• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھری ڈی پرنٹنگ نے 2010ء میں مقبولیت حاصل کی اور لوگوں نے گھروںمیں موجود تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے اپنے کپڑوں اور کھانوں کی تھری ڈی تصاویر حاصل کرنا شروع کردیں۔ درحقیقت تھری ڈی پرنٹنگ کی دنیا اس سے بھی زیادہ وسیع اور حیرت انگیز ہے اور جب ہم اس دنیا میں داخل ہوئے تو ہمیں صحت کی دنیا میں انسانی اعضا کی تیاری سے لے کر سستے گھروں کی تعمیر کےا مکانات ملے اور پھراس کی حدبندی کرنا ناممکن ہوگئی اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں تھری ڈی پرنٹنگ اپنے رنگ دکھانے اور زندگی آسان بنانے لگی۔

تھری ڈی پرنٹنگ کی سائنس

1983ءمیں جب دنیا بھر میں سی ڈیز اور کیم کوڈر مقبولیت حاصل کررہے تھے، اس سال تھری ڈی سسٹم کارپوریشن کے چارلس ڈبلیو چک ہلز نے دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹر ایجاد کیا تھا۔ چک ہلز نے اس تھری ڈی پرنٹر میں اسٹیریو لیتھو گرافی تیکنیک استعمال کی تھی۔ اس پرنٹر سے کسی بھی ٹھوس شے کو پرنٹ کرنے میں کافی وقت اور سرمایہ لگتا تھا۔ اس وقت تو چارلس ڈبلیو چک ہلز کی ایجاد کو سی ڈیز اور کیم کوڈر جیسی تفریحی ایجادات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہرت نہ ملی سکی کیونکہ ایک دنیا ان میں مشغول تھی۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ چک ہلز نے اپنے تھری ڈی پرنٹر میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اسے صنعتی اداروں میں متعارف کروایا۔ اس کی قیمت عام لوگوں کی دسترس میں نہیںتھی، اسی لئےدیگر سائنسدانوں نے ایسا تھری ڈی پرنٹر بنانے کی کوشش شروع کردی جو کم قیمت اور تیز رفتار ہو۔ کچھ عرصہ قبل برطانوی کمپنی نے ایک جدید تھری ڈی پرنٹر متعارف کروایا، جو مخصوص آؤٹ لیٹ پر دستیاب ہے۔700پاؤنڈ مالیت کے اس پرنٹر کو المونیم کے فریم میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ پرنٹر کے ساتھ ڈیزائننگ سافٹ ویئر اور پرنٹ کرنے کیلئے5 میٹر پولی لیکٹک ایسڈ تار بھی مہیاکیا گیا ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کے روشن مستقل کے پیچھے کچھ محرکات ہیں،جن کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اضافی لاگت میں کمی

ماڈلنگ کرنے والے پری استھیٹک مینوفیکچرر کمپنی نے تھری ڈی پرنٹنگ سوفٹ ویئر کو تھری ڈی ماڈلنگ سوفٹ ویئر کے ساتھ ملا کر کسی عضو کی اضافی لاگت کو 75فیصدکم کردیا تھا، یعنی مصنوعات کی ماڈلنگ کے آپشنز بنانے کی لاگت محض50ڈالر تک چلی گئی تھی۔ اگر کسی فیملی کو انسانی اعضا کیلئے تھری ڈی ماڈلنگ کی ضرورت ہے تو وہ ا س قسم کے لوازمات کی لاگت کو برداشت کرنے کے قابل ہوگئی ہے۔ اب جو نئی نسل جوان ہورہی ہے، وہ پرواستھیٹک کے پہلو کو سمجھنے لگی ہے۔ اگر کسی کو اپنے لئے نیا بازو بنوانا ہے، تو اسے بنوانے سے پہلے تھری ڈی ماڈلنگ اس کے ہزاروں ڈالر بچاسکتی ہے۔

اعضا کی تیاری

تھری ڈی پرنٹنگ کا سب سے زیادہ کارآمد فائدہ اس کے ذریعے انسانی اعضا کی تیاری ہے، جسے بائیو پرنٹنگ بھی کہا جاتاہے۔ یہ روایتی تھری ڈی پرنٹنگ کا اگلا مرحلہ ہے، جو زندہ عضلات، ہڈیوں، خون کی شریانوں اور جسم میں موجود دیگر اعضا کی تھری ڈی شکل سامنے لاتی ہے۔ بائیو پرنٹر بالکل تھری ڈی پرنٹر کی طرح کام کرتاہے لیکن اس میں ٹھوس چیزیں جیسے سیریمک وغیرہ استعمال نہیں ہوتا۔ اس میں بائیومٹیریل کی نرم تہیں ڈالی جاتی ہیں، جو عضلات یا خون کی شریانو ں کی جگہ لیتی ہیں۔

رواں برس ماہرین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے انسانی دل تیار کرلیا، جس کیلئے انسانی جسم کی بافتوں کو استعمال کیا گیاہے۔ نئےدل کی تیاری انسانوں میں دوران خون کے امراض کے علاج کیلئے اہم پیش رفت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طبی خطرات یا پیچیدگیوں کو بھی کم کرسکے گا، جو کسی مریض کے جسم میں کسی دوسرے فرد کے دل کی پیوندکاری کےدوران سامنے آتی ہیں۔ ایک ریسرچ کمپنی کے مطابق تھری ڈی پرنٹنگ کی مارکیٹ 2026ء تک 4.1بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی ، اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی نت نئی کارستانیاں سامنےآئیں گی۔

تعمیرات کی دنیا

یہ خبریں تو اب عام ہیں کہ تھری ڈی پرنٹنگ نے تعمیرات کی دنیا بھی آسان بنادی ہے۔ یعنی اب تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے سیمنٹ اور دیگر تعمیری سامان ا سپرے کر کے گھر کی دیواریں تعمیر ہوسکتی ہیں۔ سستے تعمیراتی سامان اور مزدوروں کے بغیر 24گھنٹے میں تعمیر کیے گئے ان گھروں کی تعمیراتی قیمت فی گھر چند ہزار ڈالر ہوتی ہےیعنی یہ گھر نہ صرف بہت تیزی سے مکمل ہوتے ہیں بلکہ انتہائی سستے بھی ہوسکتے ہیں۔

اب صرف کمپنیاں ہی نہیں بلکہ حکومتیں بھی اس رحجان کو اپنانے کا سوچ رہی ہیں تاکہ اپنی عوام کو سستے گھر فراہم کرسکیں۔ ایک خبر کے مطابق 2030ء تک صرف متحدہ عرب امارات میں دبئی کی 25فیصد عمارتیں تھری ڈی پرنٹنگ والی ہوں گی۔ 

تازہ ترین