• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرسبز و شاداب وادیوں، نیلے پانیوں، برف پوش چوٹیوں اور جھیلوں سے گِھری سرزمینِ کشمیر (مقبوضہ) کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے ،جتنی اس زمین کے چپّے چپّے پر بکھرے فطرت کے نقوش۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس خُوب صُورت وادی میں کتنی قدیم تہذیبوں نے جنم لیا اور تاریخ گم گشتہ کا حصہ بن گئیں، لیکن جب سے یہ خطّہ تاریخ کی نگاہوں کا مرکز بنا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس سے منسوب ولولہ انگیز داستانوں، پراسرار کہانیوں اور حرارت آمیز مہمّات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس کے ورق ورق پر ثبت ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ وسیع تر وادی وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے علاقوں پر محیط ہے، لیکن دَورِ حاضر میں عمومی طور پر یہ وادی ان علاقوں پر محیط تسلیم کی جاتی ہے ،جن میں بھارت کے زیرِ انتظام مقبوضہ جمّوں و کشمیر اور لدّاخ شامل ہیں۔ صدیوں پہلے یہ علاقہ ہندو ازم کا مرکز تھا۔ بعد ازاں بودھ مت کا گہوارہ بن گیا۔ پھر نویں صدی میں شیوازم حاوی ہو گیا، لیکن جب تیرہویں اور پندرہویں صدی میں یہاں اسلام پھیلا ،تو دوسرے مذاہب ماند پڑ گئے۔ آج بھی کئی مسلمان اولیائے کرام کے مزارات مرجعٔ خلائق ہیں۔

شاہ میر کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران تھا، جس نے 1339ء میں عنانِ اقتدار سنبھالی۔ اس کے بعد آئندہ پانچ سو برسوں تک مسلمانوں کی حکمرانی رہی،جن میں مغل حکمران بھی شامل ہیں ۔جن کا دَورِ اقتدار 1586ء سے 1751ء تک تھا ،پھر افغان درّانی کی حکومت 1819ءتک رہی۔ اسی سال سکھوں نے پنجاب میں رنجیت سنگھ کے دَورِ حکومت میں کشمیر پر قبضہ کر لیا، لیکن 1846 ءمیں جب سکھوں کو برطانیہ کے ہاتھوں شکست ہوئی ،تو معاہدۂ امرتسر کے تحت جمّوں کا راجہ گلاب سنگھ کشمیر کا نیا حکمران بن گیا۔ 1947ء میں یہ وادی اس وقت متنازع بن گئی، جب کشمیریوں کی خواہش کے برعکس اسے بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ کشمیریوں کی خواہشات کے برخلاف یہ اقدام حصولِ آزادی کی وہ چِنگاری ثابت ہوا، جس کی شعلہ انگیزیوں نے اب پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

ابتدامیں تاریخِ کشمیر کے جن چیدہ چیدہ اوراق کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے، اگر آپ اس کی تہہ میں جائیں تو اس وادی میں ہر دَور میں کشمیریوں کی ہر سانس میں حصولِ آزادی کی تڑپ نظر آتی ہے۔ چاہے وہ برطانوی حکومت ہو یا ڈوگرہ دَور ،ہندو ازم ہو یا کسی بھی غیر مُلکی حکمران کا دَور،کشمیریوں نے ہمیشہ خود مختار اور آزادانہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ وادیٔ کشمیر میں فطرت نے جو رنگینیاں، سربہ فلک پہاڑ ،کھلا آسمان اور حدود و قیود سے ماورا فضائیں بکھیری ہیں، ان کا اثر ان کے خون میں بھی رچ بس گیا ہے۔ آزادی کی یہ تڑپ ہر طبقے میں نظر آتی ہے۔

