• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اسلام

 وطن عزیز میں لوگ کھانے پر بہت زور دیتے ہیں خواہ وہ قومی خزانہ ہی کیوں نہ ہو یا جنگلات ، سب کھا جاتے ہیں۔ ایک غیر ضروری سروے کے مطابق ہمارا شمار جنگلات کھانے والی قوموں میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ جنگلات کھا جائیں وہ دو نمبر ہی ہو سکتے ہیں۔ 

آپ چاہیں تو پاکستان کے جغرافیے پر نظر ڈال کر دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ملک میں جنگلات اتنے ہی کم ہو گئے ہیں جتنا بلڈ پریشر کے مریض کے کھانے میں نمک کم ہوتا ہے۔ ہم جنگلات اور مریض نمک کی کمی پر شور شرابہ کرتے رہتے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی۔

حکیم شرارتی کا خیال ہے کہ عصر حاضر میں سچی محبت اس لئے ناپید ہو گئی ہے کہ ہم نے جنگلات کا صفایا کر دیا ہے۔ وہ ثبوت کے طور پر شعر بھی پیش کرتے ہیں۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

اب جنگل ہی نہیں تو لیلیٰ مجنوں کی سچی محبت کہاں سے لائیں؟ ۔ہم نے حکیم شرارتی سے اختلاف کیا تو انہوں نے ایک اور شعری ثبوت پیش کردیا۔

ہم تم ہوں گے، بادل ہوگا

رقص میں سارا جنگل ہوگا

اب جنگل کاٹ دیئے گئے لہٰذا وہ رقص کیسے کریں اور ہم تم وہاں کیا کرنے جائیں ؟۔

جنگلات اور درختوں کی کمی نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ موسمی تبدیلیاں بھی ہمیں ہلا جلا رہی ہیں اور ہمیں ہوش بھی جب آتا ہے تب ہم ہلنے جلنے لگتے ہیں۔ پھر افراتفری میں کام شروع کر دیتے ہیں ۔اب ہمارے وزیر اعظم نے شجرکاری کا عزم کر لیا ہے اور ملک بھر میں دس ارب پودے لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ 

حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں شجرکاری مہم اتنی بار چل چکی ہے جتنی بار سادگی اور بچت کی مہمات چلی ہیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات، پس ثابت ہوا کہ شجرکاری مہم کو موثر اور پرکشش بنانے کیلئے کچھ نئے انداز اختیار کئے جانے چاہیں، مثلاً ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہم شجرکاری مہم میں فلمی اداکارائوں ،ماڈل اور فیس بک کی مقبول شاعرات کو مدعو کریں اور اس شجرکاری مہم کی افتتاحی تقریب کا دعوت نامہ بھی پمفلٹ کی طرح تقسیم کردیں۔ 

یقیناً دعوت نامے پر لکھا ہو گا کہ ’’شجرکاری مہم کا افتتاح ،منگل 12نومبر بدست مبارک ،اداکارہ صبا قمر یا پھر بدست مبارک نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ ناز احمد۔ ‘‘ مجھے قوی امید ہے کہ اس طرح ہزاروں لوگ اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ پھر ہر اداکارو ماڈل اور شاعرہ اپنے اپنے نام کا درخت بھی لگائے۔ اگر ایسا ہواتو آنے والے وقت میں جب لوگ درختوں کو دیکھیںگے تو کچھ یوں تبصرہ کریں گے۔ مہوش حیات کا پودا ہرا بھرا لگ رہا ہے۔ ریما کا پودا کہاں منتقل ہو گیا ،میرا کا درخت بڑا ہو گیا ہے۔ مسرت شاہین درخت 70برس پرانا ہو گیا ہے اور دیکھئے یہ بابرا شریف کا پودا مرجھاگیا ہے۔

لوگوں کو آپ یہ بات بتا کر بھی شجرکاری مہم کو فروغ دے سکتے ہیں، کہ جناب مکاری، ریا کاری، خواری اور بے کاری سے شجرکاری بہتر ہے اور کوئی فارغ دکھائی نہ دے تو آپ اس سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ حیرت ہے تجھ کو درخت لگانے کی فرصت نہیں ۔‘‘

اس ضمن میں ،میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ نے ایک گانا سنا ہو گا کہ ’’کبھی میں سوچتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کہ کیوں نہ چپ رہوں’‘ لیکن اس کےبرعکس میں کبھی بھی نہیں بلکہ اکثر سوچتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ کہوں اور چپ بھی نہ رہوں۔ پھر یہ سوال ہر شخص سے کروں کہ بھیا ، تم درخت کیوں نہیں لگاتے ؟ مجھے قومی امید ہے میرا سوال بھی نواز شریف کے سوال ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی طرح مشہور ہو جائے گا۔

مجھے یقین ہے کہ ان اقدامات سے ماحول بدلے گا، اگر آپ کسی کے گھر جائیں گے اور اپنا نام بتائیں گے تو اندر سے جواب آئے گا، پھر آنا، مجھے شجرکاری مہم پر جانا ہے اور اگر آپ کسی سرکاری دفتر تشریف لے جائیں گے تو پھر یہ جواب سننے کو نہیں ملےگا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں بلکہ یہ بتایا جائے گا کہ صاحب شجر کاری مہم پر گئے ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بڑے سرکاری افسر ہیں، وہ شجرکاری مہم کے دوران ہر سال پودے لگاتے ہیں۔ ہم ان سے ملے، ہم نے شجر سے ان کی محبت پر انہیں داد دی۔ 

جواباً انہوں نے زبردست قہقہ لگایا اور گویا ہوئےکہ بھائی پودا تو میں تصویر بنوانے کے لئے لگاتا ہوں۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف ہمارے ایک شناسا کو پودے لگانے کا بہت شوق ہے۔وہ اپنے ایک ملازم کو ساتھ لیتے ہیں اور اسے ایک پودا لگانے کے لئے دیتے ہیں۔ جب وہ پودا لگا لیتا ہے تو اسے دوسرا پودا کر کہتے ہیں، ’’ڈو مور‘‘ ایک دن پودے لگانے اور ڈومور کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ اچانک حکیم شرارتی بھی وہاں آ دھمکے اور گویا ہوئے کہ اگر زندگی کے ہر شعبے میں مثبت اقدامات کے لئے ایسے ہی ڈومور کیا جائے تو اس ملک کے مسائل جلد حل ہو سکتے ہیں۔ پھر مجھ سے اصرار کیا ،آپ بھی ڈومور کیجئے، مجھے بھی مجبوراً کہنا پڑا ’’ڈو مور‘‘

دیکھئے شجرکاری مہم کے دوران پودے لگا دیئے جاتے ہیں مگر ان کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ حالانکہ شجرکاری کے ساتھ اس کی آبیاری اور پھر درخت سے یاری تک کئی مراحل ہوتے ہیں لیکن ہم پودے لگا کر ایسے رفو چکر ہو جاتے ہیں جیسے ہمارےبعض سیاست دان لندن میں قیام پذیر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ان پودوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حکیم صاحب شرارتی نے اس ضمن میں تجویز دی ہے کہ پودوں اور درختوں کی حفاظت کے لئے رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں۔ 

مناسب یہی ہو گا کہ پودوں اور اپنے سامان کی حفاظت آپ خود کریں۔ اگر آپ حفاظت کریں گے تب یہ بڑے ہوں گے۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو درخت اور بچے جب بھی بڑے ہونے لگتے ہیں تو ہمارے لئے باعث مسرت ہوتے ہیں۔ کیونکہ درختوں سے پیار کرنےوالے اپنی اولاد اور درختوں کی پرورش پر یکساں توجہ دیتے ہیں۔ پہلے ہر گھر کے صحن میں ایک درخت ضرور ہوتا تھا ،اب گھروں میں صحن ہی نہیں ہوتا۔آپ گملوں میں پودے لگا کر ان کی پرورش کر سکتے ہیں۔

ایک شاعر نے کہا تھا کہ انہیں دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے مگر آپ یقین جانئے اگر آپ پودوں اور درختوں سے باتیں کریں گے تو تب بھی آپ کواچھا لگے گا ،پودا اپنے پتوں کی مدد سے آپ کے سوالوں کا جواب دے گا، اپنی ترو تازگی سے اپنی مسرت کا اظہار کرے گا۔ پھر آپ یہ نہیں گنگنائیں گے کہ دیواریں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہےبلکہ آپ گنگنائیں گے کہ پودوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے ۔آپ کا دل چاہے تو دن بھر ان سے باتیں کیجئے،مگر رات کو مت کیجئے کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہےکہ رات کو پودے سو جاتے ہیں ، جس طرح ہر شریف آدمی جلد سو جاتا ہے۔

جو لوگ پودے نہیں لگاتے اور بریانی شوق سے کھاتے ہیں، ان سے حکیم شرارتی نے سوال کیا ہے کہ اگر پودے ،درخت اور فصلیں نہ لگیں تو چاول کی کاشت کیسے ہو گی اور جب چاول دستیاب نہیں ہوں گے تو بریانی کیسے پکے گی ،بچو؟اب اگر بریانی کھانی ہے تو چلو اٹھو چاول کے پودے لگائو ۔ وطن عزیز میں یہ چلن ہے کہ ٹریفک قوانین، صاف پانی، حفظان صحت کے اصول اور ادب وغیرہ پر زور دیا جاتا ہے تو یہ مشورہ بھی ساتھ ہی دے دیا جاتا ہے کہ اسے نصاب میں شامل کیا جائے۔ لہٰذا یہ مطالبہ تو بنتا ہے نا کہ شجرکاری کو نصاب میں شامل کیا جائے۔

مذکورہ سطور میں ہم نے جنگلات کاٹنے کا ذکر کیا تھا لیکن صورتحال یہ ہے کہ لوگوں نے گلی،محلوں اور شاہراہوں پر لگے درخت بھی بے رحمی سے کاٹ دیئے ہیں، یقیناً یہ شجر دشمن لوگ ہیں، بقول خالد معین ،

اسی کے سائے میں بیٹھا اس کا دوست نہیں

درخت کاٹنے والا کسی کا دوست نہیں

بلا شبہ شجرکاری اور شجر دشمن ایک نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا شجرکاٹنے کو قومی جرم اور کاٹنے والے کو کم از کم گنجا کرنے کی سزا دی جائے۔ درختوں کی کمی اور گنجوں کی بہتات سے ہمارے سماجی مزاج میں نئی تبدیلیاں پیدا ہونے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ 

گنجے کو دیکھ کر دور سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ شجر دشمن ہے۔ حکیم شرارتی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ جو لوگ سر پر بال لگواتے ہیں انہیں ایک درخت بھی لگانا چاہئے بلکہ عوامی اجتماعات میں یہ نعرہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے درخت پھر بال،تصویر کیجئے کیا غضب کا منظر ہو گا ،جب بال اور پودے ساتھ ساتھ اُگنا شروع ہوں گے۔

تازہ ترین