• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقعے پر صدرِ مملکت کا خطاب ایک آئینی تقاضا ہے، جو اُنھیں ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر نبھانا پڑتا ہے، لیکن اس آئینی اور پارلیمانی تقاضے کی تکمیل کے دَوران ہنگامہ آرائی، شور شرابا، احتجاج اور صدرِ مملکت کی تقریر میں مختلف انداز سے رکاوٹیں ڈالنا بھی اپوزیشن کی جانب سے گویا ایک بدترین پارلیمانی فریضہ بن چُکا ہے، جس کا آغاز مرحوم صدر، غلام اسحاق خان کے دَور میں ہوا اور بعدازاں بہ تدریج بڑھتا ہی چلا گیا۔ اسی طرح کے مناظر گزشتہ دنوں صدر عارف علوی کے پارلیمنٹ سے خطاب کے دَوران بھی دیکھنے میں آئے۔ تقریباً ایک گھنٹے پر محیط خطاب میں صدرِ مملکت کو پانی کے تین گلاس پینے پڑ گئے۔ اس تمام عرصے میں اپوزیشن ارکان کی بڑی تعداد ڈائس کے سامنے موجود رہی اور کئی ارکان نے اُن سے براہِ راست مخاطب ہونے کی بھی کوشش کی۔ یہ پہلا موقع تھا، جب صدر کے خطاب کے دَوران اُن کے روسٹرم پر تقریر کا مسوّدہ نہیں تھا، بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے وہاں خصوصی طور پر دو ٹیلی پرامپٹر لگائے گئے تھے، جس سے دیکھ دیکھ کر اُنھوں نے اپنی تقریر مکمل کی۔ واضح رہے، یہ ٹیکنالوجی ٹی وی چینلز عام طور پر خبریں پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
آصف زرداری نے چھے بار خطاب کیا

چوں کہ اپوزیشن کے احتجاج کا ایک سبب اَسیر ارکان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ دینا بھی تھا، تو اُنھوں نے اس کے لیے یہ’’ سائنس‘‘ ایجاد کی کہ آصف زرداری، شاہد خاقان عبّاسی، رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق کی بڑی بڑی تصاویر ایوان میں لے آئے اور اُن کی خالی نشستوں پر رکھ دیں۔ اس طرح اپوزیشن کے گرفتار ارکان کی، جن میں ایک سابق صدر، ایک سابق وزیرِ اعظم اور دو سابق وزراء ہیں، اجلاس میں علامتی شرکت بھی ہوگئی۔ صدر عارف علوی کا مشترکہ اجلاس سے یہ دوسرا خطاب تھا۔ پہلے اجلاس میں اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی تو نہیں کی، لیکن ارکان ہلکا پُھلکا احتجاج کر کے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے تھے۔تاہم ،اس رعایت کا حساب کتاب اِس مرتبہ چُکتا کردیا گیا۔ وزیرِ اعظم، عمران خان اپنے وزراء اور ارکان کے حفاظتی محاصرے میں، تسبیح کے ساتھ تمام وقت ایوان میں موجود رہے۔ جوں جوں احتجاج میں شدّت آتی، اپوزیشن ارکان اُن کے خلاف نعروں میں تیزی لاتے، ویسے ویسے تسبیح کے دانوں پر اُن کی انگلیوں کی گردش میں اضافہ ہوجاتا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ اپوزیشن نے اپنے پورے احتجاج کے دَوران صدر عارف علوی کے بارے میں کوئی ہتک آمیز اور الزام پر مبنی نعرہ نہیں لگایا، اُن کا ہدف وزیرِ اعظم، عمران خان ہی رہے۔ اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقعے پر صدرِ مملکت کے خطاب میں ہنگامہ آرائی کا آغاز کب ہوا؟ کس صدر کے ساتھ اپوزیشن نے کیا سلوک کیا؟ آئیے! اس پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں۔

