گے۔ ہم پانچ سالہ منصوبے کی روشنی میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے 9ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں، ہم صوبے بھر میں Good School Initiative Programme شروع کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ Good School کے معیار پر وہی اسکول پورا اُترے گا کہ جس میں مناسب تعداد میں کلاس رُومز اور اساتذہ موجود ہوںگے، پینے کے لیے صاف پانی دست یاب ہوگا، ارد گرد چار دیواری ہو گی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھا ئےگا۔

مذکورہ بالا تمام تر سہولتوں سے آراستہ تعلیمی اداروں کے مرکزی دروازے پر پانچ ستاروں پر مشتمل ایک نشان لگایا جائے گا اور یہ’’فائیو اسٹار اسکولز‘‘ کہلائیں گے، جب کہ جن اسکولز میں سہولتوں کا فقدان ہو گا، اُن کے داخلی دروازے پر ستاروں کی تعداد پانچ سے کم ہو گی۔ یوں ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ خود عوام کے سامنے جواب دہ ہو گی۔

س :تعلیمی اداروں میں سہولتوں کی کمی پورے کرنے کے لیے فنڈز کی تقسیم اور ترقّیاتی کاموں کا طریقۂ کار کیا ہے؟

ج :چوں کہ ہم اسکولز کی انتظامیہ کو عوام کے سامنے جواب دہ اور علاقہ مکینوں کو اسکولز کی نگرانی کا ذمّے دار بنانا چاہتے ہیں، چناں چہ ہم اسکولز کی سطح پر قائم ’’پیرنٹس ٹیچرز کمیٹیز‘‘ (پی ٹی سیز)کے ذریعے فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔

حال ہی میں 2ارب روپے کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ رقم اسکولز کی انتظامیہ کو ملنے کے بعد پی ٹی سی اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس سے اسکول کی کون سی ضرورت پوری کرنی چاہیے۔

متعلقہ کمیٹی اپنی ترجیحات کے مطابق اور اپنی نگرانی میں ترقّیاتی کام کروائے گی۔ اگلے بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی کاؤنسل کا چیئرمین یا مقامی یونین کاؤنسل کا رُکن بھی اس کمیٹی کا ممبر ہو گا۔ یوں اساتذہ، والدین اور منتخب مقامی نمایندوں کی باہمی مشاورت سے اسکولز میں ترقّیاتی کام ہوں گے۔

سہولتوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ایک اسکول کو 30لاکھ روپے دیتے ہیں۔ اگر یہ رقم ہم محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے توسّط سے خرچ کریں، تو 30لاکھ میں صرف ایک کلاس رُوم ہی بن پائے گا۔

س :بچّوں کو درس گاہوں میں لانے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟

ج :اس وقت صوبے بھر میں 26لاکھ بچّے اسکولز سے باہر ہیں، جو لمحۂ فکر ہے۔ چوں کہ مَیں نے ان تمام بچّوں کو اسکولز میں داخل کروانے کا بیڑا اٹھایا ہے، لہٰذا اس مقصد کے لیے رواں برس اپریل میں داخلہ مُہم شروع کی اور چار ماہ کے دوران 8لاکھ بچّے مختلف اسکولز میں داخل ہو چکے ہیں، جب کہ باقی 18لاکھ بچّوں کی انرولمنٹ کے لیے رواں ماہ نئی داخلہ مُہم کا آغاز کر رہے ہیں۔

اس وقت قبائلی اضلاع سمیت پورے صوبے میں 54لاکھ بچّے، 36ہزار اسکولز میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ہم 18لاکھ بچّوں کے لیے اسکولز میں سیکنڈ شفٹ کا آغاز کر رہے ہیں۔ چوں کہ صوبے میں مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولز اتنے نہیں ہیں کہ ان میں تمام پرائمری پاس طلبہ کو کھپایا جا سکے۔

لہٰذا، ہم نے سیکنڈ شفٹ میں پرائمری اسکولز کو مڈل اسکولز اور مڈل اور ہائی اسکولز کو ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولز کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر پھر بھی طلبہ داخلوں سے محروم رہ گئے، تو نجی عمارتیں کرائے پر لے کر انہیں اسکولز میں تبدیل کریں گے۔ نیز، فرنیچر اور اساتذہ کا بندوبست کیا جائے گا۔

علاوہ بریں، ہم نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بھی بچّوں کو داخلہ دلوانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دُور دراز علاقوں میں مقیم بچّوں بالخصوص لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کیا جائے گا۔

