• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت زکریا علیہ السّلام
دمشق میں حضرت زکریا علیہ السّلام سے منسوب مزار

اللہ عزّوجل نے قرآنِ کریم میں جن انبیائے کرامؑ کے سبق آموز واقعات کا ذکر فرمایا ہے، اُن میں سے ایک حضرت زکریا علیہ السّلام بھی ہیں۔ ارشادِ باری ہے’’اور زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور الیاسؑ یہ سب نیکو کاروں میں سے ہیں‘‘ (سورۂ الانعام 86)۔

حضرت زکریا علیہ السّلام، حضرت سلیمانؑ بن دائودؑ کی اولاد میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ قرآنِ کریم اور سیرت و تواریخ کی کُتب میں آپؑ کی حیاتِ مبارکہ کے بارے میں بہت زیادہ تفصیل موجود نہیں، تاہم قرآنِ کریم کی چار سورتوں، سورہ آلِ عمران کی آیت37 تا 41، سورۃ الانعام کی آیت85، سورۂ مریم کی آیت2سے11اور سورۃ الانبیاء کی آیت89سے90تک، کچھ احادیثِ مبارکہ میں آپؑ کا تذکرہ ہے، جن سے آپؑ کے بارے میں کچھ آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ نیز، بائبل میں ایک باب’’ صحیفۂ زکریا‘‘ کے نام سے ہے، لیکن یہ وہ زکریا نہیں ہیں، جن کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے۔

تورات والے زکریا کی ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت سے500سال قبل بیان کی گئی ہے، جب کہ قرآنِ کریم میں جن زکریا علیہ السّلام کا ذکر ہے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدہ، حضرت مریمؑ کے مربّی اور حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد ماجد ہیں۔ (فتح الباری۔ جلد6)حضرت زکریاؑ کی اہلیہ اور حضرت مریمؑ کی والدہ آپس میں بہنیں تھیں، یوں حضرت زکریا علیہ السّلام، حضرت مریمؑ کے خالو تھے۔ آپؑ نبی ہونے کے علاوہ بیتُ المقدِس کے امام، خادم اور ایک رُوحانی شخصیت تھے۔ لوقا کی انجیل میں اس منصب کو’’ کاہن‘‘ کہا گیا ہے۔

دراصل، بنی اسرائیل میں کاہن ایک مذہبی اور روحانی عُہدہ تھا، جس کے ذمّے ہیکلِ سلیمانی اور بیتُ المقدِس کی مذہبی رسومات کو انجام دینا تھا۔ آپؑ کے والد کے نام کے بارے میں مفسرّین نے مختلف اقوال تحریر کیے ہیں۔ حافظ ابوالقاسم ابن عساکرؒ اپنی مشہور کتاب’’ حافل‘‘ میں فرماتے ہیں کہ آپؑ کے والدِ محترم کا اسم گرامی، برخیا تھا۔

کسبِ معاش

حضرت زکریاؑ بھی دیگر انبیائے کرام ؑکی طرح اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے، جس کی تصدیق اس حدیثِ مبارکہؐ سے ہوتی ہے کہ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ حضرت زکریاؑ بڑھئی تھے‘‘(مسندِ احمد)۔ دنیا میں جتنے بھی انبیائے کرامؑ مبعوث فرمائے گئے، اُنہوں نے معاش کے لیے کسی نہ کسی پیشے کو ضرور اپنایا۔ وہ اپنی روزی اپنے ہاتھ کی محنت سے پیدا کرتے اور اپنے معاش کا بوجھ کسی دوسرے پر نہ ڈالتے ۔ کسی سے دینِ حق کے کام کی اُجرت طلب نہیں کرتے تھے، بلکہ یہ اعلان فرماتے’’اور مَیں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت تو اللہ ربّ العالمین ہی پر ہے‘‘(القرآن)۔

مفسرّین تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السّلام جب دنیا میں بھیجے گئے، تو اُن کے پاس جنّت کے پودوں کے بیج تھے۔ اُنہوں نے کاشت کاری کی اور سب سے پہلے آٹا پیس کر روٹی بنائی۔ نیز، ستر پوشی کے لیے جانوروں کی کھالوں کا لباس تیار کیا۔ یہ سب کام حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے اُنہیں سکھائے۔

حضرت شیث علیہ السّلام نے تعمیرات کا کام کیا۔ شہروں اور قلعوں کی بنیاد رکھی۔’’ بابل‘‘ اور’’ سوس‘‘ آپؑ ہی نے آباد کیے۔ حضرت نوحؑ لکڑی کا کام کرتے تھے۔ آپؑ نے کشتیاں بنائیں۔ حضرت ادریس علیہ السّلام نے کپڑا بُننا، ناپ تول اور اسلحہ بنانے کا طریقہ ایجاد کیا۔ حضرت ہود علیہ السّلام اور حضرت صالح علیہ السّلام تجارت کیا کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کھیتی باڑی کے علاوہ تعمیراتی کام بھی کیا کرتے تھے۔ اُنھوں نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام تیر کمان بھی بنایا کرتے تھے۔حضرت شعیب علیہ السّلام اونٹ، بھیڑ، بکریاں پالتے اور اُن کے دودھ سے معاش تلاش کرتے۔ حضرت لوط علیہ السّلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ اور اُن کے فرزند بکریاں چَرایا کرتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کھیتی باڑی کے ساتھ بکریاں بھی چَرایا کرتے۔

آپ ؑکے نکاح کے مہر میں بھی بکریاں چَرانا تھا۔ حضرت دائود علیہ السّلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہا نرم فرما دیا تھا۔ آپؑ لوہے سے زرّہ اور دیگر اوزار بنایا کرتے۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام عظیم الشّان سلطنت کے مالک تھے۔ آپؑ کا زیادہ تر وقت سفر میں گزرتا، لیکن جب بھی وقت ملتا، اپنے ہاتھ سے پنکھے اور زنبیلیں بناتے۔امام الانبیاء، سیّد المرسلین، حضور رسالتِ مآبﷺ نے بچپن میں بکریاں چَرائیں۔

نبوّت ملنے سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے لیے مضاربت کی بنیاد پر تجارت کی اور حضرت عبداللہ بن سائبؓ کے ساتھ شراکت داری میں بھی کاروبار فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں کہ’’ مَیں زمانۂ جاہلیت میں حضرت محمدﷺ کا شریکِ تجارت تھا۔ جب مدینہ منورہ حاضر ہوا، تو آپؐ نے فرمایا’’مجھے پہچانتے ہو؟‘‘مَیں نے عرض کیا ’’کیوں نہیں یارسول اللہﷺ، آپ ؐ تو میرے بہت اچھے شریکِ تجارت تھے۔ کسی بات کو ٹالتے اور نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے‘‘(خصائص الکبریٰ، اسدالغابہ)۔

حضرت مریم ؑکی پیدائش

بیتُ المقدِس کے امام اور مذہبی پیشوا، عمران بن ناشی اور اُن کی اہلیہ، حنہ بنتِ فاقود نہایت نیک اور پارسا انسان تھے۔ دونوں اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بسر کرتے تھے، تاہم، طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اولاد سے محروم تھے، جس کے لیے دونوں اللہ کے حضور دستِ دُعا بلند رکھتے۔ دُعا قبول ہوئی اور اُنہیں اولاد کی نعمت سے نواز دیا گیا۔

انبیائے سابقینؑ کی شریعت میں عبادت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اپنی اولاد میں سے کسی ایک بچّے کو دینی کاموں کے لیے وقف کر دیا جاتا اور پھر اُس بچّے سے دنیا کا کوئی کام نہ لیتے۔ حضرت عمران کی بیوی نے بھی منّت مان لی’’اور کہا’’ اے میرے ربّ! میرے شکم میں جو (بچّہ) ہے، اُسے مَیں نے تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی نذر مانی ہے۔ تو میری طرف سے قبول فرما۔ یقیناً تُو خُوب سُننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے‘‘(سورۂ آلِ عمران35:)۔ لیکن جب اُن کے یہاں بچّی پیدا ہوئی، تو کہنے لگیں’’اے میرے پروردگار! مجھے تو لڑکی ہوئی ہے۔‘‘ اُن کی اس گفتگو میں حسرت کا اظہار تھا اور عُذر بھی۔ 

حسرت اس طرح کہ میری اُمید کے برعکس لڑکی ہوئی اور عُذر یوں کہ نذر سے مقصود تو تیری رضا کے لیے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اور یہ کام مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا تھا۔ اب جو کچھ بھی ہے، تُو اسے جانتا ہی ہے(فتح القدیر)۔ شوہر، حضرت عمران کا انتقال بچّی کی ولادت سے پہلے ہی ہو چُکا تھا۔

آپ نے اپنی بیٹی کا نام، مریم رکھا اور فرمایا’’اے اللہ! مَیں نے اس کا نام مریم رکھا ہے، مَیں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں‘‘ (سورۂ آلِ عمران36)۔ حدیث میں ہے کہ جب بچّہ پیدا ہوتا ہے، تو شیطان اُسے چُھوتا ہے، جس سے وہ چیختا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ اور اُن کے بیٹے، حضرت عیسیٰؑ کو شیطان کے چُھونے سے محفوظ رکھا‘‘(صحیح بخاری و مسلم)۔

