• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:۔ کئی سالوں سے آپ کے فتوے دیکھ رہا ہوں جس میں کریڈٹ کارڈ کے حوالے سے ناجائز ہونے کے اشارے پائے جاتے ہیں، لیکن عصر حاضر میں اکثر ایسی ضرورتیں ہیں جو کہ کریڈٹ کارڈ کے بغیر ممکن نہیں اور واضح ہدایات موجود ہیں کہ اس کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے کی جائے اور بالخصوص ملک سے باہر تو اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ میں خود کئی سالوں سے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتا ہوں، لیکن غلطی سے کبھی مجھ پر سود لاگو نہیں ہوا، اس صورت میں اس کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ (عبد الغفار ،جرمنی)

جواب:۔ آپ نے درست نتیجہ اخذ کیا ہے، لیکن میں نے اشاروں کنایوں میں نہیں، بلکہ صاف اور واضح لفظوں میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال کو ناجائز کہا ہے۔اس کی وجہ کریڈٹ کارڈ کا معاہدہ ہے جس میں دونوں فریق اس پراتفاق کرلیتے ہیں کہ اگرصارف نےبروقت ادائیگی نہ کی تواس سے مقررہ مقدارمیں سودوصول کیاجائے گا۔

اس امکانی صورت پر رضامندی کی وجہ سے معاہدہ فاسد ہوجاتا ہے اور فریقین گناہ گار ہوجاتے ہیں، کیونکہ گناہ پر رضامندی بھی گناہ ہے۔آپ کو اگرچہ کبھی سود اداکرنے کی نوبت نہیں آئی، مگر بہت سوں کو چاروناچار ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

پاکستان کی حدتک فی الحال صورت حال ایسی نہیں ہے کہ انسان کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر مجبور ہو،اس لیے یہاں اجازت نہیں دی جاسکتی، البتہ جہاں مجبوری ہے، وہاں گنجائش ہوگی اورمجبوری کامطلب یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر کوئی بنیادی ضرورت موقوف ہو اوراس کے علاوہ کوئی اورمتبادل نہ ہو۔( تفسير القرطبی 10/ 419۔ الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات، دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکوٰۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

تازہ ترین