• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرخ سیارے مریخ پر انسانی آبادی قائم کرنے کا رومانس تب سے چل رہا ہے، جب سے معروف امریکی سائنس فکشن ناول نگار ایچ جی ویلز نے مریخ کی خلائی مخلوق کے زمین پر حملے کی داستان سے اہل زمین کو نہ صرف خوف میں مبتلا کیا بلکہ قدیم یونان کے جنگی دیوتا کے نام پر موسوم اس سیارے پر زندگی کے امکانات تلاش کرنے کی تحقیق بھی شروع کی گئی۔ یہ تہیہ کرلیا گیا کہ کرۂ ارض ماحولیاتی آلودگی کے باعث رہائش کے قابل نہیں رہا تو اہل نظر تازہ بستیاں آباد کریں گے۔

مریخ پر انسان تاحال اپنے قدم نہیں رکھ پایا، تاہم مریخ پر 3Dپرنٹڈ ہومز بنانے شروع کردیئے گئےہیں جن میں آکسیجن، پانی، خوراک سمیت وہ تمام اجزا دستیاب ہوں گے جو جینے کی ضمانت ہیں۔ مریخ پر موجود اجزا سے بنائے جانے والے گھر کے ایک مقابلے میں60سے زائد کمپنیوں نے حصہ لیا۔ نیویارک سٹی میں واقع پلینٹری آرکیٹیکچرل اینڈ ٹیکنالوجی ڈیزائن ایجنسی ’اے آئی اسپیس فیکٹری‘ نے ’’مارشا‘‘ نامی ماڈل صرف 30گھنٹے کی مختصر مدت میں بغیر انسانی ہاتھ لگائے تیار کرکے ناسا کا5 لاکھ ڈالر کا پہلا انعام حاصل کیا۔ 

انڈے کی شکل کے اس 3Dپرنٹ ہوم کی بلندی 15فٹ اور قطر 8فٹ ہے۔ بیرونی سطح حدت آمیز بیرونی ماحول کو برداشت کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ مریخ کی گرد آلود، چٹانی سطح پر تین پرتوں میں اسے عمودی ڈیزائن میں بنایا گیا ہے تاکہ اندرونی ماحول بیرونی تابکاری اثرات سے محفوظ رہے۔ اندرونی ڈیزائن چار سطحوں پر مشتمل ہے جو اسپائرل سیڑھیوں سے منسلک ہے۔ 

گراؤنڈ فلور لیول میں خلائی لباس پہنے خلا نوردوں کے آنے اور جانے کا محفوظ راستہ ہے۔ تجربات اور دیگر کاموں کے لئے لیبارٹریاں بھی قائم کی گئی ہیں۔ دوسری سطح پر باورچی خانہ، پودے اُگانے کے لئے باغیچہ، ورزش کرنے کا سوٹ اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے لئے جگہیں مخصوص کی گئی ہیں جبکہ سونے کے لئے چار پوڈز ، بستر اور میز کے ساتھ پرائیویٹ رہائشی کوارٹرز کی سہولت بھی شامل کی گئی ہے۔ 

بقول اے آئی اسپیس فیکٹری، ’’ پوڈ کا اندرونی ڈیزائن روشن اور ہوادار رکھا گیا ہے، جو 70ڈگری فارن ہائٹ اور منفی 100ڈگری کے انتہائی درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر سطح میں کم از کم ایک کھڑکی رکھی گئی ہے، جو مکمل 360ڈگری زاویے پر بیرونی منظر پیش کرتی ہے۔ 

بالواسطہ فطری روشنی میں رہنے والوں کو نقصان دہ شمسی و کونیاتی شعاعوں سے حفاظت کا اہتمام کرتی ہے۔ شہابی چٹان سے اخذ کردہ بسالٹ فائبر میٹریل اور رینیو ایبل بائیو پلاسٹک (پولی لیکٹک ایسڈ) استعمال کیا گیا ہے ،جنھیں مریخ جیسے ماحول پر اُگائے گئے پودوں سے کشید کیا گیا ہے۔ 

تاہم اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے ،اس میں مٹیریل کی بین السیاروی نقل و حرکت ہے۔انسان کو مریخ تک رسائی میں وقت چاہئے۔ اسپیس ایکس کے ایلون مسک 2024ء تک پہنچنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ ناسا نے 2030ء کی تاریخ دی ہے ۔ 

ناسا نے یہ مقابلہ 2015ء میں شروع کیا تھا،جو کئی تجرباتی مراحل کے بعد مئی 2019ء میں مکمل ہوا۔ جس تیز رفتاری سے ابتدائی نمونہ بنایا گیا، اس سے خلانوردوں کو امید ہو چلی ہےکہ مریخ کے سخت ماحول میں یہ گھر ہمارے لئے زندگی کا سامان ہوں گے۔ اے آئی اسپیس کے بسالٹ اور بائیو پلاسٹک پر مبنی بائیو پولیمر گھر ’’مارشا‘‘ کو دیگر ٹیموں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور دیرپا قرار دیا گیا۔ 

اُدھر ایلون مسک اپنی پرائیویٹ فرم ایکس اسپیس کے ذریعے مریخ پر جانے اور 2050ء تک اپنی مستحکم کالونیاں بنانے کےلیے بہت پُرجوش ہیں، جو شیشے کے گنبدوں پر مبنی گھروں پر مشتمل ہوں گی۔

کرۂ ارض کی آلودگی و گرمائش

مریخ پر جانے کے لیے چاند کو پہلا اسٹیشن بنانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ کامیاب پرواز کے لئے نظام شمسی کے اندر ایسے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن بنائے جارہے ہیں جو اس سفر میں جنکشن کا کام دیں گے۔ مریخ کےمصنوعی ماحول پر کئی زمینی تجربات کے بعد زمین سے مماثل اس سیارے پر آباد کاری کے لئے خلانوردوں کی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک کشش ثقل کو لپیٹ کر ایک جھٹکے کے ساتھ سفر کرنے والے خلائی طیارے نہیں بنائے جاتے۔ 

مریخ کے مواد سے کونیاتی حدت برداشت کرنے والے مٹیریل کی تیاری بھی ایک اور اہم معاملہ ہے جس پر امریکا، روس، فرانس، جاپان اور چین اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں۔ پرائیویٹ کمپنی ایکس اسپیس اور ناسا کے دعوے اپنی جگہ لیکن عالمی اذہان کو مل جل کر ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا، جس میں تمام انفرادی کوششوں کو اجتماعی کاوش میں تبدیل کرکے چاند کے بعد مریخ پر اگلے انسانی قدم کو ممکن بنایا جاسکے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ زمین پر انسانی آبادی کے دبائو اور زمین پر کم ہوتے وسائل نے دیگر سیاروں پر آباد کاری کی اہمیت فزوں تر کردی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوسرے سیاروں پر زندگی کے مساوی امکانات کم ہوئے تو انسان کا مستقبل کیا ہوگا؟ چاند کے ویران خطے میں مصنوعی کاشت کاری کے انتظامات اپنی جگہ لیکن پہلے اپنی دھرتی ماں کے چپے چپے کی حفاظت کے لئے ہمیں مفادات سے بالا تر ہوکر اپنی زمین کو بچانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی۔

نئے جہاں آباد کرنے سے پہلے ہمیں مادر ارض کو سرسبز و خوشحال بنانا ہوگا اور اسے ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

تازہ ترین