• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشادربانی ہے’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ یہ اسے کیا ہورہا ہے؟ اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی، کیوں کہ تیرے رب نے اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہوگا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے، تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں، پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا‘‘۔ (سورۃ الزلزال)

مزید فرمایاگیا:(ترجمہ) ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، کسی قدر خوف، بھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، تو (آزمائش کی اس گھڑی میں) صبر کرنے والوں کو اللہ کی خُوشنودی کی بشارت سُنادیجیے، کہ جب اُنہیں کوئی (آزمائش اور) مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اُن پر اُن کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ (سُورۃ البقرہ)

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ علم اٹھا نہ لیا جائے اور زلزلے بکثرت نہ پائے جائیں۔( صحیح بخاری)

’’زلزلہ‘‘ قدرتی آفت کی بدترین شکل ہے۔ یہ کبھی بھی ہو اورکہیں بھی ہو، اللہ کی طرف سے شدید ابتلاء و آزمائش کا قیامت خیز لمحہ اور انتباہ ہے، اس حوالے سے قرآنِ کریم میں ارشاد ہے، ’’لوگو، اپنے پروردگار سے ڈرو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے، جس دن تم اُسے دیکھ لو گے، ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّوں کو بھول جائے گی اور حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے، حالاں کہ وہ درحقیقت مدہوش نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ (سورۃ الحج)

نافرمانوں اور سرکشی کی راہ پر چلنے والوں کو ایک مقام پر ان الفاظ میں متنبہ فرمایا گیا: ’’کیا تمہیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا چھوڑے، یا تم پر عذاب سنگ ریزوں کی آندھی کی صورت میں آجائے، اور پھر تمہیں کوئی کارساز ڈھونڈے نہ ملے۔‘‘ (سورۃ الاسراء)

آزاد کشمیر میں حالیہ زلزلے میں جسے اہلِ ایمان کے لیے اللہ کی طرف سے انتباہ، ابتلا، آزمائش کا لمحہ اور قیامتِ صغریٰ کہا جاسکتا ہے۔ یہ ملکی سانحہ اور سخت آزمائش کا لمحہ ہے۔ اس مشکل گھڑی میں گناہوں پر ندامت، توبہ و مناجات اور خصوصی دعائوں کے اہتمام اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے،’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے اہلِ دنیا میں سے اُس کے کسی عزیزکی رُوح قبض کرلیتا ہُوں، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے اور ثواب کی اُمید کرتا ہے تو اُس کے لیے جنّت کے سوا میرے پاس کوئی اجر نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

ایک مقام پر فرمایا گیا: ’’ہاں، جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کیے، یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘ (سورۂ ہود)’’اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکو کار ہوجائے تو اللہ اُس کو معاف کردے گا، کچھ شبہ نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ)

رسولِ اکرم ﷺ کاارشادگرامی ہےکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، جو بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے اور میری اطاعت و فرماں برداری کی راہ میں میری طرف بالشت بھر آگے بڑھتا ہے، میں اُس کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہوں، اور جو میری طرف ہاتھ بھر آگے بڑھتا ہے، میں گز بھر اُس کی طرف بڑھتا ہوں، اگر میرا بندہ چلتا ہوا میری طرف آئے تو میں دوڑتا ہُوا اُس کی جانب بڑھتا ہوں۔‘‘اسی طرح ارشادِ نبویؐ کے مطابق گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے،گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ)

بیش تر مواقع پر قدرتی آفات اور آسمانی مصائب اللہ کی طرف سے مقررکردہ طرزِ زندگی سے انحراف، سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے انتباہ اور یاد دہانی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اُس کی نافرمانی چھوڑکر اللہ کے دامنِ رحمت میں پناہ تلاش کی جائے۔ ’’سُورۂ توبہ‘‘ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اُنہیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی انہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور نصیحت پکڑیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ)

زلزلے اللہ کے غضب اور قہر کی نشانیاں ہیں،اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ہمیں آواز دے رہے ہیں کہ میرے بندو، کہاں جارہے ہو، بہت نافرمانیاں کر لیں، اب تو میری طرف آجاؤ، توبہ کر لو،معافی مانگ لو، میں تمہیں معاف کر دوںگا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے حضور توبہ واستغفار کریں اور راضی کرنے والے اعمال میں لگ جائیں، صدقہ وخیرات کی کثرت کریں،کیوںکہ یہ اللہ رب العزت کو بہت زیادہ پسند ہے اور اس کے ذریعے اس کی ناراضی دور ہوتی ہے۔

ہمیں یہ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی صورت اورکبھی بھی مایوس نہ ہوں، اُس کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہنے، دین پر عمل کرنے، عبرت و نصیحت حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اللہ کی رحمت کا دامن جس قدر وسیع ہے، اُس کے عفو وکرم اور درگزر کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی رحمت سے مایوس ہوجانے والوں سے بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے، اس حوالے سے ارشاد ہُوا: ’’اللہ کی رحمت سے صرف گُمراہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الحجر)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو اُس کے کنبے سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے، زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (ترمذی)

حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ایمان داروں کو باہمی محبّت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام بدن کے اعضاء بیماری اور تکلیف کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ اُس سے کنارا کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری میں مصروف رہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت براری کو پورا کرنے میں رہتا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کا ایک دُکھ بانٹا، اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت کی مشکلات میں سے اُس کی ایک ایک مشکل کو دُور کردیا اور جس کسی نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر پردہ ڈالے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)

اسلام کی یہ سنہری تعلیمات ہمیں اس امر کا پابند کرتی ہیں کہ ہم مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے اِن بھائیوں کی ہر طرح مدد کریں۔اس موقع پر ہمیں جسدِ واحد اور تسبیح کے دانوں کی طرح متّحد ہوکر اخوت و اجتماعیت، یگانگت اور دینی و مِلی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 

زلزلہ پوری قوم کے لیے آزمائش ، عظیم سانحہ اور متاثرین کے لیے صبر کی گھڑی ہے، آفات اور آزمائش اجتماعی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔توبہ و استغفارکی جائے، زلزلوں کا اس شدت کے ساتھ آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مالی وجانی نقصان سے محفوظ رکھے۔

تازہ ترین