س :کوالٹی ایجوکیشن یا معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج : اس وقت مشترکہ قومی نصاب کی تیاری کے سلسلے میں مرکزی سطح پر مشاورت جاری ہے۔ اس ضمن میں نجی تعلیمی اداروں، وفاق المدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور کم و بیش 70فی صد کام مکمل ہو چکا ہے۔

چوں کہ ہماری کوشش ہے کہ انگریزی اور اردو کے ساتھ مقامی زبانوں کو بھی ذریعۂ تعلیم بنایا جائے، چناں چہ ارادہ ہے کہ پرائمری تک ذریعۂ تعلیم مادری زبان ہو ، اس کے بعد انگریزی بھی شامل کر دی جائے۔ اگر ہم اس مقصد میں کام یاب ہو گئے، تو یہ پورے مُلک کے لیے ایک مثالی اقدام ہو گا۔ نیز، ہم عن قریب ہی صوبائی ایجوکیشن کانفرنس بھی منعقد کر رہے ہیں، جس میں مُلک بھر سے ماہرینِ تعلیم شریک ہوں گے۔

س :کوالٹی ایجوکیشن کے لیے تو معیاری تدریسی عملے کی ضرورت ہو گی، جب کہ قبائلی اضلاع میں میٹرک پاس افراد کو ٹیچر بھرتی کیا جا رہا ہے؟

ج :قبائلی اضلاع میں 5ہزار نئے اساتذہ تعینات کیے جا رہے ہیں اور اُن کے لیے بھی گریجویشن ہی کی شرط رکھی گئی ہے۔ چوں کہ وہاں ہم نے مقامی افراد ہی کو اساتذہ کے طور پر بھرتی کرنا ہے اور اُن علاقوں میں شرحِ خواندگی صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت کم ہے، تو وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ اگر قبائلی اضلاع میں مطلوبہ تعداد میں گریجویٹس موجود نہ ہوں، تو پھر انٹر یا میٹرک پاس افراد کا جونیئر پی ایس ٹی کے طور پر تقرر کیا جائے۔

واضح رہے کہ ابھی 2,400اسامیاں مُشتہر ہوئی ہیں اور ان کے لیے ایک لاکھ 24ہزار درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ بہر کیف، امید ہے کہ ہمیں ہر قبائلی ضلعے سے مطلوبہ تعلیمی قابلیت کے حامل افراد مل جائیں گے۔

س :محکمۂ تعلیم میں تقرّر و تبادلہ ہمیشہ ہی سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ منظورِ نظر اور سفارشی افراد تو اپنے مَن پسند تعلیمی اداروں میں تقرر کروانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں، جب کہ عام افراد رُلتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے کے تدارک کے لیے بھی کوئی حکمتِ عملی تیارکی گئی ہے؟

ج : ہم نے محکمۂ تعلیم میں با اثر شخصیات کی مداخلت ختم کرنے کے لیے ’’ای ٹرانسفر پالیسی‘‘ اپنائی ہے۔ ایپ پر ہر ضلعے کی خالی پوسٹس اَپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ جب کوئی امیدوار آن لائن درخواست جمع کرواتا ہے اور فارم میں دیے گئے سوالات کے جوابات دیتا ہے، تو اُسی وقت اُسے بتا دیا جاتا ہے کہ وہ تبادلے کا اہل ہے یا نہیں۔ یعنی صرف میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں اور تبادلے ہو رہے ہیں۔

س :محکمۂ تعلیم میں’’ اِنڈی پینڈینٹ مانیٹرنگ یونٹ ‘‘(IMU) بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کی کارکردگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج :آئی ایم یو کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے گھوسٹ اسکولز اور گھوسٹ ٹیچرز کے خاتمے کے ساتھ درس گاہوں میں سہولتوں کے فقدان کا بھی اندازہ ہوا۔ نیز، تعلیمی اداروں میں اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ اب یہ کے پی ایجوکیشن اتھارٹی میں تبدیل ہو چکا ہے اور ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں مزید بہتری آئے گی۔

س :فیس کے معاملے میں نجی اسکولز کی مَن مانیاں روکنے کے اقدامات کیوں نہیں کیے جارہے؟

ج :حکومت ہر ممکن حد تک اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن کبھی والدین تو کبھی نجی اسکولز کے مالکان عدالتوں سے رجوع کر لیتے ہیں اور اسی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔

س :نصابی کُتب میں غلطیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کتاب میں مالِ غنیمت کی جگہ لوٹ مار کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ اس مسئلے کا بھی کوئی حل نکالا گیا ہے؟

ج :یہ نصابی کُتب 2006ء میں مرکز نے منظور کی تھیں اور تب سے یہ مسئلہ موجود تھا۔ البتہ ہم نے نشان دہی پر فوراً غلطیاں دُرست کیں اور اسکولز میں تصحیح شدہ نصاب پہنچایا۔ یاد رہے کہ ٹیکسٹ بُک بورڈ کا باقاعدہ ’’کریکیولم ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ‘‘ ہے اور اب ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جو نصاب میں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔

س :اپنے خاندان کے بارے میں بھی مختصراً بتائیں۔ نیز، سیاست کی جانب کیسے آئے؟

ج :ہم کُل 8بہن، بھائی ہیں۔ 5بھائی اور 3بہنیں۔ہمارے خاندان کے زیادہ تر افراد روزگار کے سلسلے میں بیرونِ مُلک مقیم ہیں۔ گرچہ مجھ سے قبل خاندان کا کوئی فرد سیاست سے وابستہ نہیں رہا، البتہ اپنی سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے میرے دادا، لالا جان کو علاقے میں نمایاں حیثیت حاصل تھی اور ان کے بعد میرے چچا کے پاس پورے علاقے کی مَشر وَلی (قیادت) آ گئی۔

جہاں تک میری سیاست میں آمد کا تعلق ہے، تو چوں کہ ابتدا ہی سے میرے دل میں اپنے گائوں اور علاقے کے عوام کی خدمت کا جذبہ موجزن تھا، لہٰذا مَیں نے ملازمت کو خیر باد کہہ کر ’’خوش حال اویئرنیس اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (کیڈو)‘‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی۔

ابتداً اس تنظیم کے تحت گائوں میں پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنائی اور پھر زراعت سے وابستہ افراد کے لیے چھوٹے قرضوں کا بندوبست کیا۔ اگلے مرحلے میں تنظیم کے دائرۂ کار کو وسعت دیتے ہوئے ضلعی سطح پر عوام کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کی کوشش کی، جب کہ اسی دوران تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کیریئر کاؤنسلنگ بھی کی۔

پھر جب صوبے میں آئی ڈی پیز (Internally Displaced Persons) کا مسئلہ سامنے آیا، تو اس موقعے پر ہماری تنظیم نے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ میری ان خدمات کے پیشِ نظر گائوں اور قبیلے کے عوام نے مُجھے اپنا سیاسی امیدوار نام زد کرتے ہوئے سیاسی جماعت منتخب کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ نتیجتاً، مَیں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھا۔

س :لَو میرج کی یا ارینجڈ؟ نیز، بچّوں کے بارے میں بھی بتائیں ۔

ج :مَیں نے والدین کی مرضی سے اپنی کزن سے شادی کی ۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی اسکول میں پڑھتی ہے۔ اُسے مَیں نے کسی منہگے نجی اسکول کی بہ جائے ایک عام سرکاری اسکول میں داخل کروایا ہے، جب کہ دوسری بیٹی ابھی اسکول نہیں جاتی۔

س :فلم بینی کے شوقین ہیں اور کیا موسیقی سےبھی کچھ لگائو ہے؟

ج :کالج کے زمانے میں دوستوں کے ساتھ سنیما گھر جایا کرتا تھا۔ تب انگریزی ایکشن موویز اور ٹام کروز اچھے لگتے تھے، جب کہ لولی وُڈ میں بھی نئے اداکاروں کی آمد کے بعد اب معیاری فلمز بننے لگی ہیں ، تو پاکستان فلمیں بھی دیکھ رہا ہوں۔

سُنا ہے، ماہرہ خان کی آنے والی فلم، ’’گور گٹھڑی‘‘ کی عکس بندی پشاور میں ہوئی ہے۔وہ ضرور دیکھنے جاؤں گا۔ موسیقی کا جہاں تک سوال ہے، تو مُجھے پشتو اور اردو گانے پسند ہیں اور پشتو کا ایک مشہور نغمہ، ’’دا زوانئی خوب پورہ دی نہ کڑو‘‘ اکثر گنگناتا رہتا ہوں۔

س :پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟

ج :میرے آئیڈیل عمران خان ہیں۔ البتہ سیاست کے اسرار و رموز سابق وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک سے سیکھے اور ان پر عمل پیرا ہو کر کام یابی حاصل کی۔

تازہ ترین