• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیر اعلیٰ بزدار کو ایک بار پھر ’فری ہینڈ‘ کا اشارہ مل گیا؟

ایسے ماحول میں جبکہ ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہے مہنگائی عروج پر ہے، بیروزگاری عام ہے عمران خان حکومت سے وابستہ خواب بکھر چکے ہیں ہمیں کشمیر کے مسئلے کا سامنا ہے۔ اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کا تصور بظاہر سیاسی حوالے سے قابل عمل اور مناسب معلوم دیتا ہے مگر زمینی حقائق کے مطابق اگر اس کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت سے ’’اگرمگر‘‘ شامل ہیں ۔اتوار کی شام کو بالاخر مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کی اس اہم موضوع پر تفصیلی ملاقات ہو گئی ہےاس میں یہ فیصلہ تو کر لیا گیا کہ (ن) لیگ اور جے یو آئی حکومت کے خلاف ملکر آزادی مارچ کرینگی یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں جماعتیں ملکر مارچ یا اسلام آباد دھرنے کی تاریخ کا تعین کرینگی ۔ 

اس ملاقات سے پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ تاریخ کا تعین نہ ہونے سے آپشنز کھلے ہیں یہ ایک طرح کا سیاسی دباؤ بھی کہلا سکتا ہے جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے معاملات میں اب کچھ تھوڑی بہت لچک نظر آتی ہے کہا جاسکتا ہے کہ یہ شہباز شریف کی ’’سیاسی سوچ اور اپروچ‘‘ کے باعث ممکن ہوا ابھی 30ستمبر کو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہو گا یعنی اب دھرنے یا لاک ڈائون کا حتمی فیصلہ مولانا فضل الرحمن سے دیگر جماعتوں تک پہنچ گیا ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف اس میں اہم کردار بن گئے ہیں شنید ہے کہ 12ستمبر جمعرات کو شہباز شریف نے جیل میںقید نواز شریف سے جو ملاقات کی اس میں نواز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ عوام میں جو بے چینی ، مایوسی پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے اور اس کو ایڈریس کرنے کے لئے ہمیں آگے آنا ہو گا سب کو معلوم ہے کہ شہباز شریف باوجود اس کے کہ ان کا صاحبزادہ حمزہ شہباز نیب کی حراست میں ہیں ۔ 

آئے دن ان پر بھی کرپشن کے حوالے سے نئے نئے مقدمات اور الزامات لگتے ہیں۔مگر وہ نواز شریف سے مختلف بیانیہ رکھتے ہیں وہ شریف خاندان پر گزرنے والے مصائب و مشکلات کو اسٹیبلشمنٹ سے اگرچہ محاذ آرائی کا سبب سمجھتے بھی ہیں لیکن وہ محاذ آرائی کرنے کے مخالف ہیں۔ گو کہ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہے لیکن مسلم لیگیوں کی بڑی تعداد نواز شریف کے بیانئےاور موقف کو ہی درست سمجھ کر قربانیاں دے رہی ہے اور مصائب مشکلات برداشت کر رہی ہے ۔ شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس قدر مضبوط ہے کہ اس سے لڑنا محال ہے لیکن مسلم لیگیوں کی بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ اس وقت معیشت تباہ ہے بھارت نے آئین میں ترامیم کرکے مقبوضہ کشمیر کی اپنے تئیں بھارت کا حصہ بنا لیا ۔عمران خان مکمل ناکام ہو گئے ایسے ماحول میں عمران خان کو لانے والے بھی سوچ بدلنے پر مجبور ہونگے۔ شیخ رشید کا شہباز شریف کے بارے میں بیان کہ شہباز شریف دوبارہ سرگرم ہوگئے اور رابطے میں ہیں بہت اہم اور معنی خیز ہے اس بیان سے یہ بھی تصدیق ہوجاتی ہے کہ کشمیر کے مسئلے معیشت کی تنزلی کے اہم مسائل کے باوجود ’’رابطوںڈیل ڈھیل‘‘ وغیرہ کا سلسلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ 

شیخ رشید سے پوچھا جا سکتا ہے کہ عدالتوں ، احتسابی اداروں کی موجودگی میں رابطوں کا کیا مقصد ہے؟ کیا یہ بلاتمیز اور بے لاگ احتساب ہو رہا ہے؟ کیا سزائیں جو جرائم کئے گئے ہیں اس کے مطابق ملتی ہیں اگر ایسا ہے تو رابطوں کا کیا مطلب ہے؟شیخ رشید تو نواز شریف کے بیانئے کو سچ ثابت کرنے پر گامزن ہیں اسی اثناء میں جیل میں قید سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نواز شریف کو لکھا گیا مبینہ خط مسلم لیگ (ن)کے حلقوں میں کافی زیر بحث رہا گو کہ کئی طرف سے اس خط کے لکھے جانے کی تردید آئی ہے لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ شاہد خاقان عباس نے ایسا خط لکھا تھا جس میں نواز شریف سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ تین چارسال کےلئے ملک سے باہر جانا قبول کرلیں اس سے ان کی صحت جو تیزی سے خراب ہو رہی ہے بحال ہونا شروع ہو جائے گی لیکن کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے کسی مصالحت سے انکار کر دیا سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ خط لکھنے کا مشورہ شاہد خاقان عباسی کو کس نے دیا۔

