• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں،انہیں حتیٰ الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ اسلام نے حقوق وواجبات کی فہرست میں راستے کے حق کا اضافہ کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا کہ راستہ مسافروں کے لیے مامون ومحفوظ ہو اور انہیں دوران سفر کسی پریشانی کا سامناکرنا نہ پڑے، اس کے لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا بھی ایک عبادت بنا دیا گیا، چناںچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ طیبہ یعنی لا الہٰ الاّ اللہ اورآخری راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

اسلامی معاشرے میں اخلاقی اقدار اور حقوق العباد کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، جس سے انحراف اور نافرمانی بدترین گناہ اور عذاب کا سبب ہے

راستے سے تکلیف دہ وناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی عام صدقہ نہیں، بلکہ یہ اتنا بڑا عمل خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لیے کافی بھی ہے۔ روایت کے مطابق راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستہ سے ہٹا دیا، اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (بخاری ومسلم)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستے میں موجود ایسے درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ (صحیح مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا، سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی ، یا کسی تکلیف دہ چیز کو تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔ (سنن ابوداوٴد:۵۲۴۰) یہ اللہ کے نزدیک اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ ایسے شخص کے لیے جنت کی ضمانت بن جاتا ہے۔

حضرت ابو طلحہؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں کررہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے، فرمایا تم لوگ راستے پر کیوں بیٹھ جاتے ہو؟اس سے بچو۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لیے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہٴ خیال کے لیے بیٹھے ہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، اگر کرنا ہی ہے تو اس کا حق ادا کرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔(صحیح مسلم:۵۶۱۰)

یہ حدیث راستے میں یافٹ پاتھ پر مجلس جمانے کی ممانعت میں بالکل واضح ہے ، ضرورتاً بھی اس کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کا موضوع فحش تبصرے ، غیبت اور شیخی کے بجائے امربالمعروف ونہی عن المنکر ہو، گزرنے والا کوئی بھی ہو ، اسے گھورا نہ جائے اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت کی جائے جس سے اسے ذہنی یا جسمانی اذیت ہو، اسی طرح ایسی جگہیں جہاں عام طور پر خواتین کا ہجوم ہوتا ہو، بلاکسی معقول وجہ کے راستے میں ٹھہرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا واحد مقصد خواتین کو گھورنا یا انہیں ہراساں کرنا ہے، جو حرام ہے، اس کے علاوہ گزرنے والوں کا اس حوالے سے جائزہ لینا کہ وہ کہاں سے آرہا ہے یا کہاں جارہا ہے، یا اس کےساتھ کیا سامان ہے، یہ سب دوسروں کی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا اس قسم کی حرکت کرنے والے دوسروں کا راستے سے گزرنا مشکل بنا دیتے ہیں اور غیروں کی عزت وحرمت کو مجروح کرتے ہیں، اور اس طرح گزر گاہوں سے نہ صرف سیئات بٹورتے ہیں، بلکہ اپنی عزت وحرمت کو داؤ پر لگاتے ہیں، اس لیے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذلت ورسوائی طے کردی ہے۔

راستے کی حق تلفی کے بہت سے طریقے ہیں جن میں اہم راستے میں کسی ایسی چیز کا ڈال دینا ہے جو گزرنے والوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے جیسے کچرا ، کانچ، یا پھر کیل اسی طرح راستے پر نجاست وغیرہ کردینا ۔رسول اللہﷺ نے ایسے لوگوں کو لعنتی قرار دیا ہے۔آپ ﷺنے فرمایا، دولعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو ، صحابہؓ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے (نجاست وغیرہ کردیتے) ہیں۔ (صحیح مسلم: ۵۷۱)

راستے کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں ایک اہم زیادتی دکانداروں کا اپنی دکان روڈ تک بڑھا دینا ہے، اس کے علاوہ ریڑھی والے جو راستے میں کھڑے ہوکر کاروبار کرتے ہیں، اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمد ورفت میں دشواری ہوتی ہے۔امام غزالی ؒنے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین میں ”منکرات الشوارع “کے نام سے ایک مستقل فصل قائم کی ہے اوراس میں تفصیل سے راستے میں کی جانے والی ان تصرفات کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے راستے پر چلنے والے کو دشواری ہوتی ہے جیسے گھر کے سامنے ٹینٹ لگانا، جانوروں کو روڈ پر باندھنا ، پانی روڈ پر چھوڑنا، بالکونی ، چھجہ وغیرہ راستے کی جانب نکالنا، انہوں نے ایسے تمام عمل کو مکروہ قرار دیا ہے۔

راستے کی زمین کا کوئی بھی حصہ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ مکان کی تعمیر میں شامل کرنا غصب کے ضمن میں آتا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ لی تو اللہ قیامت کے دن سات تہہ زمین اس کے گلے میں لٹکائے گا۔ (صحیح بخاری: ۱۳۲۸)آپ ﷺنے فرمایا:جس نے ناحق کسی کی زمین ہڑپ لی تو قیامت کے دن اسے اس کے ساتھ زمین کی سات تہہ تک دھنسا دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری:۲۴۱۱)

حضرت سہل بن معاذؓ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے، راستے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تولوگوں نے خیمے لگانے میں راستے کی جگہ تنگ کردی، اور عام گزر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسولﷺ کو اس صورت حال کا پتا چلا تو آپﷺ نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستے میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد(قبول) نہیں ہے۔ (سنن ابو داوٴد: ۳۹۲۰)

بہت سے لوگ نماز کے اوقات میں خاص طور پر جمعہ کے دن اپنی گاڑیاں مساجد کے سامنے راستے پر اس طرح پارک کردیتے ہیں کہ وہاں سے گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے کافی دشواری ہوتی ہے ، بعض لوگ تو بیچ راستے میں ہی پارک کرکے چلے جاتے ہیں، رسول اللہﷺ نے راستے کے حق کا خیال نہ رکھنے والوں کے جہاد جیسی عظیم عبادت کو رائیگاں قرار دیا ہے، تو یہ حرکت کیا ان کی نمازوں پر سوالیہ نشان نہیں لگادیتی ہے؟ لہٰذا مساجد کے سامنے راستے پر گاڑی پارک ہی نہیں کی جانی چاہیے، اور اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہو تو کوشش کرنی چاہیے کہ گاڑی بالکل کنارے پارک کریں، تاکہ راستہ نہ تنگ ہو ،نہ بند ہو اورگزرنے والے آسانی سے گزریں۔

راستے کے معاملے میں اس کامامون ومحفوظ ہونا بھی اہم ہے،تاکہ لوگ وہاں سے بے خوف وخطر گزر سکیں، اسلام نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ اس لیے راستے پر ایسا کوئی بھی عمل جس کی وجہ سے راہ گیروں کا جان ومال خطرے میں پڑے جرم تصور کیا جائے گا، لہٰذ اٹریفک قوانین کی پاس داری شرعاً ضروری ہوگی، اس لیے کہ اس کا مقصد راستے کو ہر ایک کے لیے مامون ومحفوظ بنانا ہے ، لہٰذا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی یا راستوں پر کوئی ایسی حرکت جو راہگیروں کے لیے خطرے یا پریشانی کا باعث بنے، جیسے بہت تیز گاڑی چلانا، سڑک پر ریس لگانا، خطرناک طریقے سے اور ٹیک کرنا، بلا ضرورت تیز ہارن بجانا ، ریڈ سگنل کراس کرنا نہ صرف قانوناً، بلکہ شرعی اعتبار سے بھی قابل مواخذہ جرم ہے۔ موجودہ دور میں المیہ یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو عام طور پر اہمیت نہیں دیتے، حالاں کہ حقوق العباد میں یہ تمام باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، ہمارے دین نے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہ نمائی کی ہےاور ان پر عمل پیرا ہونا ہمارا دینی ،معاشرتی اور مذہبی فریضہ ہے۔

تازہ ترین