• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک بار پھر ڈینگی بخار نے سراُٹھا لیا ہے، ملک بھر میں اب تک ڈینگی کے ہزاروں کیس سامنے آچکے ہیں۔ پنجاب میں4500افراد (جن میں سے چند کی موت بھی واقع ہوچکی ہے) جبکہ صرف کراچی میں متاثرہ افراد کی تعداد 2ہزار سے زائد ہوگئی ہے، جن میں سے8افراد موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ڈینگی پر قابو پانے کیلئے ملک بھر کے لوگوں کا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے، جن کے متعلق اس مضمون میں آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔

ڈینگی بخار کیوں ہوتا ہے ؟

ڈینگی بخار بظاہر ایک معمولی سی بیماری ہے، جو چند ہی روز میں خطرناک صورتحال اختیار کرلیتی ہے اور موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ڈینگی کا نشانہ عام طور پر ایسے افراد زیادہ بنتے ہیں جن کی قوت مدافعت کمزور ہو۔ ڈینگی ایک مخصوص مادہ مچھر ایڈیس ایجپٹائی (Aedes Aegypti)کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ یہ مچھر عام طور پر رنگین ہوتا ہے، اس کا جسم زیبرے کی طرح دھاری دار جبکہ ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔

ابتدائی اور شدید علامات

ڈینگی بخار کی چار اقسام ہیں، لیکن مریض میں چاروں اقسام میں سے ایک ہی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے ظاہر ہوتے ہی فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا مرض کی شدت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈینگی کی ا بتدائی علامات میں تیزبخار، جسم میں شدید درد اور کمزوری کا احساس،ٹانگوں اور جوڑوں میں درد، سر درد، منہ کا ذائقہ تبدیل ہونا، چہرے کا رنگ سرخ پڑجانا یا پھر جسم کے بعض اعضا کا گلابی پڑجانا اور سردی لگنا شامل ہیں۔

اس میں مریض کے جوڑوں اور پٹھوں کا درد اتنی شدت اختیار کرلیتا ہے کہ اسے اپنی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، اسی لیے اس کو’بریک بون فیور ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔عمومی طور پر ایک شخص میں پلیٹلیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ فی مائیکرولیٹربلڈ ہوتی ہے۔ موسمی بخار میں یہ کم ہوکر نوے ہزار سے ایک لاکھ ہوسکتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی صورت میں پلیٹلیٹس کافی زیادہ کم ہوکر تقریباً 20ہزار یا اس سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔

ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص

ڈینگی بخار پر قابو پانے کے لیے جلد از جلد مرض کی تشخیص ہونا ضروری ہے۔مرض کی تشخیص کے لیے طبی ماہرین مختلف ٹیسٹ کرواتے ہیں۔

٭علامات ظاہر ہونے کے بعد ڈینگی وائرس کی تصدیق کے لیے مالیکیولر ٹیسٹ (PCR) ٹیسٹ کروایا جاتا ہے، جس میں اس بات کا بھی پتہ لگایا جاتا ہے کہ کس قسم کا ڈینگی وائرس انفیکشن کی وجہ بنا ہے۔

٭اینٹی باڈی ٹیسٹ IgMاور IgG کے ذریعے متاثرہ شخص کے مدافعتی نظام سے خارج ہونے والی اینٹی باڈیز سےڈینگی کی تشخیص کی جاتی ہے۔

٭کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ(CBC)سے متاثرہ شخص میں پلیٹلیٹس کی تعداد کا پتہ لگایا جاتا ہے، کیونکہ ڈینگی سے متاثرہ شخص میں فوری طور پر پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے مریض میں ہیموگلوبن،  Hematocrit اور ریڈ بلڈ سیلز (RBC)کی مقدار کا بھی پتہ لگایا جاتاہے۔

٭ بیسک میٹابولک پینل(BMP) ٹیسٹ کے ذریعے مریض کے گردوں کی حالت کا پتہ چلایا جاتا ہے کہ آیا گردے ٹھیک کام کررہے ہیں یا نہیں۔

احتیاطی تدابیر

عالمی ادارہ صحت(WHO) کے مطابق ڈینگی سے ہونے والی اموات دنیا بھر میں ہونے والی اموات کا4فیصد ہیں اور احتیاط کے ذریعے ہی اس مرض سے بچنا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

٭ڈینگی کے مچھر صاف پانی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ نمودار ہوتے ہیں، لہٰذا گھر میں کھانے پینے کی تمام اشیا حتٰی کے گھروں میں موجود پینے کے پانی کے برتن بھی ڈھانپ کر رکھے جائیں۔

٭ ڈینگی مچھر کے حملے سے بچنے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ اس کی افزائش نسل کو روکا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ گھر وں میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ آس پاس موجود گڑھوں کو مکمل طور پر پاٹ دیا جائے تاکہ ان میں پانی جمع نہ ہو۔

٭ گھروں میں استعمال ہونے والی ٹنکیوں کو اچھی طرح صاف کیا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پانی اسٹور کرنے والے برتن صبح و شام صاف کیے جائیں۔ اس کے علاوہ گملوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں اور پودوں پر مچھر مار ادویات کا اسپرے تواتر سے کرتے رہیں۔

٭گھر میں ہرمل اور گوگل کی دھونی دینے سے ہر قسم کے کیڑے مکوڑے ، مچھر، لال بیگ اور چھپکلی وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر ہرمل کا سبز پودا کمرے میں رکھا جائے تو پھر مچھر کمرے میں داخل نہیں ہوتے۔

٭اگر جسم کے کھلے حصوں پر کڑوا تیل (تارامیرا کا تیل) لگایا جائے تو مچھر کاٹنے سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جسم کے کھلے حصوں پرلوشن وغیرہ لگانا بھی ٹھیک رہتا ہے۔

٭ طبی ماہرین ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے لیے صبح وشام پپیتے کے پتوں کا جوس پینا بے حد مفید قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیم گرم پانی میں شہد ملا کر دن میں تین بار پینے سے بھی ڈینگی بخار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین