• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (World Food and Agriculture Organization) کے زیرِاہتمام ہر سال16اکتوبر کو کوئی ایک تھیم منتخب کرکے دُنیا بَھر میں’’عالمی یومِ خوراک‘‘منایا جاتا ہے۔امسال کا تھیم"Our Actions Are Our Future:Healthy Diets.For A#Zero Hunger World" ہے۔عالمی سطح پر خوراک کے حصول اور غربت کے خاتمے کا جائزہ لیا جائے،تو صُورتِ حال خاصی مایوس کُن نظر آتی ہے۔ایف اےاو کی 2016ء کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق2015ءکی نسبت اگلے برس مزید3.8کروڑ افرادغذائی قلّت سے دوچار ہوئے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر روزلگ بھگ 80کروڑ افراد خوراک کی عدم فراہمی کا شکار ہوتےہیں،جو کہ پاکستان، انڈونیشیا اور امریکا کی کُل آبادی کے برابر ہیں۔اسی طرح ہر سال31لاکھ بچّےغذائی قلّت کا شکار ہوتے ہیں،جس کی ایک بنیادی وجہ ماؤں کو مناسب خوراک نہ ملنا اور اُن میں غذائیت کی کمی ہے،جس کے سبب نومولود کا مدافعتی نظام بھی کم زور پڑجاتا ہے۔اس ضمن میں یہ بات بھی قابلِ غورہے کہ اگرخوراک میں شامل مختلف کیمیائی اجزاء میں سے صرف فولاد ہی کی کمی پر قابو پالیا جائے، توکم زور مدافعتی نظام کی کارکردگی میں20فی صد اضافہ ہوسکتا ہے۔

عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت 1945ء سے اس ایجنڈے پر کام کررہا ہے کہ کسی طرح دُنیا بَھر سے غذائی قلّت دُورہوجائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چار اہداف فوری توجّہ کے متقاضی ہیں۔

غذائی تحفّظ:صحت بخش غذا کا حصول ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔اس ضمن میں اگر غذا کی منصفانہ تقسیم عمل میں لائی جائے، تو کوئی بھی فرد غذا اور غذائیت کی کمی کا شکار نہیں ہوگا۔ 

غذائیت سے بَھرپورغذا:غذائی قلّت ختم کرنے کے لیے صرف خوراک کا حصول ہی ضروری نہیں، بلکہ خوراک میں اُن تمام غذائی عناصر کا شامل ہونا بھی ناگزیر ہے ، جو جسم کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔

اگر غذا ناقص ہوگی، تو یقینی طور پر جسم کم زور ہوتا چلا جائے گا اور اگر متوازن غذا (جس میں تمام غذائی عناصر شامل ہوں)استعمال کی جائے ، تو نہ صرف جسم توانا و صحت مند ہوگا،بلکہ کئی بیماریوں سے بھی محفوظ رہے گا۔ 

پائیدار اور مستقل زراعت:بدقسمتی سے اس وقت زراعت اور کاشت کاری کے لیےجنگلات کا صفایا کیا جارہاہے، جس کا بڑامقصد خوراک ہی کا حصول ہے، لیکن ایسےتمام اقدامات جو ماحول پر اثر انداز ہوں، وہ پائیدار اور مستقل زراعت کےلیے خوش آئند ثابت نہیں ہوتے، لہٰذا ایسے اقدامات کیے جائیں، جن کے ماحولیات پر مثبت اثرات مرتّب ہوں۔ 

غربت کا خاتمہ:غربت کا براہِ راست اثر خوراک کی کمی اور غذائی اجزاء سے محرومی کی صُورت سامنے آتا ہے۔ عمومی طور پرکم آمدنی والے افراد اپنے محدود بجٹ کے باعث معیاری غذاکی خریداری سے محروم رہتے ہیں،تو مجبوراً غیر معیاری غذائیں ہی استعمال کی جاتی ہیں،نتیجتاً ان کی صحت متاثر ہوجاتی ہے۔اگر غربت میں کمی آجائے، تو غذائی قلّت پر قابو پانا بھی آسان ہوجائے گا۔

اس وقت دُنیا بَھر میں خوراک کی کمی اور فاقوں سے متاثرہ افراد کی تعداد کئی سو ملین ہے، جس کی بنیادی وجہ وہ تمام امور ہیں، جو انسان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ مثلاً:

عالمی تنازعات:عالمی تنازعات کے باعث زراعت اور خوراک کا حصول شدید متاثر ہوتا ہے۔ دُنیا کے کئی ملین افراد زبردستی اپنا مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،جس کے باعث انہیں خوراک کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دُنیا بَھر میں غذائی قلّت اور فاقہ کَشی کے شکار افراد کی سب سے زیادہ تعداد تنازعات والے علاقوں ہی میں پائی جاتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ فاقہ کَشی اور خوراک کی ترسیل شورش زدہ یا جنگوں سے متاثرہ علاقوں کا بنیادی مسئلہ ہے اور بھوک کا خاتمہ قیامِ امن کے بغیر ناممکن ہے۔

آلودگی:پچھلی کئی دہائیوں سے آلودگی کا مسئلہ بے حد بڑھ چُکا ہے۔یہ بھی انسانوں کا پیدا کردہ ہے،مگربدقسمتی سے اس سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ آلودگی کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دُنیا بَھر میں واضح طور پر محسوس کیے جارہے ہیں۔ سخت ترین موسمیاتی تبدیلیوں نے، جن میں سیلاب، طوفان، سخت گرمی ،شدید ٹھنڈ اور خشک سالی وغیرہ شامل ہیں، خوراک کے مسئلے کو اور بھی سنگین بنادیا ہے۔ 

پھران قدرتی آفات کے باعث مچھیرے، زراعت سے وابستہ اور جنگلات کے آس پاس رہایش پذیر افرادبھی سخت ترین حالات سے گزرتےہیں۔ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی نہ صرف نقل مکانی کرنی پڑتی ہے ،بلکہ خوراک کی شدید کمی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ 

واضح رہے کہ آلودگی کے باعث کرہ ٔارض پر درجۂ حرارت بڑھنے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات براہِ راست زمین پر مرتّب ہوتے ہیں، جن میں زمین کاخشک اور بنجر ہوجانا بھی شامل ہے،جس کے باعث زراعت تقریباًناممکن ہوجاتی ہے۔

غذا کاغلط استعمال(Over Eating) :ایک جانب جنگوں سے متاثرہ اور شورش زدہ علاقوں میں غذائی قلّت کا سامنا ہے، تو دوسری جانب پُرامن علاقوں میں غذا کا زائد استعمال فربہی اورموٹاپے کا سبب بن رہا ہے، خاص طور پر جنک فوڈز کے استعمال کے نتیجے میں صحت کے مسائل عام ہیں۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق 1.9ارب افراد ،جو کہ دُنیا کی کُل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصّہ ہیں، وزن کی زیادتی کا شکار ہیں،جن میں سے 600ملین شدید موٹاپے (Obesity) کے مسائل سے دوچار ہیں۔ نیز، اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہورہا ہے۔

یاد رہے، جسمانی ضرورت سے زائد کھانا بھی خوراک کے زیاں اور صحت کی بربادی کا سبب بن رہا ہے اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پلیٹوں میں بچ رہنے والابہت ساکھانا کچرے کی نذربھی ہوجاتا ہے۔

معاشی ترقّی:کسی بھی مُلک کی معاشی ترقّی ،اُس مُلک میںغذائی قلّت، بھوک، فاقہ کَشی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جب کہ طبقاتی فرق خوراک کی قلّت اور فاقہ کَشی کا سبب بنتا ہے اور اس کے باعث کشیدگی اور تنازعات بھی جنم لیتے ہیں۔ 

معاشی ترقّی میں جب تک خطِ افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو شامل نہیں کیا جائے گا، اُس وقت تک مستحکم معاشی صورتِ حال کا حصول ناممکن ہی رہےگا۔

بلاشبہ غذائی قلّت دُور کرنے کے مقررّہ ان اہداف کے حصول میں حکومت، سیاست دانوں اورمتموّل افرادکا کردار نہایت اہم ہے۔ واضح رہے کہ دُنیا بَھر میں80فی صد غذائی قلّت کے شکار افراد کا تعلق دیہات سے ہے۔

اور اس پس ماندہ آبادی،دیہی علاقوں میں بسنے والے افراد تک رسائی نجی شعبوں کی شمولیت کے بغیر ناممکن ہے۔ نیز، آبادی کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر زراعت کے جدید ترین طریقوں سے استفادہ بھی ناگزیر ہے۔ پُرانے فرسودہ طریقوں کو جدید ذرائع کے استعمال سے بدلنا بےحد ضروری ہے۔

پاکستان کے معاشی تناظر کے حوالے سے بات کی جائے، تو اس کا شمار ترقّی پذیر مُمالک میںہوتا ہے، جہاں 39فی صد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہی ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے بیش تر دیہی یا پس ماندہ علاقوں کے مکین غذائی قلّت کا شکار نظر آتے ہیں۔ 

خاص طور پر اندرونِ سندھ، تھر کے علاقے میں تو لوگوں کوبہ مشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ عمومی طور پر کھانے کے لیے سوکھی روٹی اور مرچوں کا پانی استعمال کیا جاتا ہےاوریہ کھانا نہ تو خوراک کی کمی دُور کرتا ہے اور نہ ہی جسم کومطلوبہ غذائیت فراہم کرپاتا ہے۔ 

غذائی قلّت دُور کرنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات ناگزیر ہیں، جن سےفوری نوعیت کے مسائل سے نمٹا جاسکے۔ مثلاً Multi Grain Policy اپنائی جائے۔اس پالیسی کے تحت صرف چاول اور گندم ہی کو بنیادی خوراک کے درجے میں شامل نہ کیا جائے، بلکہ نشاستے کے دوسرے غیر معروف ذرائع کا استعمال بھی عام کیا جائے۔جیسے باجرہ، مکئی، جوار وغیرہ۔ ان کے علاوہ علاقائی طور پر بھی کئی پودے ایسے ہیں، جو غذائیت سے بَھرپور ہوتے ہیں۔ 

مثلاً سوہانجنا(Moringa) قدرت کی جانب سےایک ایسا نادر تحفہ ہے، جوغذا اور غذائیت کی کمی دُور کرنے کے ضمن میں اکسیرثابت ہوتا ہے۔ یہ درخت نہ صرف پاکستان کے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے، بلکہ دِنوں کے حساب سے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کم پانی کے استعمال سے ایک سال میں تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ 

غذائیت کی کمی کے باعث جنم لینے والی 300سے زائد بیماریوں کا علاج اس درخت میں موجود ہے۔اگر اس درخت کے پچاس گرام خشک پتّوں ہی کا روزانہ استعمال کرلیا جائے، توغذائیت کے اعتبار سےیہ آٹھ کیلوں، دو پالک کی گڈیوں یا دو کپ دہی کے برابرہوں گے۔پھر یہ اینٹی آکسیڈینٹ بھی ہے، جس میں مختلف امائینو ایسڈز اور وٹامنز پائے جاتے ہیں۔ 

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ فولاد پالک میں پایا جاتا ہے، جب کہ سوہانجنا میں فولاد کی مقدار پالک کے مقابلے میں 4گنا زائدہے۔ اسی طرح پوٹاشیم کیلے کی نسبت 3گنا زائد پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں، مختلف اقسام کی سبزیوں کا استعمال بھی غذائیت کی کمی پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، جن میں پالک، ٹنڈے، کریلے، گِھیا(کدّو)، توری وغیرہ شامل ہیں۔

گرچہ غذائی قلّت، غذائیت سے بَھرپور غذاؤں کا استعمال نہ کرنا اور فاقہ کشی عالمی مسائل کی شکل اختیار کرگئےہیں، مگر ان پر قابو پانے کےلیے انفرادی طور پر اقدامات بھی ضروری ہیں۔مثلاً:

کھانا ضایع ہونے سے بچانا:کئی گھرانوں میں روزانہ ایک چوتھائی کھانا ضایع ہوجاتا ہے۔ اگر اس کھانے کو کچرے میں پھینکنے کی بجائے مستحقین تک پہنچا دیا جائے، تو غذائی قلّت دُور کرنے کے لیے اُٹھایا گیا یہ پہلا انفرادی قدم مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

کھانے کا لیبل دیکھ کر کھانا نہ پھینکیں:مختلف کھانے کی اشیا ءپر دو طرح کی زائد المیعاد تاریخیں درج ہوتی ہیں۔ ایک تاریخ ایکسپائر(Expire)یا یوز بائے(Use by)کے نام سے درج ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تاریخ کے بعد کھانے کا استعمال صحت کےلیے نقصان دہ ہوسکتا ہے، لہٰذا اس کو ضایع کرنا ہی مناسب ہے۔ 

لیکن کئی اشیاء کے پیکٹس پر بیسٹ- بی فور(Best before)لکھا ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقرّرہ تاریخ کے گزرنے کے بعد اس کے ظاہری خواص میں کچھ تبدیلی آسکتی ہے، لیکن یہ مضرِصحت نہیں ، لہٰذا اس کھانے کو ضایع نہ ہونے دیں۔