کشمیری ادب پر ایک نظر ڈالیں تو لاتعداد شاعر ، ادیب اور فن کار آزادی کے گیت گاتے اور داستانیں سناتے نظر آتے ہیں،لیکن زیرِ نظر مضمون میں ہم علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی کشمیر سے وابستگی اور اس حوالے سے ان کے کلام کا ذکر کر رہے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفکّرِ پاکستان کو اس خطّے سے کس قدر لگائو تھا اور وہ آزادی کے حوالے سے کشمیریوں کے جذبات کی کتنی قدر کرتے تھے۔انہیں کشمیر سے قلبی لگائو تھااوروہ خود بھی کشمیری الاصل تھے۔ انہوں نے اپنے کلام اور مکتوبات میں جا بجا کشمیر کا تذکرہ کیا ہے۔ علّامہ اقبال نے اپنے انتقال( 1938ء )سے پہلے کہہ دیا تھا کہ اہلِ کشمیر کی محکومیت زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتی، اس کی وادیوں سے انقلاب کی تحریک ضرور اُبھرے گی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کے رکھ دے گی ۔

انہوں نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا، ’’میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عن قریب پلٹا کھانے والی ہے‘‘۔ لیکن انہوں 1932ء میں منعقدہ مسلم کانفرنس کے خطبۂ صدارت میں جو کچھ کہا ،وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے ’’کشمیر کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں کہ مَیں واقعات کے اس پس منظر کو بھی بیان کروں، جو اس مُلک میں حال ہی میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ایسی قوم کا بظاہر اچانک قیام ،جس کا شرارِ خودی تقریباً مُردہ ہو چکا تھا، باوجود ان مصائب کے جو اس قیام کا لازمی نتیجہ ہیں ہر اس شخص کے لیےمسرّت کا باعث ہے، جس کی نگاہ عصرِ حاضر کی ایشیائی تحریکات ِآزادی کے محرّکات پر ہے۔

اہالیانِ کشمیر کا مطالبہ بالکل حق بجانب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی ہونہار اور ہنر مند قوم کا اپنے تشخّص میں اعتماد کا از سرِ نو احیاء ،آخر کار نہ صرف خود ان کے لیے، بلکہ ہندوستان بھر کے لیے تقویت کا باعث ہو گا۔ سب سے زیادہ قابلِ مذمّت فرقہ وارانہ منافرت ہے، جو اس وقت ہندوستان میں عام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی اہلِ کشمیر سے قدرتی دل چسپی سے ہندوئوں نے جوابی تحریک شروع کر دی ہے، جس کا مقصد از راہِ یاس یہ ہے کہ پان اسلام ازم اور برطانوی تسلّط کے ہوّے کھڑے کر کے کشمیر کی بربری حکومت کو بچایا جائے‘‘۔

مظلومیت کی داستان:

جاوید نامہ میں علّامہ اقبال نے جو کچھ کہا اور جس طرح سے مظلومیت کی داستان بیان کی ،اسے بھی تاریخ کے اوراق نے محفوظ کر لیا ہے۔ وہ شاہ ہمدان سے ملاقات کے وقت بزبانِ فارسی کہتے ہیں:

؎زیر گردوں آدم آوم راخورد…ملتے بر ملتے دیگر چرو۔2۔جاں زاہل خطہ سوزد چوں سپند…خیزداز دل نالہ ہائے درد مند۔3۔زیرک و دراک و خوش گل ملتے است… درجہاں تردستی او آیتے است۔4۔ساغرش غلطندہ اندر خون اوست…در نے من نالہ از مضمون اوست۔5۔از خودی تا، بےنصیب افتادہ است…در دیار خود غریب افتادہ است۔6۔ دست مزد او بدست دیگراں…ماہی رودش بہ شست دیگراں۔7۔ کاروانہا سوئے منزل گام گام…کار اونا خوب و بےاندام و خام۔8۔ از غلامی جذبہ ہائے او بمرد…آتشے اندر رگ تاکش فسرد۔9۔تانہ پنداری کہ بودست ایں چنیں…جبہہ را ہموارہ سود است ا یں چنیں۔10۔در مانے صف شکن ہم بودہ است…چیرہ و جانبازو پردم بودہ اس۔12۔کوہ ہائے خنگ سارے اونگر… آتشیں دست چنارے اونگر۔13۔در بہاراں لعل می رزیزوزسنگ… خیزد از خاکش یکے طوفان رنگ۔14۔لکہ ہائے ابر در کوہ ودمن…پنبہ پراں از کمان پنبہ زن۔15۔کوہ و دریاو غروب آفتاب…من خدارا دیدم انجابے حجاب۔

اردو زبان میں ماہرینِ اقبالیات نے اس کا خُوب صُورت ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے: 1۔آسمان کے نیچے(اس دنیا میں) آدمی کو کھارہا ہے اور ایک قوم دوسری قوم کو لوٹ رہی ہے۔2۔میری جان ، خطّۂ کشمیر کے لوگوں کے حالات دیکھ کر سپندر(حرمل) کے دانے کی طرح چٹخ(تڑپ) رہی ہے اور میرے دل سے درد بھرے نالے اُٹھتے ہیں۔3۔کشمیری قوم ایک باریک بیں، بہت سوجھ بوجھ والی دانش مند اور خُوش شکل ہے۔ دنیا میں اس کی ہنر مندی ایک دلیل (مثال) ہے۔4۔اس کا پیالہ اس کے اپنے خون میں لت پت(ڈوبا ہوا ) ہے ۔ میری بانسری سے اسی کے حالات کی فریاد نکل رہی ہے۔5۔جب سے یہ قوم خودی سے بےنصیب ہوگئی ہے ،وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کے رہ گئی ہے۔6۔اس کے ہاتھوں کی مزدوری /کمائی دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے دریا کی مچھلی دوسروں کے کانٹے میں پھنسی ہوئی ہے۔7۔دوسری قوموں کے قافلے (ترقّی کی) منزل کی طرف قدم بہ قدم چلے جارہے ہیں، لیکن اس(بدقسمت قوم) کا کام ناخوب بھی ہے اور اَن گھڑت اور ناقصد بھی۔8۔غلامی سے اس کے جذبے ختم ہوگئے ہیں اور اس کی تاک (انگورکی رگ)کے اندر کی آگ بجھ گئی ہے۔(شراب خشک ہوگئی ہے)9۔تُوکہیں یہ نہ سمجھ کہ یہ قوم ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے اور اسی طرح اس نے ہمیشہ دوسروں کے آگے اپنی پیشانی رگڑی ہے۔10۔وہ کبھی صف شکن بھی رہی ہے اور زبردست(غالب) جاں با زاور حوصلہ مندرہی ہے۔11۔اس(کشمیر) کے برف پوش پہاڑ دیکھ اور یہاں کے درخت چنار کے آتشیں ہاتھ، یعنی پتّے دیکھ(چنار کے پتے سُرخ ہوتے ہیں جنہیں آگ کی طرح کا کہا گیا ہے)۔12۔موسم ِبہار میں یہاں کے پتّھروں سے لعل اُگتے ہیں(لالہ کے سُرخ رنگ کے پھول) یہاں کی مٹّی سے رنگ کا ایک طوفان اُٹھتا ہے(جگہ جگہ رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں)۔13۔ پہاڑ اور وادی میں بادلوں کے ٹکڑے اس طرح اُڑتے پھرتے ہیں ، جیسے روئی دُھنیے کی کمان سے دُھنکی ہوئی روئی اڑتی ہے(یہ منظر بھی بڑا دل کش اور دل فریب ہوتا ہے)۔14۔وہاں کے پہاڑ، دریا اور سورج کا وقت ِغروب اتنا خُوب صُورت منظر پیش کرتے ہیں کہ مَیں نے وہاں خدا کو بےحجاب دیکھا ہے(اللہ تعالیٰ کا جمال بےنقاب نظر آتا ہے۔)اس مقام پر غنی کاشمیری (مغل دَور میں فارسی زبان کے معروف شاعر)کی روح اقبال سے کہتی ہے۔

؎مرغکے می گفت اندر شاخسار…باپشیزے می نیرزد ایں بہار۔2۔لالہ رست و نرگس شہلا ومید…باد نو روزی گریبانش درید۔3۔ با بالید ازیں کوہ و کمر…نستر از نور قمر پاکیزہ تر۔4۔عمر باگل رخت بربست و کشاد…خاو ما دیگر شہباب الدین نزاد۔

ترجمہ 1: ۔ وہاں شاخوں میں بیٹھے ایک پرندے نے مجھ سے کہا کہ اس انمول بہار کی قیمت تو ایک کوڑی کے برابر بھی نہیں ہے۔2۔لالہ کے پھول اُگے اور نرگس شہلا(اعلیٰ قسم کا سیاہ چشم نرگس کا پھول) پھوٹی۔ بادِ بہار نے اس سرزمین کا گریبان پھاڑ دیا ہے۔ مطلب یہ کہ موسمِ بہار کی ہوا سے لالہ و نرگس شہلا اور کئی پھول کِھل اٹھے۔3۔اس کے پہاڑوں اور ان کے درمیانی راستوں میں مدّتوں سے چنبیلی کے ایسے پھول کِھل رہے ہیں ، جو چاند کی روشنی سے زیادہ پاکیزہ، زیادہ چمک دار اور سفید تھے۔4۔اس(وادی کشمیر) میں مدّتوں گلاب کے پھول کِھلتے اور مُرجھا تے رہے ،لیکن ہماری سرزمین سے کوئی اور شہاب الدّین پیدا نہ ہوا۔

دوسرے مقام پر لکھتے ہیں؎آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر…کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر…سینہ افلاک سے اُٹھتی ہے آہ ِسوزِ ناک…مرد ِحق ہوتا ہے ،جب مرعوب ِ سلطان و امیر…کہہ رہا ہے داستاں بےدردی ایام کی…کوہ کے دامن میں وہ غمِ خانہ دہقان پیر…آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ…ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر۔اس قوم کے ساتھ کیا ہوا؟بقول اقبال؎ 1۔بادِ صبا اگر یہ جنیوا گزر کنی…حرفے زمابمجلس اقوام بازگو۔2۔ دہقان و کشت و جو یے و خیاباں فروختند…قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔

ترجمہ 1: ۔ اے بادِ صبا! اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو ،تو وہاں ہماری طرف سے مجلسِ ا قوام سے ہماری یہ بات کہنا۔ (علّامہ نے لیگ آف نیشنز کو’’پیام ِمشرق‘‘ میں چند کفن چوروں کی مجلس‘‘ کہا ہے کہ یہ بظاہر تو قوموں کو انصاف دینے کے لیےقائم ہوئی تھی، لیکن عملاً اس کے ذریعے کمزور قوموں کو مزید کمزور کرنے اور طاقت وَر قوموں کو مزید طاقت وَر بنانے کا یہ ایک ذریعہ تھا)۔2۔کسان ، کھیت ، ندیاں اور کیاریاں انہوں نے بیچ دیں۔ انہوں نے ایک قوم کو بیچ دیا اور کس قدر سستا بیچ دیا۔(انگریز حکمرانوںنے اپنے لالچ اور مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لیےکشمیر کو ایک ہندو ڈوگرہ کے ہاتھ معمولی قیمت پر بیچ دیا تھا۔)

آثار ِحیات:لیکن اقبال کو اس(بظاہر)مُردہ قوم میں زندگی کے آثار نمایاں طور پر دکھائی دیتے تھے، چناں چہ وہ کہتے ہیں۔؎گرم ہوجاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو…تھر تھراتا ہے جہان چار سُو رنگ و بو…پاک ہوتا ہے ظن و تخمین سے انساں کا ضمیر…کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغِ آرزو…وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں…عشق سیتا ہے انہیں بےسوزن و تار فو…ضربت پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش…حاکمیت کا بُت سنگیں دل و آئینہ رد۔

…٭…٭…٭…٭…

؎دراج کی پرواز میں ہے شوکت شاہیں…حیرت میں ہے صیاد یہ شاہیں ہے کہ دراج…ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم… مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج…فطرت کے تقاضوں سے ہوا پہ حشر مجبور…وہ مردہ کہ تھا بانگ سرافیل کا محتاج۔

…٭…٭…٭…٭…

؎جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار…ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ِارجمند۔

…٭…٭…٭…٭…

؎نصیب خطّہ ہو یارب وہ بندہ درویش…کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ…چُھپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک…گہر ہیں آب ولر کے تمام یک دانہ۔

…٭…٭…٭…٭…

؎دُگرگوں جہاں ان کے زورِ عمل سے…بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے…منجم کی تقویم فردا ہے باطل…گرے آسماں سے پرانے ستارے…ضمیر جہاں اس قدر آتشیں ہے…کہ دریا کہ موجود سے ٹوٹے ستارے…زمیں کو فراغت نہیں زلزلوں سے… نمایاں ہیں فطرت کے باریک اشارے…ہمالہ کے چشمے اُبلتے ہیں کب تک…خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے۔

وہ جاوید نامہ میں، غنی کاشمیری کی زبان سے ، اس انقلاب کے امکان کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں(اردو ترجمہ)

1۔کیا تجھے کچھ علم ہے کہ ایک روز ولر جھیل میں ایک موج نے دوسری موج سے (کیا) کہا؟۔ 2۔ہم کب تک اس سمندر(جھیل) میں ایک دوسری سے ٹکراتی رہیں گی، تُو اٹھ تاکہ ہم کچھ دیر ساحل سے سرٹکرائیں۔3۔ہماری پیدا کی ہوئی وہ پرانی ندی، جس کا شور وادی پہاڑ اور دمن میں ہے۔4۔وہ ہر لمحہ خود کو راستے کے پتھروں سے ٹکراتی ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کی بنیاد تک کو کھود دیتی ہے۔(پہاڑ کے اندر سے بھی راستہ بنالیتی ہے۔)5۔وہ جوان دریا ،جس نے شہر و بیابان اور وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس کی پرورش سورمائوں کے دودھ سے ہوئی ہے۔6۔اس کا دبدبہ انسان کے لیے ایک قیامت کی حیثیت رکھتا ہے۔(جب اس میں سیلاب آتا ہے، تو وہ بڑی تباہی مچاتا ہے) یہ ہمارے اندر سے نکلا ہے کسی اور جگہ سے تو نہیں نکلا۔ تو یہ سب کچھ کشمیرہی کی بدولت ہے(گویا کشمیر نہ ہوتا ،تو جہلم بھی نہ ہوتا۔)7۔ساحل کی حدود میں زندگی بسر کرنا غلطی ہے۔ ہمارا ساحل ہمارے راستے کا پتھر بنا ہوا ہے۔8۔ساحل سے موافقت کرلینا(کناروں کے اندر رہنا) ہمیشہ کی موت ہے، خواہ اے موج تو سمندر میں صبح و شام کیوں نہ لڑھکتی رہے، طوفان ہی کیوں نہ برپا کرتی رہے۔9۔زندگی تو کو ہ ودشت میں اپنی جولانیاں دکھانا ہے۔ مبارک ہے وہ موج جو ساحل سے باہر نکل گئی۔

اس کے بعد غنی واضح تر الفاظ میں کہتا ہے۔؎1۔دل میان سینہ شاں مردہ نیست…اخگر شاں زیربخ افسردہ نیست!2 ۔باش تابینی کہ بےآواز صور…ملتے برخیز از خاک قبور!

ترجمہ1 : ۔ ان(اہلِ کشمیر) کے سینوں میں مُردہ دل نہیں ہیں۔ ان کا شعلہ (انگارہ) برف کے نیچے دب کر نہیں بجھا۔2۔ذرا ٹھہرتا ،تاکہ تُو دیکھے کہ ایک ملّت(اہلِ کشمیر) صور کی آواز کے بغیر ہی قبروں کی مٹی سے اُٹھنے والی ہے۔(وہ وقت قریب ہے، جب اہل کشمیر غلامی سے نجات پالیں گے)۔

تازہ ترین