• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرچہ سربراہانِ مملکت و حکومت اقوامِ متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مختلف موضوعات و تنازعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں، لیکن اس دوران اُن کا مطمحِ نظر اپنا قومی مفاد ہی ہوتا ہے۔ نیز، اگر انہیں کسی قسم کے زیاں کا خدشہ ہوتا ہے، تو وہ دیگر ممالک کے تعاون سے اُسے کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ کوئی بھی رہنما اس بات کا متحمّل نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے مُلک و قوم کے مفادات کو دائو پر لگاتے ہوئے کسی دوسرے معاملے پر توجّہ دے۔ 

علاوہ ازیں، عالمی فورمز کو عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا وہاں اُن داخلی مسائل کو اُجاگر کیا جاتا ہے کہ جن میں عالمی تعاون درکار ہو اور اس کی مدد سے معیشت اور ماحولیاتی مسائل سمیت دیگر معاملات میں بہتری لائی جا سکے۔ 

تاہم، اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ دُنیا کسی مُلک کی داخلی صورتِ حال سے بے خبر ہوتی ہے، بلکہ اس قسم کی خوش فہمی یا غلط فہمی کوئی احمق ہی پال سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اب پراپیگنڈے کی جگہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ جدید ترین ذرایع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا نے دُنیا کو حقیقتاً ایک گلوبل ویلیج بنا دیا ہے اور ہر ریاست ہی دوسری ریاست میں رُونما ہونے والے حالات و واقعات سے با خبر ہوتی ہے ۔ 

مستحکم معیشت: نتجیہ خیز سفارت کاری کی کلید
صنعت کاروں کا ایک وفد وزیرِ اعظم، عمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے

اگر کسی مُلک کی حکومت زمینی حقائق کے منافی معلومات فراہم کرتی ہے، تو سماجی رابطے کی ویب سائٹس فوراً ہی اُسے بے نقاب کر دیتی ہیں۔ یہ سب اتنی برق رفتاری سے ہوتا ہے کہ خود حکومت کے میڈیا منیجرز اور اس مُلک کے مرکزی دھارے کے ذرایع ابلاغ انگشتِ بدنداں رہ جاتے ہیں۔ نتیجتاً، وضاحتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ 

سوشل میڈیا کی بہ دولت حُکم رانوں کے قول و فعل کا تضاد چند لمحوں ہی میں اس مُلک کے عوام اور دُنیا کے سامنے آ جاتا ہے۔ تاہم، ہمہ وقت بحث مباحثے میں مصروف رہنا کارگر نہیں ہوتا، کیوں کہ ممالک کی تقدیر مباحثوں، تقاریر سے نہیں، بلکہ عمل سے سنورتی ہے۔ بالخصوص معیشت پروان چڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

دُنیا کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سحر انگیز شخصیت کے مالک جذباتی و انقلابی حُکم راں بُری طرح ناکام ہوئے، جب کہ ٹھنڈے اور معتدل مزاج کے حامل رہنمائوں نے اپنے مُلک کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ اس ضمن میں جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل بہترین مثال ہیں۔

اب عوام کے لیے پراپیگنڈے اور حقیقت کے درمیان فرق تلاش کرنا آسان ہو گیا ہے اور حکومت کو نہ صرف ان کے سامنے بلکہ دُنیا کے سامنے بھی جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ گر چہ سوشل میڈیا پوسٹس کا ایک بڑا حصّہ غلط اطلاعات پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن انہی ذرایع سے حقیقت بھی سامنے آتی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ اب عالمی رائے عامہ ہم وار کرنے کے لیے لابنگ فرمز اور تھنک ٹینکس کی افادیت کم ہو چُکی ہے، کیوں کہ اگر حکومت کسی معاملے پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتی ہے، تو سوشل میڈیا صارفین فوراً اس کا متبادل بیانیہ پیش کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اُس انگریزی چینل کا ذکر بھی ضروری ہے، جسے عمران خان، اردوان اور مہاتیر محمد لانچ کرنے والے ہیں۔ 

