• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرچہ اقوامِ متّحدہ ہی وہ عالمی ادارہ ہے، جو سب سے زیادہ تنقید کی زد میں رہتا ہے، لیکن تنازعات کے حل کے لیے اقوامِ عالم اسی ادارے ہی سے رجوع کرتی ہیں۔ چناں چہ پاکستان کی بھی دیرینہ خواہش ہے کہ اقوامِ متّحدہ مسئلہ کشمیر کو عالمی تنازع قرار دیتے ہوئے بھارت پرسلامتی کائونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حقِ رائے دہی دینے کے لیے دبائو ڈالے۔ ان دنوں وزیرِ اعظم، عمران خان اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں۔ 27ستمبر کو عالمی برادری سے اپنے خطاب میں وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی مظالم اُجاگر کریں گے، جب کہ اس کے جواب میں بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی، جو اس تمام تر صُورتِ حال کے ذمّے دار ہیں، بھارت کا نقطۂ نظر پیش کریں گے۔ وہ دُنیا کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور اسے کسی بھی قسم کی آئینی تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ یعنی اب کشمیر کی جنگ اقوامِ متّحدہ میں لڑی جائے گی۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کا یہ سب سے بڑا عالمی ادارہ، جسے عموماً سب سے زیادہ ’’بے بس ادارہ‘‘ کہا جاتا ہے، فوری طور پر ہماری داد رسی کر پائے گا یا پھر ایک طویل سفارتی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت امریکا، طالبان مذاکرات، ایران اور شمالی کوریا کی جوہری مُہم جوئی اور گزشتہ 7برس سے شام میں جاری خانہ جنگی بھی عالمی طاقتوں کی توجّہ کا مرکز ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے وزیرِ اعظم کا اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ ایک مستحسن عمل ہے۔ تاہم، اس ضمن میں وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی اور اُن کے رفقا کی کاوشیں بھی لائقِ تحسین ہیں۔ انہوں نے 9ستمبر کو جنیوا میں منعقدہ اقوامِ متّحدہ کے ذیلی ادارے، ہیومن رائٹس کائونسل کے اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ یہ اقوامِ متّحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی نگرانی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ جب شام میں جاری انسانیت سوز مظالم پر دنیا کے بیش تر ممالک نے چُپ سادھ رکھی تھی، تو ایچ آر سی کی کوششوں ہی سے مظلوم و بے بس شامی مسلمانوں کو اشیائے خور و نوش اور یورپ میں پناہ مل سکی۔ گزشتہ برس بھی عمران خان کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تجویز دی گئی تھی کہ اس کے نتیجے میں اہم تنازعات میں دیگر ممالک کو اپنا ہم نوا بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ تاہم، تب انہوں نے ’’وقت کا زیاں‘‘ قرار دیتے ہوئے اس تجویز کو نظر انداز کر دیا اور اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ بہر حال، دیر آید، درست آید۔ جنیوا میں شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوامِ متّحدہ کی قراردادوں پر اپنی ساری توجّہ مرکوز رکھی۔ وزیرِ خارجہ کے مطابق، اس موقعے پر اُن کے مؤقف کو اس حد تک پذیرائی ملی کہ ہیومن رائٹس کائونسل کی سربراہ نے کشمیریوں کے حقوق سلب کیے جانے سے متعلق اُن کی رائے کے احترام پر زور دیا۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے جواب میں بھارتی مندوب نے، جو ایک سیکریٹری لیول کا آفیسر تھا، حسبِ معمول پاکستان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عاید کیا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو اندرونی معاملہ قرار دیا۔

یو این جی اے اجلاس، عمران خان کا امتحان
گزشتہ برس ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے شاہ محمود قریشی خطاب کررہے ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ نیویارک میں عمران خان اور اُن کے رفقا کو اپنے مُلک کا مثبت چہرہ بھی سامنے لانا ہو گا، کیوں کہ بھارت اقوامِ عالم کے سامنے پاکستان کو ہمیشہ انتہا پسندوں، شدّت پسندوں اور دہشت گردوں کے مُلک کے طور پر پیش کرتا ہے، جسے دُنیا دُرست مان کر پاکستان کی سرزنش کرتی ہے۔ یاد رہے کہ اگلے ماہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کا نام گرے لسٹ میں برقرار رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ کرے گی اور آئی ایم ایف نے اس کی سفارشات پر عمل درآمد کو قرض فراہمی سے مشروط کیا ہے۔ حکومت کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جوشیلی تقریروں سے مقامی ذرایع ابلاغ میں تو نمایاں جگہ حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن مسئلہ کشمیر پر اقوامِ عالم کو اپنا ہم نوا بنانا آسان کام نہیں۔ اس کے لیےخاصی ریاضت کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ عمران خان عوام سے وعدہ کر چکے ہیں کہ ’’کشمیر کا مقدّمہ مَیں خود لڑوں گا‘‘، تو یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اپنا کیس کس طرح پیش کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور بھارت اپنی فوجی طاقت کے بَل پر انہیں دبا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں، کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت۔ چوں کہ کشمیری باشندے گزشتہ 72برس سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے بھارتی افواج سے لڑ رہے ہیں، لہٰذا وہ عالمی برادری سے یہ توقّع کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ اب مسئلہ کشمیر کو فوقیت دی جائے۔ پھر مسئلہ کشمیر ہی کی وجہ سے دو پڑوسی اور جوہری طاقت کے حامل ممالک کے درمیان تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ نیز، اس تنازعے کے سبب جنوبی ایشیا کے تقریباً 1.5ارب باشندوں کا معیارِ زندگی دائو پر لگا ہوا ہے، جنہیں پہلے ہی غربت، جہالت اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ گرچہ یہ خطّہ سی پیک جیسے تاریخی منصوبے میں شامل ہو چکا ہے، لیکن امن قائم کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے اور اس اعتبار سے بھی مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

حکومتِ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر آئینی اقدام اور بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کیا اور اس حوالے سے بالخصوص وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی خاصے متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین اُس دَور کی یاد دلاتے ہیں کہ جب 1960ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بُھٹّو نے نہ صرف آزادیٔ کشمیر کے لیے بھرپور مُہم چلائی تھی، بلکہ اُن کی ایّوب حکومت کے خلاف جدوجہد اور اپنی انتخابی مُہم کا مرکزی نکتہ ہی تاشقند میں کشمیر کا مبیّنہ سودا تھا، جسے وہ منظرِ عام پر لانے کی دھمکی باربار دیتے رہے۔ تاہم، ماہرین مزید اقدامات کی جانب بھی توجّہ دلاتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ زیادہ تر توانائیاں اپنے عوام کو مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے باخبر رکھنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ خطابات، ٹویٹس، جلسے جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے کشمیری عوام سے یک جہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اقوامِ متّحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب، ملیحہ لودھی بھی پاکستانی ذرایع ابلاغ میں زیادہ نظر آتی ہیں، حالاں کہ پاکستانی عوام تو گزشتہ سات عشروں سے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نیز، پاکستانی تارکینِ وطن بھی وقتاً فوقتاً کشمیریوں کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا،حکومت کو عالمی رائے عامّہ کو پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں ہم وار کرنے کی ضرورت ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کبھی عمران خان اور شاہ محمود قریشی ساتھ دینے پر عالمی برادری کا شکریہ ادا کرتے ہیں، تو کبھی مایوسی کے عالم میں یہ کہتے ہیں کہ’’ دنیا کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور ہم تنہا ہی کشمیریوں کا ساتھ دیں گے۔‘‘ کیا اس قسم کے متضاد بیانات سُود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت مقبوضہ کشمیر کا مقدّمہ لڑنے میں سنجیدہ ہے، تو اُسے سب سے پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ اقوامِ متّحدہ کے 193رُکن ممالک میں سے کتنے ممالک سے ذاتی طور پر رابطہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ جنیوا اجلاس سے قبل بھارت نے 47ممالک سے رابطہ کیا اور نریندر مودی اپنے بیرونی دوروں میں دُنیا کے تمام اہم رہنمائوں سے ملاقات کر چکے ہیں، جن میں ٹرمپ، بورس جانسن، ایمینوئل میکروں، مِرکل اور پیوٹن جیسے پائے کے لیڈرز شامل ہیں، جب کہ بھارتی وزارتِ خارجہ چین اور اسلامی دُنیا کے اہم رہنمائوں سے مسلسل رابطے میں ہے۔ عمران خان کو محض اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ہی پر اکتفا نہیں کرنا ہو گا، بلکہ اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے ٹھوس اور دیرپا حمایت حاصل کرنی ہو گی، جس میں اقوامِ متّحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت پر پابندیاں عاید کروانا شامل ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے عمران خان کو اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا مقدّمہ کتنا مضبوط ہے اور اسے مزید کتنا مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ گرچہ عمران خان اپنے تازہ ترین بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں اور مودی، ہٹلر ہے، لیکن امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے ، مودی اور عمران خان اسے نمٹا لیں گے۔ تاہم، اگر ان کی مدد کی ضرورت پیش آئی، تو وہ حاضر ہیں۔ چوں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ایک عالمی تنازعے کے طور اجاگر کر رہا ہے، لہٰذا اسے عالمی تنازعے کی شکل دینا وزارتِ خارجہ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔ اس ضمن میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا دورۂ نیویارک اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ آج سے 6برس قبل ایرانی صدر، حسن روحانی نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہم وار کرنے کے لیے اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کا پلیٹ فارم ہی استعمال کیا تھا۔ بعد ازاں، ایرانی وزیرِ خارجہ، جواد ظریف نے نہایت دانش مندی سے معاملات آگے بڑھائے اور پھر صرف دو سال بعد ہی جولائی 2015ء ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ طے پا گیا۔ اس عرصے میں ایران نے عالمی رائے عامّہ کو اپنے حق میں استوار کرنے کی کوشش کی، جب کہ اندرونِ مُلک اپنی توجّہ اقتصادی صورتِ حال مستحکم کرنے پر مرکوز رکھی۔ علاوہ بریں، مغرب کے شدید مخالف سخت گیر مذہبی عناصر کو بھی اعتماد میں لیا۔ نتیجتاً، ایرانی عوام کو کچھ ریلیف ملا اور انہوں نے جوہری معاہدہ ہونے پر تہران میں جَشن بھی منایا۔

اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں افغان امن عمل بھی زیرِ غور آئے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں افغانستان میں امریکی فوجی کی ہلاکت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا، طالبان مذاکرات معطل کر دیے اور اب امریکی افواج اور طالبان ایک بار پھر ایک دوسرے کے نشانے پر ہیں۔ پاکستان نے امریکا، طالبان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے اور افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پُر خلوص کوششیں کیں اور عمران خان کی وائٹ ہاوس میں پذیرائی کا اہم سبب بھی یہی تھا۔ تاہم، امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات کی معطّلی کے اعلان نے افغان امن عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ نیز، امریکا کے قومی سلامتی کائونسل کے مُشیر، جان بولٹن کو بھی اُن کے عُہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ عمران خان کے دورۂ نیویارک کے موقعے پر امریکی حکام انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کریں گے کہ اگر طالبان کی پر تشدّد کارروائیوں میں تیزی آئی، تو یہ امریکا کے لیے ناقابلِ قبول ہو گا۔ امریکا، طالبان مذاکرات کے علاوہ ایران کے جوہری عزائم بھی ایک اہم معاملہ ہے اور اس موقعے پر ایرانی وزیرِ خارجہ، جوّاد ظریف کی جی سیون سمٹ کے دوران ہونے والی گفتگو بھی سامنے آئے گی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ امریکا، ایران پر عاید اقتصادی پابندیوں میں مزید شدّت لا رہا ہے، جب کہ ایران نے یورینیم افزودگی کی مقرّرہ حد عبور کر لی ہے۔ تاہم، جی سیون سربراہی اجلاس میں ہونے والی پیش رفت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا، ایران تعلقات میں پائی جانے والی رکاوٹیں جلد دُور ہو جائیں گی۔ اس وقت یورپی یونین ان دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے اور فرانسیسی صدر، ایمینوئل میکروں خاصے فعال ہیں، جن کے ٹرمپ سے اچھے روابط ہیں۔ شمالی کوریا کی جوہری مُہم جوئی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں اب تک ٹرمپ اور شمالی کورین رہنما، کِم کے درمیان دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں، جن میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا۔ اس حوالے سے جنوبی کورین صدر، مُون نہ صرف اہم کردار ادا کر رہے ہیں، بلکہ انہوں نے اپنا سیاسی کیریئر بھی دائو پر لگا دیا ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی کوریا نہ صرف ایشین ٹائیگر ہے، بلکہ ایک اقتصادی قوّت بھی۔ اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جاپان، چین اور جنوب مشرقی ایشیا کی تمام اہم طاقتیں اس میں غیر معمولی دِل چسپی لے رہی ہیں، جب کہ سلامتی کائونسل نے شمالی کوریا پر اقتصادی و دفاعی پابندیاں بھی عاید کی ہیں۔

بِلاشُبہ انسانی حقوق بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور شاید گزشتہ 7 دہائیوں سے بھارتی مظالم سہنے والے کشمیریوں کو اُن کے حقوق دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ البتہ عالمی طاقتوں اور ترقّی یافتہ ممالک کے درمیان ممکنہ تصادم کے ماحول میں انہیں اجاگر کرنا کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ اس وقت چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے، جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتّب ہو رہے ہیں۔ گرچہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، لیکن اس کی باز گشت بھی اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں ضرور سنائی دے گی۔ اقتصادی مشکلات کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم، عمران خان کو عالمی مالیاتی اور نجی تجارتی اداروں سے تعلقات کو بھی فروغ دینا ہو گا، کیوں کہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو توانا کرنے کے لیے پاکستان میں اقتصادی استحکام ضروری ہے۔

تازہ ترین