حضرت زکریاؑ پر کفالت کی ذمّے داری

والدہ اپنی نذر پوری کرنے کی نیّت سے نومود مریمؑ کو لے کر بیتُ المقدِس پہنچیں۔ وہاں مسجد کے مجاور، خادم اور کاہن موجود تھے، جن میں حضرت زکریا علیہ السّلام بھی شامل تھے۔

حضرت مریمؑ کی والدہ نے کہا’’ اس بچّی کے متعلق نذر مان چُکی ہوں، اب یہ بیتُ المقدِس کی خدمت کے لیے آپ لوگوں کے پاس رہے گی۔‘‘ چوں کہ وہ حضرت عمران کی بیٹی تھیں، جو مسجد کے امام اور ایک روحانی بزرگ تھے، لہٰذا سب کی خواہش تھی کہ بچّی اُسے مل جائے۔

حضرت زکریا علیہ السّلام کا استدلال تھا کہ ’’بچّی کی ماں اور اُن کی اہلیہ سگی بہنیں ہیں، نیز، خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے، اس لیے بچّی کی پرورش پر اُن کا حق زیادہ ہے۔‘‘تاہم، دیگر افراد اس پر راضی نہ ہوئے، تو قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا گیا، جس پر تینوں بار قرعہ حضرت زکریا علیہ السّلام ہی کے نام کا نکلا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو حضرت مریمؑ کا سرپرست بنا دیا۔ آپؑ نے بڑے ذوق و شوق سے اُن کی پرورش شروع کر دی۔

اُنہوں نے حضرت مریمؑ کو اپنے گھر ہی میں رکھا، لیکن جب وہ ذرا سمجھ دار ہو گئیں، تو اُنہیں مسجد سے متصل ایک حجرے میں منتقل کر دیا، جب کہ رات کو وہ اپنی خالہ ہی کے پاس آ کر سو جایا کرتی تھیں۔

نشاناتِ قدرت کا مشاہدہ

حضرت زکریا علیہ السّلام جب حجرے سے باہر جاتے، تو حفاظت کے نقطۂ نظر سے باہر سے قفل لگا دیا کرتے، لیکن جب واپس آتے، تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ حضرت مریمؑ کے پاس بے موسم کے نہایت اعلیٰ قسم کے پھل اور میوہ جات موجود ہوتے۔

آپؑ نے ایک دن تعجب اور حیرت سے پوچھا’’اے مریمؑ! یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آتی ہے۔‘‘ وہ بولیں’’ اللہ کے یہاں سے آتی ہے۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے، بے شمار رزق عطا کرتا ہے‘‘(سورۂ آلِ عمران36)۔ یہ ایک لحاظ سے حضرت مریمؑ کی کرامت تھی۔

اولاد کے لیے دُعا

حضرت زکریاؑ کی اہلیہ، ایشاع بانجھ تھیں، جس کی وجہ سے وہ بے اولاد تھے۔ دونوں بوڑھے ہو چُکے تھے اور ظاہراً اولاد ہونے کے امکانات بھی ختم ہو چُکے تھے، لیکن جب حضرت زکریا علیہ السّلام نے حضرت بی بی مریمؑ کے پاس بے موسمی نہایت اعلیٰ قسم کے پھل دیکھے، تو آپؑ کے ذہن میں خیال آیا کہ جب میرا ربّ بے موقع پھل عطا کر سکتا ہے، تو اس کے لیے اولاد دینا کیا مشکل ہے۔

اولاد کی خواہش نے دُعا کا رُوپ دھار کر ربّ کے حضور مانگنے کی ہمّت پیدا کر دی اور پھر بے اختیار اُن کے لبوں پر یہ دُعا آ گئی’’اے میرے پروردگار! مجھے اپنی جانب سے اولادِ صالح عطا فرما۔ تُو بے شک دُعا سُننے (اور قبول کرنے) والا ہے‘‘(سورۂ آلِ عمران38)۔اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب نبیؑ کی اس دُعا کو قبول فرمایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ فوری جائو اور میرے نیک بندے زکریاؑ کو بیٹے کی بشارت دے دو۔

ارشادِ باری ہے’’ابھی وہ عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ’’ (زکریاؑ) اللہ تمہیں یحییٰ ؑکی بشارت دیتا ہے۔ جو اللہ کے فیض (یعنی عیسیٰؑ ؑ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہوں گے اور (اللہ) کے پیغمبر(یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے۔‘‘