کیا یہ مشورہ شہباز شریف کو جیل میں ملکر نواز شریف کو نہیں دے سکتے تھے ؟ بہرحال یہ بات حتمی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی یہ اپنی سوچ نہ تھی کسی نے یہ کام کروایا تھا اس کا بھیدبعد میں کھلے گا۔ گزشتہ ہفتہ پنجاب کی سیاست کے حوالے سے بھی خاصا اضطراب انگیز اور چونکا دینے و الا رہا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں یہ افواہیں زور پکڑ گئی تھی کہ انہیں بالاخر فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے لیکن کام اس کے برعکس ہوا۔عون چودھری اور ان کے ترجمان شہباز گل ہی فارغ ہو گئے لیکن ان دونوں کو فارغ کرتے ہوئے مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی منفی ریمارکس نہ آئے اس سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی پرموشن بھی ہوسکتی ہے ۔ عمران خان سے عثمان بزدار کی ملاقات میں جب ان کی کارکردگی زیر بحث آئی تو عین ممکن ہے کہ عثمان بزدار صاحب نے اس کارکردگی کے منفی پہلوؤں کو اپنے ترجمان پر الزام دھر دیا ہو جس پر عمران خان نے عثمان بزدار کو فری ہینڈ دینے کا اشارہ دیا ہو۔ اب عثمان بزدار صاحب زیادہ مشکل میں آ جائیں گے جب کسی کو فری ہینڈ ملتا ہے تو کارکردگی کی خرابی کے حوالے سے اس کے پاس کوئی جواز یا بہانہ بھی نہیں رہتا لیکن اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو تو معلوم ہے کہ عوام کارکردگی کی وجہ سے شہباز گل یا ان کے مداخلت نہیں یہ مداخلت کسی ایک جگہ سے نہیں بلکہ کئی ’’مداخلتیں ہیں۔ 

اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ کی اپنی صلاحیتیں تجربہ وژن اور بیوروکریسی سے کام لینے کے ہنر کے ناپیدہونے کا بھی معاملہ ہے جس کے بارے میں چرچا زدعام ہے اب ڈینگی کے مرض کو ہی دیکھ لیں بڑے عرصے بعد پنجاب میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پنجاب کے عوام کو یاد ہے کہ جب یہ مرض 2015یا 2016میں وباءکی صورت اختیار کر گیا تھاتو اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کس طرح تندہی جانفشانی اور حکمت عملی سے اس مرض کا قلع قمع کیا تھا۔مرض کے خاتمے کے لئے لاروے تک نگرانی کا کام جس طرح انجام پاتا تھا وہ اپنی مثال آپ ہے اب صوبہ جو خوشحالی اور ترقی کی جانب شہباز شریف کے دور میں جس تیزی سے گامزن تھااب زبوں حالی،ابتری اور بدانتظامی کا شکار ہے ۔عمران خان کو نہ معلوم اس صوبے پر کیوں رحم نہیں آتا وہ عثمان بزدار کو ہی وزیر ا علیٰ رکھنے پر کیوں بضد ہیںان کو حالات کی سنگینی کو سمجھنا چاہئے۔ 

پنجاب ناراض ہوا یا بدحال ہوا تو مرکز بھی جائے گا۔اسلام آباد لاک ڈائون یا دھرنے میں پنجاب کی صورتحال بھی کردار ادا کر چکی بات صرف یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت کو جانچنے یا پرکھنے کے لئے ایک سو ا سال کا عرصہ دینا کافی ہے ؟دوسرے کیا باقی ادارے اپنی پرانی سوچ اور رویے کو تبدیل کرتے ہیں یا نظرثانی پر تیار ہیں پھر اصل سوال یہ ہے کہ کسی بھی تبدیلی کے لئے طریقہ کار کیا ہو گا؟متبادل یا دیگر آپشنز کو سنتے ہیں؟مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر جو داغ اور دھبے لگے ہیں ان کو صاف کرنے یا ان کی جگہ متبادل قیادت لانے کا کوئی حل موجود ہے ؟مریم نواز نے گرفتاری سے قبل جو زبردست جلسے کئے تھے وہ تو کہانی کو کوئی اور موڑ دینے لگے تھے بہرحال عام تاثر یہ ہے کہ کشمیر ایشو کے باوجود مہنگائی بدانتظامی نے لوگوں کی سوچ یکسر تبدیل کر دی ہے۔ عام اور غریب آدمی بیروزگاری، غربت ، مہنگائی سے عاجز ہے وہ زیادہ انتظار نہیں کر سکتا یہ سب کچھ کشمیر کے مسئلے کو بھی متاثر کر رہا ہے کمزور معیشت دفاع پر بھی اثرانداز ہوتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ خراب اقتصادی حالت کچھ ایسی ہو جائے کہ پھر کسی سے بھی سنبھالے نہ سنبھل سکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین