• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی خوشی کیلئے دوسروں کی راہ میں حائل نہ ہو

رُباب شکیل

چند سال قبل مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 60 نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایک سیمینار میں شرکت کی۔ ایک مقرر بولتے بولتے اچانک خاموش ہوگیا، کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے نوجوانوں سے ایک گروپ ایکٹیوٹی میں حصہ لینے کو کہا۔ مقرر نے ہر نوجوان کو ایک ایک غبارہ دیتے ہوئے اس پر مارکر، سے اپنے اپنے نام لکھنے کو کہا، تمام نوجوانوں نے اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے غبارے پر اپنے نام لکھ دیئے۔ 

مقرر نے غبارے جمع کر کے انہیں ایک کمرے میں رکھ دیئے اور نوجوانوں سے کہا پانچ منٹ میں اپنے اپنے ناموں والے غبارے ڈھونڈیں۔ سب نوجوان بدحواسی کے عالم میں ادھر ادھر اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگے، بعض کے پیروں تلے دوسروں کے نام والے غبارے آکے پھٹ گئے، اور بعض نوجوانوں کو اپنے نام کی بجائے دوسروں کے نام کے غبارے ملے لیکن کوئی بھی اپنے نام والا غبارہ نہیں تلاش کر سکا۔ 

اسی اثنا میں مقررہ وقت مکمل ہوگیا۔ مقرر نے سب کو کمرے سے باہر آنے کا کہا۔ پھر مقرر نے دوبارہ اسی سرگرمی کو دہرانے کا کہا، لیکن اس بار کچھ رد و بدل کر دیا۔ یعنی اب کی بار اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے کی بجائے جو غبارہ مل جائے اس پر جس کا نام درج ہو، اسے دیں۔ فقط چند لمحوں میں سب نے غبارے اُٹھائے اور مطلوبہ نوجوان کو دے دیئے۔

اس کے بعد مقرر نے اس سرگرمی کے چند قوائین مزید تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ، تمام نوجوانوں کو یہ ہی سرگرمی ایک بار پھر کرنی ہے لیکن اس بار تمام نوجوان اپنے اپنے غبارے میں ہوا بھریں، ایسے کہ یہ پھٹے نہیں، جس کا غبارہ آخر تک باقی رہ جائے گا اسے انعام سے نوازا جائے گا۔

سب نے جلدی جلدی غباروں میں ہوا بھری بعض کے غبارے ہوا بھرتے بھرتے ہی پھٹ گئے۔ جن کے غبارے نہیں پھٹے وہ ایک صف میں کھڑے ہوگئے، ابتداً سب انتظار کرنے لگے کہ کسی نہ کسی کا غبارہ پھٹے گا، لیکن کچھ وقت گزرا تو ایک سے صبر نہ ہوا اور اس نے اپنے برابر کھڑے نوجوان کا غبارہ نظر بچاکر پھاڑ دیا، یہ دیکھ کر اس نوجوان کو بہت غصہ آیا اور اس نے بھی بدلے میں اس کا غبارہ پھاڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور غلطی سے کسی دوسرے نوجوان کا غبارہ پھاڑ دیا، اسی اثنا میں کمرہ میں ہل چل مچنا شروع ہوگئی اور تمام نوجوان ایک دوسرے کا غبارہ پھاڑنے لگے۔ مقرر نے سب کو مخاطب کیا اور کہا،

’’آپ سب صبر و برداشت سے کام لیں، کسی کو کوئی انعام نہیں مل رہا، اس سرگرمی سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری زندگی بالکل ان تین سرگرمیوں کی مانند ہیں، ہم بد حواسی میں اپنی خوشیاں ڈھونڈتے ہیں اسی افراتفری میں ہمیں پتا بھی نہیں چلتا اور ہم دوسروں کی خوشیاں اپنے پیروں تلے کچلتے چلے جاتے ہیں۔

ہم یہ نہیں سمجھتے ہماری خوشیاں دوسروں کی خوشیوں سے وابستہ ہیں، دوسروں کو ان کی خوشیاں دے دیں تو ہمیں باآسانی ہماری خوشیاں مل سکتی ہیں۔

اور اگر بلفرض ہمیں ہمارے حصے کی خوشیاں کسی وجہ سے نہ مل سکیں تو ہمیں دوسروں کی راہ میں کانٹے نہیں بونے چاہیں، بلکہ ان کے لیے آسانی پیدا کرنی چاپیے تاکہ ان کی بدولت ہمیں ہماری خوشیاں مل جائیں۔ یہ ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے۔

تازہ ترین