سورۂ مریم ؑ میں حضرت زکریاؑ کا قصّہ

قرآنِ کریم کے سولہویں پارے کی سورۂ مریم میں اللہ عزّوجل نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا ہے’’یہ ہے تیرے پرودگار کی اُس مہربانی کا ذکر، جو اُس نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی۔ جب اُنہوں نے اپنے پروردگار سے چُپکے چُپکے دُعا کی تھی کہ’’ اے میرے ربّ! میری ہڈیاں کم زور ہو گئی ہیں اور سَر میں بڑھاپا چمکنے لگا ہے، لیکن مَیں کبھی بھی تجھ سے دُعا کر کے محروم نہیں رہا۔ مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت داروں کا ڈر ہے، میری بیوی بھی بانجھ ہے۔ پس تُو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما، جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوبؑ کے خاندان کا بھی جانشین۔ اور میرے ربّ! تُو اُسے قبول بندہ بنا لے۔‘‘

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ’’اے زکریاؑ! ہم تمہیں ایک بچّے کی خوش خبری دیتے ہیں، جس کا نام یحییٰ ؑہے۔ ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا۔‘‘ زکریاؑ کہنے لگے’’میرے ربّ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا؟ جب کہ میری بیوی بانجھ اور مَیں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چُکا ہوں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’تمہارے لیے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تم تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکو گے۔‘‘ 

اب زکریاؑ اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے، تو اُن سے اشارے سے کہا کہ ’’تم صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے رہو‘‘ (سورۂ مریم)۔ حضرت زکریا علیہ السّلام نے دُعا سے پہلے اپنے ضعف و کم زوری کا ذکر کیا۔

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ’’ دُعا مانگتے وقت اپنے ضعف و بدحالی اور حاجت مندی کا ذکر کرنا قبولیتِ دُعا کے لیے اَقرب ہے۔‘‘ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ دُعا میں پہلے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی حاجت مندی کا ذکر کرنا چاہیے۔ مفتی محمّد شفیع ؒ فرماتے ہیں’’ دُعا میں اپنی حاجت مندی کا اظہار مستحب ہے‘‘(معارف القرآن)۔

بنی اسرائیل کی نافرمانیاں

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ نبی مبعوث فرمائے۔ اُن پر اپنی رحمتیں اور نعمتیں بھی نازل فرماتا رہا، لیکن یہ وہ ناشُکری قوم ہے کہ جو بار بار نافرمانیاں کرتی رہی اور شرک میں مبتلا ہو کر انبیائے کرامؑ پر ظلم و ستم ڈھاتی رہی۔ یہاں تک کہ اُنہیں شہید کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں، تو اُنہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں، تو اے نبیؐ !اُنہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے‘‘ (سورۂ آلِ عمران21:)۔رُوح المعانی میں بروایت ابنِ حاکم اس آیت کی تفسیر خود حضورﷺ سے مروی ہے کہ’’ بنی اسرائیل نے ایک وقت میں43نبیوں کو قتل کر ڈالا۔ جب اُن کو سمجھانے کے لیے ایک سو بزرگ کھڑے ہوئے، تو اُن کا بھی کام تمام کر دیا‘‘ (بیان القرآن)۔

حضرت زکریاؑ کی شہادت

بنی اسرائیل نے پہلے آپؑ کے صاحب زادے، حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو شہید کیا۔ اُس وقت آپؑ دمشق میں تھے۔ حضرت یحییٰ ؑ کی شہادت کے بعد بنی اسرائیل نے آپؑ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا۔ حضرت زکریاؑ کی وفات کے حوالے سے مختلف روایات ہیں۔

بعض کے مطابق آپؑ نے اپنی طبعی عُمر پوری کرکے انتقال فرمایا، جب کہ بہت سے مفسرّین کا کہنا ہے کہ اُنھیں بنی اسرائیل نے شہید کیا۔ وہب بن منبہؒ کے مطابق،’’ حضرت زکریاؑ اپنی قوم سے بھاگے اور ایک درخت کے خلا میں داخل ہو گئے، تو قوم نے وہاں پہنچ کر درخت پر آرا چلا دیا‘‘ (واللہ اعلم)۔

اُس وقت حضرت زکریاؑ کی عُمر ایک سو سال سے زاید تھی۔ مؤرخین کے مطابق، آپؑ کا مزار شام کے شہر حلب کی مسجد’’ جامع زکریا‘‘ میں ہے۔

تازہ ترین