اس کے ذریعے ’’اسلامو فوبیا‘‘ کا تدارک کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی میڈیا کے لیے اُس کی ساکھ نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جب کہ ہمارے اپنے مُلک ہی میں میڈیا کی صورتِ حال تسلّی بخش نہیں، جب کہ پاکستانی تارکینِ وطن سے ہمیں ویسے ہی چِڑ ہے۔ البتہ ہم اُن کی ترسیلاتِ زر سے غرض رکھتے ہیں۔ گو کہ مُلک میں اعلیٰ درجے کے صحافی موجود ہیں، لیکن وہ قابلِ رشک نمونہ ثابت نہیں ہوئے۔ 

مستحکم معیشت: نتجیہ خیز سفارت کاری کی کلید
آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کاروباری برادری کے مسائل سن رہے ہیں

سرکاری ٹی وی چینل، پی ٹی وی کی موجودہ صورتِ حال کا اندازہ وزرا اور حُکّام کے بیانات اور وضاحتوں سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں دِلوں پر راج کرنے والا یہ نشریاتی ادارہ بد ترین مالی، انتظامی اور تخلیقی بُحران کا شکار ہے اور اس کے ناظرین کی تعداد مایوس کُن حد تک کم ہے۔ واضح رہے کہ حکومتی سربراہان اور وزرا ہی نے نجی چینلز کے مقابلے میں پی ٹی وی کی اہمیت کو گھٹایا۔ 

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عروج کے دَور میں پی ٹی وی کا کوئی مقابل نہیں تھا، جب کہ اس وقت کم و بیش 125نیوز چینلز موجود ہیں، جن کے ٹاک شوز اور دیگر پروگرامز میں شرکت وزیرِ اعظم سے لے کر وزرا و سفرا تک کی ترجیح ہوتی ہے۔ 

تاہم، اس بات کے سبھی معترف ہیں کہ انفرااسٹرکچر کے اعتبار سے پی ٹی وی اب بھی لا جواب ہے اور یہ نجی چینلز کے کئی ایک نام وَر اینکرز اور پرفارمرز کی نرسری رہا ہے۔ پی ٹی وی انتظامی و مالیاتی پالیسی اور مواد کی وجہ سے مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا، جب کہ اس کے سربراہان، جن میں نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہر پیشہ وَر اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام شامل ہیں، ناکامی کی وجوہ اور صفائیاں ہی پیش کرتے رہے۔ 

نتیجتاً، اس وقت یہ اہم قومی ادارہ بد ترین بُحران سے گزر رہا ہے۔ در حقیقت، پی ٹی وی کے بُحران کا سبب اس کے اندرونی حالات ہیں اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے ان کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پی ٹی وی کو بی بی سی بنائیں گے، لیکن انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں ہار مان لی۔ کیا ایسی صورتِ حال میں ایک بین الاقوامی انگریزی چینل پر سرمایہ کاری سود مند ثابت ہو گی، جب کہ پی ٹی وی انگلش ناکام ترین چینل ثابت ہوا۔ علاوہ ازیں، آزادیٔ اظہارِ رائے کے اعتبار سے تُرکی اور ملائیشیا کا ریکارڈ بھی ناقابلِ رشک ہے۔ 

آج سے کئی برس قبل او آئی سی کے تحت جدّہ میں ایک اسلامک نیوز ایجینسی قائم کی گئی تھی، لیکن سعودی عرب کے پیٹرو ڈالرز کے باوجود یہ دو سال ہی میں بند ہو گئی۔ اس وقت عالمِ اسلام میں اگر کوئی بین الاقوامی نیوز چینل موجود ہے، تو وہ ’’الجزیرہ ‘‘ہے۔ اس کے قیام میں سی این این نے اہم کردار ادا کیا، لیکن شاید ہی کوئی اسلامی مُلک اس سے خوش ہو، بلکہ اسے بند کرنے کے لیے قطر پر مستقلاً دبائو ڈالا جا رہا ہے۔

دَورِ حاضر میں کسی بھی مُلک کے لیے عالمی سطح پر مؤثر انداز میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے داخلی و خارجہ پالیسی میں توازن رکھنا لازمی ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی مُلک کی خارجہ پالیسی اُس کی داخلی صورتِ حال کا عکس ہوتی ہے۔ مُلک اندرونی طور پر جتنا مضبوط و مستحکم ہو گا، اُس کی خارجہ پالیسی بھی اتنی ہی جان دار ہو گی۔ 

تاہم، بُھٹّو کے دَور سے ہمارے ہاں یہ روایت چل نکلی ہے کہ بین الاقوامی امور میں مہارت ہی خارجہ پالیسی کی کام یابی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی اقوامِ متّحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر پُرجوش تقاریر اور بیانات کا ذکر عام ہے، لیکن کیا ان کے نتیجے میں مُلک اُس مقام تک پہنچ سکا، جس پر اسے ہونا چاہیے تھا۔ کیا آج پاکستانی پاسپورٹ کو دُنیا میں وہ قدر و منزلت حاصل ہے، جو سنگا پور اور جنوبی کوریا جیسے چھوٹے ممالک کے پاسپورٹس کی ہے۔ 

دراصل، سفارت کاری اور امورِ خارجہ میں مہارت کا یہ تصوّر سابق امریکی وزیرِ خارجہ اور ممتاز امریکی سفارت کار، ہنری کسنجر نے دیا تھا۔ سفارت کاری پر اُن کی تصنیف کردہ کُتب آج بھی مستند سمجھی جاتی ہیں۔ دیگر ہم عصر رہنمائوں کی طرح بُھٹّو بھی ہنری کسنجر سے متاثر تھے۔ تاہم، چین، جاپان، جرمنی اور ایشین ٹائیگرز کی ترقّی نے اس تصوّر کو بدل کر رکھ دیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس جانب توجّہ دلاتے ہیں کہ کسی بھی مُلک کا معاشی و اقتصادی استحکام ہی اُس کی خارجہ پالیسی کی کام یابی کا ضامن ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان اس اَمر پر خاصی تنقید کرتے ہیں کہ دُنیا بھارت کی وسیع مارکیٹ کی خاطر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی کررہی ہے۔ گرچہ یہ ایک حقیقت ہے اور بھارتی مظالم پر خاموشی اختیار کرنے والوں میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی تنقید کارگر ثابت ہو رہی ہے اور کیا اقوامِ عالم یا ہمارے دوست ممالک اس سے متاثر ہو کر بھارت سے وابستہ اپنے مفادات ترک کر چُکے ہیں۔ 

اس قسم کی تقاریر اور بیانات اپنی اور عوام کی انا کی تسکین کا ذریعہ تو ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن ان کے بَل پر عالمی میدان میں اپنی بات منوانا نا ممکن ہے۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم خود معاشی طور پر اس قدر توانا ہو جائیں کہ دیگر ممالک خود بہ خود ہی ہماری طرف کھنچے چلے آئیں۔ 

اقوامِ عالم کے معاشی مفادات ہم سے کچھ اس طرح وابستہ ہو جائیں کہ وہ ہماری کوئی بھی بات نظر انداز نہ کر سکیں۔ وزیرِ خارجہ و وزیرِ داخلہ کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن ابتر معاشی صورتِ حال میں ایک با اختیار ، ذمّے دار وزیرِ خزانہ کی عدم موجودگی قابلِ غور ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان جس مشکل صورتِ حال سے گزر رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ مغربی و مشرقی سرحدیں گرم ہیں۔ اندرونِ مُلک بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں امن قائم ہوا اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے سازگار فضا پیدا ہوئی۔ تاہم، کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی کی شرحِ نمو کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود ریونیو کو زیادہ دکھایا جا رہا ہے، جو حیرت انگیز ہے۔ 

عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق، اس وقت پاکستان کی شرحِ نمو 2.8فی صد ہے، جب کہ حکومت صرف بیانات کی حد تک محدود ہے۔ اقدامات کی بہ جائے انتظار اور عوام کو آزمایش سے نہ گھبرانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے، جب کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکسز وصول کیے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن کے علاوہ معاشی تجزیہ نگاروں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ نیب کی پکڑ دھکڑ سے سرکاری سطح پر فیصلہ سازی کا عمل رُک چُکا ہے، جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں پر جمود طاری ہے، جب کہ نیب اس کی تردید کرتا ہے۔ 

ایسی صورتِ حال میں پیداوار ممکن نہیں رہی، جب کہ برآمدات میں اضافہ تو دُور کی بات ہے۔ یاد رہے کہ برآمدات میں اضافے کے لیے ہی گزشتہ ایک برس کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو 36فی صد کم کیا گیا۔ تاجر یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ اس وقت اُن کی مصنوعات خریدنے والا کوئی نہیں۔ گرچہ خود وزیرِ اعظم بھی معاشی صورتِ حال کو کئی مرتبہ نازک قرار دے چُکے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ جلد بہتری کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ معیشت کا تعلق نہ صرف خارجہ پالیسی سے ہوتا ہے، بلکہ یہ کسی مُلک کی سلامتی کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ لہٰذا، معاشی سرگرمیوں میں تیزی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ حکومت معیشت کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں، البتہ اس بات پر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ حکومت کے زیادہ تر اقدامات آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد سے وابستہ ہیں، جن کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔ 

اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معیشت کی بہتری اعلیٰ ترین انتظامی صلاحیتوں کی متقاضی ہے، تاکہ صنعت کاروں اور تاجروں کا اعتماد بحال ہو ۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری سطح پر روزانہ کی بنیاد پر فیصلے بھی کیے جائیں، جن کے نتائج عوام کو ریلیف کی صورت میں دکھائی دیں۔ معیشت سے متعلق دانش مندانہ فیصلے ہماری خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ جب ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا، تو بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ 

اس کی وجہ سے نئے منصوبے لگیں گے اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے کرپشن کے خاتمے پر اصرار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس کے علاوہ کچھ اور کرنا ہی نہیں چاہتی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تاثر غلط ہو، لیکن عوام اور مختلف طبقات کو یہی پیغام جا رہا ہے۔ نیز، اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ درپیش مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کر سکے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے 14ماہ سے زاید کا عرصہ گزرچُکا ہے۔ 

اب اسے مُلکی معیشت کو دُرست خطوط پر استوار کرنا ہو گا، کیوں کہ مُلک کے داخلی استحکام اور مؤثر خارجہ پالیسی کے لیے معیشت کا مستحکم ہونا ناگزیر ہے۔ عمران خان بہ طور وزیرِ اعظم چین کا ایک دورہ کر چُکے ہیں، جس نے گزشتہ دنوں اپنی 70ویں سال گرہ منائی۔ اس موقعے پر چینی صدر، شی جن پِنگ نے اُس بین الاقوامی ہوائی اڈّے کا افتتاح بھی کیا، جس پر عمران خان اُترے تھے۔ اسٹار فِش کی طرز پر بنا یہ ایئر پورٹ 11ارب ڈالرز کی لاگت سے تیار ہوا اور یہ اُن منصوبوں میں سے ایک ہے، جو یکے بعد دیگرے چین مکمل کرتا چلا آ رہا ہے۔ 

ہمیں چین سے کرپشن کے تدارک کے طریقے سیکھنے سے زیادہ اُس کے اقتصادی ترقّی کے ماڈل پر غور کرنے اور اُس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی اقتصادی پالیسی کو ہر پالیسی پر سبقت دینا ہو گی اور داخلی سطح پر ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے فی الوقت بیرونی محاذ پر خاموشی اختیار کرنا ہو گی۔ 

یاد رہے کہ خارجی محاذ پر وہی ممالک پیش قدمی کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں کہ جو اپنی معاشی قوّت کا لوہا منوا چُکے ہوں، جن کے پاسپورٹ دُنیا کا پاس ورڈ بن چُکے ہوں، جن کے عوام کو ہر مُلک میں خوش آمدید کہا جاتا ہو اور سب سے بڑھ کر جو ادھار کی بہ جائے نقد پر لین دین کرتے ہوں۔

تازہ ترین