• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی لڑکی نے جان دیکر فٹبال اسٹیڈیم کھلوادیا

ایران میں گزشتہ ماہ فٹ بال کی خاتون مداح کی عدالت کے باہر خودسوزی نے ایرانی حکام کو خواتین کے لیے اسٹیڈیم کے دروازے کھولنے پر مجبور کردیا۔

فٹبال کی شوقین ایرانی خاتون سحر خدا یاری نے خود کو آگ اس وقت لگائی جب انہیں اسٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایران نے 1979 کے بعد سے خواتین کے اسٹیڈیم میں داخلے کو ممنوعہ قرار دیا تھا۔ ایرانی رہنماؤں کاخیال ہے کہ خواتین کو مردوں جیسے شوق رکھنے سے گریز کرنا چاہئے ۔


سحر کی موت کی داستان کچھ اس طرح سے ہے کہ رواں سال مارچ  میں جب سحر نے اپنی پسندیدہ ٹیم ’استقلال تہران فٹبال کلب‘ کا میچ دیکھنے کے لئےمردوں کا روپ دھارا اور ’تہران آزاد اسٹیڈیم‘ جانے کی کوشش کی جس پر سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں اندر جانے سے روک دیااور حراست میں لے لیا۔بعد ازاں ان پر مقدمہ قائم کر کے انہیں رہا کر دیا گیا۔

 چھ ماہ کی سزا

سحر نے موت سے دو ہفتے قبل خود کو اس وقت ایک ایرانی عدالت کے باہر آگ لگا لی تھی جب انہیں پتہ چلا کہ عدالت اسے چھ ماہ قید کی سزا سنا سکتی ہے۔

سحر کو قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں کورٹ نے نوٹس بھیجا جس کے جواب میں انہوں نے خود کو آگ لگا لی جس کے نتیجے میں ان کےجسم کا 90 فیصد حصہ جل گیا اور موتاہاری اسپتال لے جانے کے دو ہفتے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔

سحر نے اپنی جان دے کر ایک تاریخ رقم کی اور اب ایران کی سرکاری نیوز ایجینسی ارنا نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایرانی فٹبال فیڈریشن نے فیفا سے وعدہ کیا ہے کہ 10 اکتوبر کو تہران آزاد اسٹیڈیم میں ہونے والے فٹبال میچ میں ایرانی خواتین کو اسٹیڈیم داخلے کی اجازت دی جائےگی۔

سحر پر 'غلط طريقے سے حجاب کرنے‘ کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

سحر خدایاری کون ہیں ؟

29 سالہ سحر خدایاری کا تعلق ایران سے ہے ۔ ’دا بلو گرل‘ سے مشہور سحر کی پسندیدہ ٹیم استقلال تہران فٹبال کلب تھی۔ اس ٹیم کا رنگ نیلا تھا جس کی وجہ سے سحر کا نام بھی ’دا بلو گرل ‘ مشہور ہوگیا۔

ایران نے 1979 کے بعد سے خواتین کے اسٹیڈیم میں داخلے کو ممنوع قرار دیا تھا۔ ایران کا رہنماؤں کا ماننا ہے کہ خواتین کو مردوں جیسے شوق رکھنے سے گریز کرنا چاہئے ۔

سحر کی وفات سے قبل ہی ایرانی حکومت سے خواتین کے اسٹیڈیم جانے کی پابندی اٹھانے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ سحر کی موت نے ایک سوشل میڈیا مہم کو بھی آغاز کیا جس میں دنیا بھر سے سوشل میڈیا صارفین نے حصہ لیا ۔

سحر کی موت پر ایرانیوں کا ردعمل:

ایران کی عوام نے سحر کی موت کا مسئلہ فیفا کے سامنے بھی رکھا ۔خدا یاری کی موت نے ایران کی مشہور و معروف شخصیات کی توجہ بھی حاصل کی ۔ اداکاروں، کھلاڑیوں سمیت دیگر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے فیفا سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کا بین الاقوامی میچوں میں شرکت سے بائیکاٹ کروائیں۔

انہوں نے اپنے مطالبے منوانے کے لیے ہیش ٹیگ’ بلو گرل‘ کا استعمال کیا۔

سحر کی پسندیدہ ٹیم کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ نے سحر کی حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے باسیاست کی جانب سے غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود سحر نے ہماری حمایت کی ۔‘

افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہم سحرکی حمایت کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ بالکل کچھ بھی نہیں۔

استقلال فین کلب کے اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ایک تصویر میں سحر اسپتال کے بیڈ پر موجوجود ہیںجہاں انہیں سر سے پیر تک پٹیاں بندھی ہوئی ہیں ۔

سحر کی اس تصویر کو انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔

سحر کی موت کے اس ناخوشگور واقعے نے واقعے نے ایران کی خواتین پر پابندی والی پالیسیوں کے لیے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔

ایران کے کچھ مشہور فٹ بال کھلاڑیوں نے عالمی فٹ بال تنظیم فیفا سے ایران کے اسٹیڈیم کے بائیکاٹ اوراسٹیڈیم میں خواتین کے داخلے کی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔

ٹوئٹر پر ایک ہیش ٹیگ ’فیفا اسٹینڈ اپ فار سحر‘بھی زیر گردش رہا جس کا مقصد فیفا کو ایران کے خلاف موقف اپنانے کا مطالبہ کرنا تھا۔

استقلال کے سابق کھلاڑی نے اپنے ٹوئٹ میں ایک خالی اسٹیڈیم کی تصویر اپلوڈ کرتے ہوئے لکھا کہ  یہ اسٹیڈیم ہمیشہ آپ کو دیکھنے کے لئے ترس جائیں گے۔

واشنگٹن کے ادارے فریڈم ہاؤس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں 60 فیصد افراد انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں اس مہم کو پھیلانے میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

تازہ ترین