• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’آبادی کا بڑھتا دباؤ‘ سمجھ نہیں آتا کہ شہری مسائل کیسے حل ہوں گے؟

امتیاز متین

جب مسائل اور وسائل کا توازن برقرار نہ رہے تو وہی ہوتا ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے یا ہوتا آیا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی شہہ رگ ہے، جس کی آبادی صوبے جیسی ہے لیکن اس کے باوجود شہری مسائل اور وسائل کا عدم توازن ہر طرف نظر آتا ہے۔کراچی پر آبادی کا دباؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 

زیادہ آبادی کے نتیجے میں قومی آمدنی افراد کے بڑے حصے پر تقسیم کی جاتی ہے، چونکہ آس انبوہ کثیر میں ہر فرد کو ملازمت مہیا کرنا ممکن نہیں ہوتا . نتیجتا یہ بے روزگاری کا سبب بنتا ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے، اب دعویٰ کیا جانے لگا ہے کہ اس شہر میں لگ بھگ تین کروڑ افراد رہتے ہیں، تاہم یہ سب اس وقت تک قیاس آرائیاں ہی رہیں گی جب تک صحیح مردم شماری اور خانہ شماری نہیں کر لی جاتی اور اس کی ڈجیٹل میپنگ اور اس کا کراچی کی اصل منصوبہ بندی اور پرانے نقشوں سے موازنہ نہیں کر لیا جاتا۔ 

اس شہر کی حدود میں نمودار ہونے والے ہر گوٹھ کے تین سو سال سے زیادہ پرانا ہونے اور ہر کچی آبادی کے پچاس برس سے زیادہ پرانی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کراچی کے شہری مسائل کیسے حل ہوں گے؟ کیونکہ جب قانون کے محافظ اور قانون ساز اور شہر کا انتظام چلانے والے ہی مسائل پیدا کرنے کے ذمہ دار بن جائیں تو پھر شہر کے مسائل حل کیسے ہوں گے؟ ہر کوئی شہر کی خدمت کرنے کا دعوے دار ہے لیکن ہر کسی نے اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ 

دنیا تمام ترقی یافتہ ممالک میں بازار بھی آفس ٹائمنگ کے حساب سے کھلتے ہیں یعنی واشنگٹن ڈی سی جیسے اہم شہر میں بھی شام پانچ چھ بجے کے بعد سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ دکانیں اور کاروبار بھی کسی دوسرے دفتر کی طرح صبح آٹھ نو بجے کھلتے ہیں اور شام کو پانچ چھ بجے بند ہو جاتے ہیں اور جن دکانوں کو زیادہ دیر تک کھلے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں دوسری شفٹ میں لوگ کام کرتے ہیں۔

لیکن یہ کراچی تو اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی مثال بن چکا ہے۔ رشوت اور بدعنوانی کے جو سوتے اعلیٰ سطح پر پھوٹے تھے ان کے اثرات اب کراچی شہر کی سڑکوں تک پہنچ چکے ہیں۔ کراچی کی تقریباً ہر دکان میں فٹ پاتھ شامل کی جا چکی ہے۔ بلدیاتی اداروں کے اہلکار بھی پیسے پکڑ کر چشم پوشی اختیار کر لیتے تھے۔

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ کے ایم سی کے اہلکار دکانداروں کو حد سے تجاوز کرنے پر چالان بھی کیا کرتے تھے اور صدر سمیت شہر کے سارے بازار صبح نو بجے کھل کر رات آٹھ بجے سے پہلے بند ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن اب ایسی باتوں کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ 

تجاوزات کی بھرمار، غلط پارکنگ اور اپنی مرضی سے ون وے سڑک کو ٹو وے سڑک بنا لینے کی روش نے شہریوں کا سڑکوں پر چلنا مہال کر دیا ہے۔ٹھیلے، پتھارے اور تجاوزات کو محض غربت کی وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی لوگوں کو غربت یا کسی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

اس سے پہلے شہر میں کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے کا جرم کیا گیا ،جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی کی زمینوں پر قبضہ مافیا سرگرم ہوئے اور گرین بیلٹس، سڑکوں اور فلاحی پلاٹوں کی دوڑ شروع ہو گئی تھی، جس کا آخری نتیجہ ہم نے چائنا کٹنگ کی صورت میں دیکھا ہے۔ 

بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے خود ہی اپنی آبادی کی منصوبہ بندی کے پرخچے اڑا دیے، جس علاقے میں گراؤنڈ فلور کے اوپر دو منزلیں بنانے اجازت تھی وہاں چار اور پانچ منزلہ عمارتیں بن گئیں اور ہر منزل کو کم از کم دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس گھر پر سولہ یا اٹھارہ لوگوں کی آباد کاری کے حساب سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اس جگہ پر پچاس لوگ آباد ہوگئے، پانی، سیوریج، بجلی کے ساتھ ساتھ پارکنگ کے مسئلے بھی اٹھنے لگے۔ شہر میں ایسی غیر قانونی تعمیرات کی حوصلہ شکنی بھاری جرمانوں اور بھاری سالانہ ٹیکس عائد کر کے کی جا سکتی ہے۔

کراچی شہر کے بگاڑ میں اس صوبے کے قانون ساز اداروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے ، انہوں نے یہ حق تسلیم کر لیا کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری و غیر سرکاری زمین پر قبضہ کرکے اپنا گھر بنا لے تو اسے پانی، بجلی اور گیس فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ 

درحقیقت حکومت کی ذمہ داری اپنے لوگوں کو معیاری طرز زندگی فراہم کرنا ہے، کچی آبادیاں بنانے اجازت دینا نہیں، نہ جانے حکومت سندھ اور شہری انتظامیہ کی کون سی مجبوریاں ہیں جو اس نے کراچی کے اردگرد نئی سرکاری ہاؤسنگ اسکیموں کا آغاز کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آج کراچی کی آبادی جتنی بڑھ چکی ہے، لگتا یہ ہے کہ اس شہر کو سدھارنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

دنیا کے مہذب ملکوں میں شہر میں نووارد افراد کی ٹاؤن کونسل میں رجسٹریشن ہوتی ہے کیونکہ ٹاؤن کونسل اپنی حدود میں بسنے والوں کو شہری سہولتیں دینے اور ان سے کونسل ٹیکس لینے کی ذمہ دار ہوتی ہے اور ایک طرح سے آبادی کو ایک حد میں رکھتی ہے ۔ 

حد تو یہ ہے کہ یہاں پولیس کو بھی معلوم نہیں ہے کہ کون کہاں سے آکر کس جگہ رہنے لگا ہے، اس کا کسی جرائم پیشہ یا دہشت گرد گروہ سے تعلق تونہیں ہے۔ آبادی کے بڑھتے دباؤ کے باعث نہ صرف پرانے مسائل سنگین صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں بلکہ جرائم کی شرح میں برق رفتار اضافے نے بھی شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن شہر میں گنتی کی چند شاہراہیں ہیں جن پر لاکھوں گاڑیاں سفر کرتی ہیں۔ ہمیں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں سے تھوڑی بہت شکایات ضرور ہیں لیکن اتنے مشکل حالات میں ٹریفک کو رواں رکھنا ان کا ہی کام ہے۔ اس لیےان مصائب سے نمٹنے کے لئے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے اقدامات کیے جانے چاہئے۔

تازہ ترین