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
مشرف ایک ہی بار خطاب کرسکے

ماضی قریب میں جنرل ضیاء الحق مُلک کے وہ واحد صدر تھے، جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے دَوران اپوزیشن سے اپنی’’دستار‘‘ محفوظ رکھ سکے، یہ اُن کی جرنیلی طاقت تھی یا پھر اپوزیشن کی کم زوری اور بے ہمّتی۔ اُنہوں نے 1978 ء سے 1988 ء تک پوری ایک دہائی طاقت وَر صدر کی حیثیت سے گزاری۔ یہاں تک کہ جب بھی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے آئے، اُس وقت کی سب سے بڑی عوامی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اُن کے خطاب کو خاموشی سے ’’برداشت‘‘ کیا۔ ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد چیئرمین سینیٹ، غلام اسحاق خان نے صدر کا منصب سنبھالا ، جس کے بعد پارلیمنٹ سے خطاب کے دَوران ہنگامہ آرائی اور صدر کو ’’ہراساں‘‘ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ غلام اسحاق خان اپنی شہرت کے اعتبار سے ایک انتہائی دیانت دار، شریف النّفس اور قواعد وضوابط میں’’لکیر کے فقیر‘‘ ہونے کی حد تک بااصول بیوروکریٹ تھے۔ ایک سیدھے سادے، لیکن ضدّی پختون۔ 1940 ء میں انڈین سِول سروس میں شمولیت اختیار کی، جس سے اُن کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے حسبِ وعدہ 90 دنوں میں عام انتخابات کروائے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی مُلک کی مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ 

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
فاروق لغاری کی بے نظیر بھٹّو کے ساتھ یادگار تصویر،بعدازاں قربت دُوری میں بدل گئی

صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹّو سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا۔ آٹھویں آئینی ترمیم کی شق 58-2B کے تحت صدر کو منتخب پارلیمان اور حکومت برطرف کرنے کے ساتھ، عدلیہ کے ججز اور مسلّح افواج کے سربراہان کی تقرّری کا اختیار بھی حاصل تھا، اس لیے غلام اسحاق خان ایک مضبوط صدر تھے۔ اُنہوں نے اپنے اس آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹّو کی حکومت کرپشن کے الزامات پر تحلیل کر دی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نواب زادہ نصراللہ خان بھی صدارتی منصب کے امیدوار تھے، لیکن پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی نے مشترکہ طور پر غلام اسحاق خان کی حمایت کی تھی۔ درحقیقت ،پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی، جس کے تحت دوسرے اُمور کے علاوہ، صدر غلام اسحاق خان کو اُن کے منصب پر برقرار رکھنا بھی شامل تھا۔ ان امور کی کچھ تفصیلات منظرِ عام پر آچکی ہیں، لیکن کئی راز ایسے بھی ہیں، جو ابھی تک پردے میں ہیں۔ بعض ایسے اسرار ورموز بھی تھے، جو صرف غلام اسحاق خان ہی جانتے تھے، لیکن اُنہوں نے کوئی سوانح حیات لکھی اور نہ ہی ایسے واقعات کو کہیں اور کسی شکل میں محفوظ کیا۔ اکتوبر 2006ء میں اُن پر نمونیے کا حملہ ہوا اور وہ تمام اَن کہی باتیں اور واقعات اپنے ساتھ لیے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ غلام اسحاق خان ایک باوقار، باکردار اور محبِ وطن شخص تھے، لیکن کئی سیاست دانوں کے ناپسندیدہ تھے کہ اُنہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کی حکومتیں برطرف کی تھیں۔ بے نظیر بھٹّو کی حکومت کی برطرفی کے بعد پارلیمنٹ سے خطاب کرنے آئے، تو بے نظیر صاحبہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اُن کے’’استقبال‘‘ کے لیے موجود تھیں۔ جیسے ہی تقریر کا آغاز ہوا، اُنہوں نے’’ گو بابا گو‘‘ کا نعرہ لگایا اور پھر پیپلز پارٹی کے جیالوں نے’’ گو بابا گو‘‘ کے نعرے لگانے اور ڈیسک کی تھاپ پر رقص کے انداز میں احتجاج شروع کر دیا۔ غلام اسحاق خان کو اُن کے رفقاء اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پوری طرح بریف کیا تھا کہ لکھی ہوئی تقریر سے اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا، لیکن ساری عُمر حکم دینے اور بات منوانے والے غلام اسحاق خان اپوزیشن کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اُنہوں نے تقریر کے دَوران تین مرتبہ پانی پیا، جب کہ پریس گیلری سے اُن کے ہاتھوں کی لرزش تینوں مرتبہ صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ خان صاحب نے جیسے تیسے تقریر تو مکمل کر لی، لیکن جب واپس اپنی نشست پر آئے، تو چہرہ غصّے سے سُرخ تھا۔ اُنہوں نے انتہائی اشتعال کے عالم میں ایک نظر محترمہ بے نظیر بھٹّو پر ڈالی، جو’’ گو بابا گو‘‘ کے نعرے لگا رہی تھیں اور پھر کچھ ہی دیر بعد اجلاس ختم کر دیا گیا۔ اگلی بار بھی اُنھیں پارلیمنٹ میں تقریر کے دَوران’’ گو بابا گو‘‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس مرتبہ ایوان میں یہ نعرے بے نظیر بھٹّو کی بجائے، میاں نواز شریف اور مسلم لیگی ارکان بلند کر رہے تھے۔