ملی جُلی غذاؤں کا استعمال :بیش تر غذائیں قدرتی ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں، جیسے سبزیاں، پھل، گوشت مچھلی، انڈا، دال وغیرہ ۔ ایک ہفتے میں اگر گوشت کے علاوہ باقی تمام اجناس پر بھی انحصار کیا جائے، تو یہ نہ صرف غذائیت کے حصول کا سبب بنیں گی، بلکہ صحت بخش زندگی کی ضامن بھی ثابت ہوں گی۔

صحت بخش غذاؤں کا استعمال:اشیائے خورونوش کی خریداری کرتے وقت غیرصحت بخش غذائوں کی شناخت کریں اور ان کا استعمال کم سے کم کردیں۔ مثلاً گھی جس میں trans fatپایاجاتا ہے اورجوصحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس سے کولیسٹرول بڑھ سکتا ہے، تو دِل یا شریانوں کی بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ 

اس کی بجائے نباتاتی تیل (vegetable oil) استعمال کیا جائے۔ اشیاء زیادہ تلنے کے بجائے سینکنے(Baked)، اُبالنے (Boiled)یا بھوننے(Grilled) کے طریقے اختیار کیے جائیں۔اس طرح مجموعی صحت پر مفید اثرات مرتّب ہوں گے۔

پانی کا زیاں :خشک سالی کا مطلب پانی کا نہ ہونا ہے۔ دُنیا بَھر میں خشک سالی شدید مسئلے کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔ انفرادی طور پر اگر پانی کے استعمال میں احتیاط برتی جائے، تو خشک سالی جیسے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایسا پانی، جو گھر میں صرف دھونے کے لیے استعمال میں آرہا ہو اور اس میں صابن یا سرف وغیرہ شامل نہ ہو،تو اسے پودوں میں ڈالا جا سکتا ہے۔ نہاتے،برتن یا کپڑے دھوتے وقت پانی کم استعمال کریں،تو دانت برش کرنے کے دوران پانی کا نل بندرکھا جائے۔

درخت لگائیں:شہری علاقوں میں زائد آبادی کے سبب جگہ کم پڑ رہی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پارکس وغیرہ ختم کیے جارہے ہیں،نتیجتاًدرخت ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ Urban Forestryکو رجحان دے کر شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے موسمی شدّت پر قابو پانا ممکن ہے، وگرنہ اس کا براہِ راست اثر زراعت پر بھی مرتّب ہوتا ہے۔

اشیاء کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا:اس پر زیادہ سے زیادہ کام کروایا جاسکتا ہے، تاکہ موجود اشیاء کا مناسب استعمال سیکھا جاسکے۔ مثلاً کاغذ کے دونوں جانب لکھنے سے کاغذ کا استعمال نہ صرف کم ہوگا، بلکہ اس کے ذریعے درختوں کو کاٹ کر جو کاغذ حاصل کیا جاتا ہے، اس میں بھی کمی آئےگی۔پلاسٹک گلاس اور المونیم سے تیار کردہ اشیاء کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے سے آلودگی پر قابو پانا ممکن ہے۔

صفائی مہم:آبادی میں صفائی کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے منظّم انداز میں کئی بار سالانہ صفائی مہم کا اہتمام کیا جائے، تاکہ صفائی ستھرائی سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہو۔ یہ صفائی مہم دیہات اور شہر کے پارکس یا سمندر کنارے سے شروع کی جاسکتی ہے۔

توانائی کا بہتر استعمال :موجودہ دَور میں فریج، ٹی وی، ائیرکنڈیشنر، واشنگ مشین، بلب، پنکھے وغیرہ ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ برقی اشیاء کی خریداری کے وقت ترجیحاً ایسی اشیاء خریدی جائیں، جن پر A+++کا نشان ہو۔ ایسی تمام اشیاء energy efficient ثابت ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے اس آلودگی میں کمی لائی جاسکتی ہے، جو توانائی استعمال کرنے کے دوران خارج ہوتی ہے۔

یاد رکھیں،ملٹی سیکٹر اسٹریٹجی اپنا کر ہی غذائی قلّت اور فاقہ کشی پر قابو پانا ممکن ہے، ورنہ یہ عالم گیر مسئلہ اگلے چند برسوں میں بحرانی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔

(مضمون نگار،جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سےبطور اسسٹنٹ پروفیسروابستہ ہیں،جب کہ سندھ فوڈ اتھارٹی بورڈ اور سائنٹیفک پینل کے رُکن بھی ہیں)

تازہ ترین