• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارہ سال کے طویل عرصے کے بعد مسئلہ کشمیر یورپین پارلیمنٹ میں زیر بحث آگیا۔ اس مسئلے پر یورپین پارلیمنٹ میں آخری بحث مئی 2007 میں ہوئی تھی۔

یورپی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر 12برس بعد بحث


اس بحث کے دوران دو درجن کے قریب ممبران نے حصہ لیا۔ بحث کے آغاز اور اس کے اختتام پر یورپین خارجہ اُمور کی سربراہ کی طرف سے گفتگو کرتے ہوئے یورپین افئیرز کی وزیر مادام Tytti Tuppurainenنے کہا کہ یورپ پہلے دن سے اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

یہ بھی پڑھیے: یورپین پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث

اگست کے آغاز میں ہی جب یہ مسئلہ شروع ہوا تھا، یورپ نے دونوں ملکوں سے کہا تھا کہ دونوں ملک تنائو میں اضافے کو روکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی سطح پر مذاکرات ناگزیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پوزیشن یہ ہے کہ دونوں ملک کنٹرول لائین کے دونوں اطراف کے عوام کے مفاد میں کشمیر کا سیاسی اور سفارتی حل نکالیں۔ یہی طویل عرصے سے جاری حل طلب مسئلے کا واحد حل ہے اور جو خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کا سبب ہے۔

یورپین یونین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کی بنیادی آزادیوں پر لگائی گئی قدغنوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عوام کے ذرائع آمدورفت، کمیونیکیشن اور تمام بنیادی سہولتوں کو جلد از جلد بحال کیا جائے۔

یورپین افئیرز کی وزیر نے مزید کہا کہ ہائی ریپریزینٹیٹیو نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے بھی 13 اگست کو برسلز میں ہونے والی ملاقات کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں عوام کی بنیادی آزادیاں بحال کریں۔ یورپین نے جنیوا میں ہونے والے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بھی یہی موقف اپنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: یورپی پارلیمنٹ میں بحث کے لیے چار نکاتی مطالبات پیش

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دونوں ملکوں پر وہاں بھی زور دیا تھا کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے اس مسئلے کے پر امن حل کے لیے براہ راست مذاکرات کریں۔

یورپین افئیرز کی وزیر نے مزید کہا کہ آج کی دنیا میں پہلے سے پھیلے ہوئے تنازعات میں کوئی بھی کشمیر کے ایک اور تنازعے کو برداشت نہیں کر سکتا۔

تازہ ترین