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
ضیاء الحق کے خطاب پُرسکون رہے

غلام اسحاق خان کے بعد سردار فاروق احمد خان لغاری نے مُلک کے صدر کا منصب سنبھالا ۔ اُن کی سیاست کی ابتدا پیپلزپارٹی سے ہوئی۔ ذوالفقار بھٹّو کے دَور میں اُنہیں سینیٹر بنایا گیا، بعدازاں وفاقی کابینہ میں بھی شامل رہے۔ 1990ء میں پیپلزپارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں کردار ادا کیا۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹّو کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہے، پھر پارٹی نے اُنھیں صدارتی امیدوار نام زَد کیا۔ اُن کے مقابلے میں وسیم سجاد تھے، جنہیں شکست ہوئی۔ بے نظیر بھٹّو اُنہیں ’’فاروق بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں، لیکن جب وہ پیپلزپارٹی سے مستعفی ہوکر صدارتی منصب پر متمکّن ہوئے، تو لغاری صاحب کو یہ طرزِ تخاطب پسند نہیں آیا، تاہم اُنہوں نے بے نظیر صاحبہ کے سامنے تو اس کا اظہار نہیں کیا، البتہ اپنے رفقا سے دَبی زبان میں احتجاج ضرور کرتے رہے۔ بے نظیر صاحبہ ملاقات کے لیے ایوانِ صدر جاتیں، تو اُن سے انتہائی بے تکلّفی سے گفتگو کرتیں۔ ایک موقعے پر وہ اُن کی میز کے سہارے کھڑی ہو کر اُن سے بات کرنے لگیں، کیوں کہ ایک طرف تو وہ دیرینہ مراسم کے سبب اُنھیں’’فاروق بھائی‘‘ سمجھتی تھیں، تو دوسری طرف، وہ اس لیے بھی صدر کے پروٹوکول کا زیادہ خیال نہیں کیا کرتی تھیں کہ لغاری صاحب کی صدارت صرف اور صرف آصف زرداری اور خود اُن کی مرہونِ منّت تھی۔ ممکن ہے، صدر فاروق لغاری کی جانب سے بددلی، سرد مہری اور پھر ناراضی کی بنیاد یہیں سے پڑی ہو۔ بہر حال، یہ سلسلہ بہ تدریج طول پکڑتا گیا اور اس حوالے سے مختلف خبریں ایوانِ صدر اور زرداری صاحب کے حلقوں سے باہر آنا شروع ہو گئیں۔ یہ خبریں کس نوعیت کی تھیں، اس کا اندازہ ان دو خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک روز یہ خبر باہر آئی کہ زرداری صاحب، صدر لغاری کو زِچ کرنے کے لیے طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔اُنھوں نے ایک سے زاید بار اپنی اسپورٹس کار ایوانِ صدر کے مختلف حصّوں میں انتہائی تیز رفتاری سے چلانے کا مظاہرہ کیا اور اس انداز سے بریکس لگاتے کہ ٹائروں کے چیخیں ایوانِ صدر کے رہائشی حصّے میں بھی سُنی جاتیں۔ دوسری خبر یہ تھی کہ زرداری صاحب نے لغاری خاندان کی کچھ قابلِ اعتراض تصاویر بنوائی ہیں اور وہ اپنی محافل کے مخصوص شرکاء کو وہ تصاویر دِکھا کر ہدایت کرتے ہیں کہ ان کا ذرا چرچا بھی ہونا چاہیے۔ واقفانِ راز کے مطابق ،یہ ساری حرکات اور باتیں صدر صاحب تک پہنچ رہی تھیں۔ بالآخر تلخیاں اس حد تک بڑھیں کہ پہلے اختلافات اور پھر باقاعدہ بدلے اور انتقام تک بات پہنچ گئی۔ صدر لغاری نے نومبر1996 ء میں آئین میں دیئے گئے اختیارات استعمال کرتے ہوئے58(2-B) کے تحت بدعنوانی کے الزامات پر بے نظیر صاحبہ کی حکومت ختم کردی۔ بے نظیر بھٹّو نے وزیرِ اعظم ہائوس سے رخصت ہوتے وقت پریس کانفرنس کی، جس کا آغاز حضرت علیؓ کے اس قول سے کیا’’جس پر احسان کرو، اُس کے شَر سے بچو۔‘‘ 

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
غلام اسحاق کو مخالفانہ نعرے سننے پڑے

لغاری صاحب کو بہ حیثیت صدرِ پاکستان یہ’’ اعزاز‘‘ بھی حاصل رہا کہ اُنھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کے شدید ترین احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹّو کی حکومت میں اپوزیشن جماعت، مسلم لیگ (نون) کے ارکان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے صدرِ پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن وہ حکومتی جماعت کے صدر تھے اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے چند روز قبل پیپلز پارٹی کی حکومت نے میاں نوازشریف کے والد، میاں شریف کو ٹیکس کی عدم ادائی کے الزام میں گرفتار کر لیا، جو میاں نواز شریف کے لیے ذاتی طور پر ایک ناقابلِ برداشت واقعہ تھا، جب کہ مسلم لیگی ارکانِ اسمبلی بھی اشتعال میں تھے، لہٰذا فاروق لغاری مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے آئے ،تو میدان سجا ہوا تھا۔ مسلم لیگی ارکان بپھرے ہوئے تھے اور اُنھیں تقریر کا موقع نہیں دے رہے تھے۔ اس منظر کی تفصیل طویل ہے، البتہ ایوان میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلم لیگ (نون) کی خاتون رکن، تہمینہ دولتانہ نے ہنگامہ آرائی کے دَوران صدر کی جانب چوڑیاں اُچھال دیں اور سَر سے دوپٹّا اُتار کر بھی اُن کی طرف پھینکا۔ دوسری مرتبہ خود پیپلزپارٹی کے ارکان نے حکومت تحلیل کیے جانے کے خلاف اپنے ہی بنائے ہوئے صدر کے خلاف احتجاج کیا۔ اس مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹّو نے’’گو لغاری گو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ پیپلزپارٹی کے ارکانِ پارلیمان نے شدید ترین احتجاج، ہنگامہ آرائی اور اخلاق سے گرے ہوئے نعروں سے اُنہیں زچ کیا۔ لغاری صاحب کی تقریر اپوزیشن کے رُکن تو دُور کی بات، حکومتی ارکان بھی نہ سُن سکے۔

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
اپوزیشن کارفیق تارڑ پر ہلکا ہاتھ رہا

فاروق لغاری کے بعد سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج، محمّد رفیق تارڑ صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے۔ میاں نواز شریف نے اُنھیں پہلے سینیٹر بنوایا اور پھر اُسی سال صدرِ مملکت جیسے باوقار منصب پر بٹھا دیا۔ بعض حلقوں کا دعویٰ تھا کہ رفیق تارڑ نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اور بعد میں بھی اُن کے لیے’’ بڑی خدمات‘‘ انجام دی تھیں۔ اپنے تیسرے دورِ حکومت میں بھی میاں نواز شریف نے اُن کی صاحب زادی، سارہ افضل تارڑ کو وزیرِ صحت مقرّر کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے’’ باریش صدر‘‘ ہونے کے علاوہ، اُن کی کوئی انفرادیت سامنے نہیں آسکی، البتہ صوم وصلوٰۃ کے پابند رفیق تارڑ کے دَور میں صدارتی اختیارات بہ تدریج کم ہونے کا آغاز ہوا۔1999ء میں اقتدار پر قبضے کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے رفیق تارڑ کو عُہدے سے نہیں ہٹایا، تاہم2001 ء میں اُنہوں نے استعفا دے دیا۔ اُنھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ایک سے زاید بار خطاب کیا، لیکن اپنی بے ضرر شخصیت اور غیر متنازع طرزِ عمل کے باعث کسی قابلِ ذکر دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا، اپوزیشن نے رسمی سا ہی احتجاج کیا۔ تاہم، ایک مرتبہ خطاب کے بعد میڈیا کے نمائندوں نے اُنھیں گھیرے میں لے لیا، بہت سے سوالات تھے، جن کے جواب صدرِ مملکت سے متعلق تھے اور یہ بھی واضح تھا کہ اگر صدر نے اُن کے جواب میں ذرّہ بھر لغزش کی، تو بہت بڑی خبر بن سکتی ہے، یہی وجہ تھی کہ صدر رفیق تارڑ میڈیا سے بچنے کے لیے سکیوریٹی حصار میں چُھپتے پِھر رہے تھے اور پھر مشاہد حسین سیّد نے اُنہیں اس مشکل سے نکالا۔

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
ممنون حسین اپوزیشن کے بھی ممنون رہے

رفیق تارڑ کے مستعفی ہونے کے بعد اُس وقت کے چیف ایگزیکٹیو، جنرل پرویز مشرف نے خود کو مُلک کا صدر منتخب کروا کے اقتدار و اختیار کا تیسرا ہیٹ بھی پہن لیا۔ رفیق تارڑ جتنے کم گو، غیر متنازع اور’’ لو پروفائل‘‘ تھے، پرویز مشرف اُس کے قطعی برعکس تھے۔ اُنہوں نے12 اکتوبر1999 ء کو ایک بغاوت کے ذریعے منتخب وزیرِ اعظم کو جبری معزول کیا اور 20 جون2001 ء کو متنازع ریفرنڈم کے ذریعے خود کو مُلک کا 10 واں صدر منتخب کروا لیا۔اُن کے متنازع اقدامات میں صرف یہی شامل نہیں، بلکہ اقتدار پر قبضے کے علاوہ، امریکی جنگ میں شمولیت، پاکستانی شہریوں کو امریکا کے حوالے کرنا، ریفرنڈم اور انتخابات میں کھلی مداخلت، نواب اکبر بگٹی کا قتل، عدالتوں کی آزادی ختم کرنے جیسے متعدّد متنازع فیصلے بھی اُن کے اقتدار پر سوالیہ نشانات ہیں۔ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر جب وہ آئینی اور پارلیمانی تقاضا پورا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے پہنچے، تو اُنھیں ایوان سے باہر زبردست پروٹوکول دیا گیا، لیکن جب سفید شیروانی ( کہا جاتا تھا کہ شیروانی کے نیچے بلٹ پروف جیکٹ بھی تھی) زیب تن کر کے ایوان میں پہنچے، تو وہاں منظر اُن کی توقّعات اور خواہشات سے قطعی مختلف تھا۔

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
ڈاکٹر عارف علوی کو اپوزیشن کے شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا

حکومتی بینچز سے مسلم لیگ(ق) کے ارکان نے اُن کا خیر مقدم ضرور کیا، لیکن تقریباً پانچ سال کے اقدامات کے باعث اُن کی مخالفت میں شدید اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ(نون) سمیت اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے’’گو مشرف گو‘‘ کے نعروں سے اُن کا استقبال کیا۔ ایک حاضر سروس جرنیل کے لیے، جو مُلک کا صدر بھی ہو، یہ منظر انتہائی غیر مانوس تھا۔ جوانوں اور افسران سے تحکمانہ انداز میں خطاب کرنے والے جرنیل صدر نے عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے خطاب شروع ہی کیا تھا کہ ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ مسلم لیگ(ق) نے اپنے’’جرنیلی قائد‘‘ کی حمایت میں اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کی کوشش تو کی، لیکن اپوزیشن نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیا اور اسپیکر ڈائس کی طرف بڑھنے لگے۔ صُورتِ حال کے پیشِ نظر اسپیکر نے سیکیوریٹی اہل کاروں کو اشاروں سے چوکس کیا اور پرویز مشرف کے ساتھ آنے والے سکیوریٹی کے خفیہ اہل کار بھی حرکت میں آگئے۔ جنرل صاحب نے جیسے تیسے تقریر ختم کی۔ دونوں ہاتھوں کی مُٹھیوں کو جوڑ کر’’طاقت‘‘ کا اظہار کیا اور اپوزیشن کے سامنے سے مُکّا لہراتے ایوان سے رخصت ہوگئے۔ یہ جرنیلی صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلا اور آخری خطاب تھا۔ اس کے بعد’’ چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ کے مصداق اُنہیں عوام کے منتخب ایوان کا سامنا کرنے کی ہمّت نہ ہوئی۔ اُنہوں نے ارکانِ پارلیمان کو’’بدتمیز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا’’ اس ایوان کے ارکان اس قابل نہیں کہ مَیں اُن سے خطاب کروں۔‘‘ پرویز مشرف کے لیے آگے چل کر حالات گمبھیر ہوگئے، جنہیں مزید تقویّت پہنچانے میں آصف زرداری کا بڑا کردار تھا، جس پر اُنہوں نے 18 اگست2008 ء کو منصبِ صدارت سے استعفا دے دیا۔ فوجی وردی کے بغیر اُن کا یہ 9 ماہ کا عرصہ بھی بڑی دشواریوں میں گزرا۔

پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری، جنہیں’’مردِ حُر‘‘ اور’’مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ لکھا اور پکارا گیا، منصبِ صدارت پر فائز ہوئے۔ اُنہیں یہ انفرادیت بھی حاصل رہی کہ اُنہوں نے تقریباً11 سال جیل میں گزارے۔ یہ تمام عرصہ سیاسی مقدمات پر مشتمل نہیں، بلکہ اس میں اُن پر عاید کردہ بدعنوانیوں، جبری رشوت وصولی سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات بھی شامل ہیں، جن میں زمینوں پر قبضے کے الزامات سرِفہرست تھے۔ اس طرح وہ مُلک کے واحد صدر تھے، جو بڑی تعداد میں مقدمات بھی بھگت رہے تھے، لیکن صدر بننے کے بعد اُنہوں نے یہ مقدمات ختم کروانے شروع کردیئے اور ابتدا ہی سے یہ موقف اختیار کیا کہ ان پر قائم تمام مقدمات سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں۔ اگست 2008 ء میں ایم کیو ایم کے بانی نے اُن کا نام صدارت کے لیے تجویز کیا اور اگلے ماہ پیپلزپارٹی نے باضابطہ طور پر صدارت کے لیے نام زد کردیا۔ کم عُمری میں فلم میں کام کرنے اور سینما سے تعلق رکھنے والے آصف زرداری کا 1980ء تک سیاست سے دُور دُور کا بھی تعلق نہیں تھا، البتہ اُن کے والد ،حاکم علی زرداری اُس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی سے وابستگی کے سبب باچا خان کے نظریات اور خان عبدالولی خان کے خیالات سے ہم آہنگی رکھتے تھے۔ آصف زرداری نے کیڈٹ کالج ،پٹارو سے انٹرمیڈیٹ کیا، لیکن اُن کے گریجویٹ ہونے کی کوئی تصدیق نہیں ملتی اور خود اُنہوں نے بھی کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ 1987 ء میں بے نظیر بھٹّو سے شادی کے بعد آصف زرداری ایک نئے حوالے سے سیاسی منظر نامے پر آئے۔ اس شادی پر پیر صاحب پگارا کا تبصرہ تھا کہ’’ اب بھٹّو کی بیٹی کو جوڈو کراٹے سیکھنے پڑیں گے۔‘‘ چوں کہ محترمہ بینظر بھٹّو کی شہادت کے باعث ہم دردی کے جذبات موجود تھے، پھر اُن کی شہادت کے موقعے پر’’ پاکستان کھپّے‘‘ کا نعرہ بھی اُنہوں نے خُوب کیش کروایا، اِس لیے ابتدا میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں اُنہیں کسی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پھر خود آصف زرداری اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے خوش گوار تعلقات پر یقین رکھتے تھے، لیکن پھر بھی وہ موقع آ ہی گیا، جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جس نعرے کی ابتدا خود اُن کی شریکِ حیات نے کی تھی، اپوزیشن نے وہی نعرہ’’گو زرداری گو‘‘ اُن کے خلاف لگانا شروع کر دیا۔ وہ واحد صدرِ مملکت تھے، جنہوں نے6 مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اُن کی تقاریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاج بھی ہوئے، ہنگامہ آرائی اور واک آؤٹ بھی، لیکن کوئی بڑا اور غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔

پاکستان میں بے ضرر صدور کا سلسلہ فضل الٰہی چوہدری سے شروع ہوا تھا، جن کا انتخاب وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹّو نے کیا تھا۔ اُس وقت صدر کے تمام اہم اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل ہو چُکے تھے۔ پھر یہ سلسلہ محمد رفیق تارڑ سے لے کر ممنون حسین تک پہنچا اور اب تک جاری ہے۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے فضل الٰہی چوہدری کا تعلق مسلم لیگ سے تھا، وہ 1971 ء میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے۔ پارلیمانی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے تھے، لیکن طبعاً منکسر المزاج شخص تھے۔ اُن کی شرافت اور بے بسی دیکھتے ہوئے بعض مَن چلوں نے اُن کے لیے یہ نعرہ بھی لگادیا’’ فضل الٰہی چوہدری کو ایوانِ صدر سے رہا کرو۔‘‘ اُن کی کچھ ایسی ہی مماثلت پاکستان کے بارہویں صدر ممنون حسین سے دیکھنے میں آئی۔1993 ء میں جب غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کی، تو ممنون حسین نے میاں نواز شریف کی سیاسی قربت حاصل کی اور سندھ میں مسلم لیگ (نون) کے تنظیمی عُہدوں پر فائز رہے۔ 1997ء میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ، لیاقت جتوئی کے مشیر بھی رہے۔ 1999ء میں نواز شریف نے اُنہیں سندھ کا گورنر مقرّر کیا، لیکن 6 ماہ بعد ہی نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی اور پھر ممنون حسین بھی معزول کر دیئے گئے۔ مشہور ہے کہ وہ سندھ کے گورنر ہائوس میں وزیرِ اعظم، نواز شریف کی اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ کھانوں سے تواضع کرتے، جن میں ربڑی، دہی بڑے اور اسی نوع کی دیگر اشیا شامل تھیں۔ اسی صلے میں اُنہوں نے سیاسی رفعتیں پائیں، لیکن اصل بات ممنون حسین کی ’’سیاسی تابع داری ‘‘ تھی، جس نے اُنہیں مُلک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچا یا۔ اُنہوں نے اپنے بے اختیار اقتدار کو پانچ سال تک اپنے خاندان کے ساتھ خُوب انجوائے کیا اور کسی سیاسی تنازعے میں نہیں پڑے، اسی لیے اُنہیں’’ ہومیو پیتھک صدر‘‘ بھی کہا جاتا تھا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں اپوزیشن نے اُنہیں تنگ کرنے کے لیے غیر پارلیمانی شرارتیں تو کیں، لیکن کوئی سنجیدہ یا بڑا احتجاج نہیں کیا۔

تہمینہ دولتانہ کے جہاز کا رُخ تبدیل کروا دیا گیا

تہمینہ دولتانہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مسلم لیگ (نون) کی جانب سے شدید احتجاج کرتے ہوئے صدر فاروق لغاری پر چوڑیاں اور دوپٹّا پھینکا، تو ہر ایک کی توجّہ کا مرکز بن گئیں، لہٰذا جب صدرِ مملکت کی حیثیت سے جنرل پرویز مشرف نے پارلیمنٹ سے خطاب کا فیصلہ کیا، تو مختلف سیکیوریٹی اداروں کے افسران نے کئی دن پارلیمنٹ کے بعض حکّام سے میٹنگز کیں۔ ان میٹنگز کا مقصد یہ بھی تھا کہ صدرِ مملکت کی تقریر کے دَوران اپوزیشن کے کسی بھی رُکن کی اُن تک رسائی ناممکن بنائی جا سکے۔ اس حوالے سے تہمینہ دولتانہ کا ایوان میں عمومی اور فاروق لغاری کی تقریر کے دَوران طرزِ عمل خاص طور پر زیرِ غور آیا۔ جس دن پرویز مشرف نے ایوان سے خطاب کرنا تھا، اُس سے ایک دن پہلے سیکیوریٹی اہل کاروں کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ مسلم لیگ (نون) نے صدر کی تقریر کے دوران احتجاج کی ذمّے داری جن ارکان کو دی ہے، اُن میں سرِفہرست تہمینہ دولتانہ ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اجلاس کے روز تہمینہ دولتانہ جس جہاز سے اسلام آباد آرہی تھیں، اُسے اسلام آباد آنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی اور جہاز کا رُخ پشاور کی طرف موڑ دیا گیا ۔ اُنہیں پشاور ائیرپورٹ پر اُس وقت تک روکے رکھا گیا، جب تک پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ختم نہیں ہو گیا۔ بعدازاں، تہمینہ دولتانہ نے اسلام آباد پہنچنے پر میڈیا کو صُورتِ حال سے آگاہ کیا، جس میں یہ بھی کہا کہ وہ صدر پرویز مشرف کے خلاف ’’جہاز اغوا‘‘ کا مقدمہ درج کروائیں گی۔ اس کے علاوہ بھی اُنہوں نے کئی جذباتی دعوے کیے، لیکن وہ پرچہ درج کرواسکیں اور نہ ہی کوئی اور کارروائی ہوئی۔ اطلاعاً عرض ہے کہ تہمینہ دولتانہ کا شمار اب’’سیاسی مِسنگ پرسنز‘‘ میں ہوتا ہے۔ وہ سیاست سے غیر اعلانیہ طور پر تقریباً کنارہ کش ہوچُکی ہیں۔ اُن کا اپنے اسیر قائد کے حوالے سے بھی کوئی مذمّتی بیان سامنے نہیں آیا۔ اِن دنوں وہ مَری میں اپنے ریزارٹ اور ہوٹل کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔

نواب بگٹی کی بات درست نکلی

سردار فاروق خان لغاری بلا شک و شبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے وفادار تھے اور یہ سلسلہ، ذوالفقار علی بھٹّو سے محترمہ بے نظیر بھٹّو تک برقرار رہا۔ لغاری صاحب نے سِول سروس کو خیرباد کہہ کر بھٹّو صاحب کے ساتھ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ والد سے وابستگی اور پارٹی کے ساتھ وفاداری ہی کی وجہ سے بے نظیر بھٹّو نے اُنہیں صدرِ مملکت بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ لغاری صاحب کے لیے ووٹوں کے حصول میں سب سے اہم کردار آصف زرداری کا تھا، جو اُس وقت محض وزیرِ اعظم، بے نظیر بھٹّو کے شوہر تھے۔ وہ ایک ایک رُکنِ اسمبلی کے پاس جا کر ووٹ طلب کرتے رہے اور یہ سلسلہ بسا اوقات20، 20گھنٹے جاری رہا۔ 

پارلیمان سے صدر کا خطاب، آسان معرکہ نہیں
اکبر بگٹی ، فاروق لغاری سے گفتگو کرتے ہوئے، مضمون نگار بھی درمیان میں نمایاں ہیں

نواب اکبر بگٹی بلوچستان ہائوس میں مقیم تھے، آصف علی زرداری اسی مقصد کے لیے اُن کے پاس آئے(ہم بھی وہیں موجود تھے)۔ آصف صاحب نے ’’چاچا‘‘ کہہ کر نواب صاحب کے گھٹنوں کو چُھوا۔ چوں کہ آصف زرداری بھی بلوچ ہیں، اس لیے دونوں میں بلوچی زبان میں مکالمہ ہوا، جو باقی افراد نہ سمجھ سکے۔ زرداری صاحب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے لغاری صاحب کے لیے ووٹ اور حمایت کی درخواست کی اور اُن کے لیے کچھ ستائشی جملے بھی کہے۔ نواب صاحب کا کہنا تھا’’ اگر تم نے واقعی یہ فیصلہ کر لیا ہے، تو پھر میں کون ہوتا ہوں، کوئی رائے دینے والا۔‘‘ پھر قدرے خاموشی کے بعد نواب صاحب نے دونوں ہاتھوں سے اپنی مونچھیں مروڑنا شروع کر دیں( نواب صاحب کی عادت تھی۔ کوئی اہم بات، فیصلہ کُن جواب یا معنی خیز جملہ کہنے سے پہلے کچھ دیر خاموش رہتے، پھر مونچھوں کو بَل دیتے)، کمرے میں سکوت طاری تھا۔ نواب صاحب نے اپنی گرج دار آواز میں زرداری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ٹھیک ہے، لیکن ایک بات یاد رکھنا، یہ (فاروق خان لغاری) ایک سانپ ہے، یہ تمہیں ڈسے گا ضرور۔‘‘ کچھ دیر بعد محفل برخاست ہو گئی، لیکن اگلے ہی لمحے زرداری صاحب دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے اور بڑی لجاجت سے کہا’’ فاروق لغاری باہر کھڑے ہیں، اگر آپ دستِ شفقت رکھ دیں، تو اُن کی بھی حوصلہ افزائی ہو جائے گی، اجازت ہو تو اندر بلا لوں۔‘‘ نواب صاحب نے چند لمحے سوچا، پھر مونچھوں کو تائو دیا، اپنا عصا سنبھالا اور فاروق لغاری کو اندر بلانے کی بجائے خود زرداری صاحب کے ساتھ باہر چلے گئے۔ اس موقعے پر نواب صاحب اور فاروق لغاری کے درمیان جو مکالمہ ہوا، دونوں مرحوم شخصیات کے احترام میں اس کا تذکرہ نہ کیا جائے، تو بہتر ہے۔

تازہ ترین