• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

محدّث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے 1908ء کو پشاورکے مضافات کی ایک بستی مہابت آبادضلع مردان کے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔آبائی وطن کے لحاظ سے آپ ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے ایک قصبہ’’بنور‘‘سے تعلق رکھتے تھے،آپ کاسلسلۂ نسب طریقۂ صوفیاء کے مشہوربزرگ ،مجددالف ثانی ؒکے خلیفہ اجل شیخ سیدآدم بنوریؒ کی وساطت سے سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے۔آپ نے ازہرہنددارالعلوم دیوبنداورجامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں اپنے وقت کے مشاہیراہل علم سے تعلیم حاصل کی،آپ علوم انورشاہ کشمیریؒ کے سب سے بڑے امین تھے۔1951ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے۔ہندوپاک کے ممتازدینی اداروں میں آپ نے خدمات انجام دیں اورشیخ الحدیث کے منصب پرفائز رہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کوہراسلامی علم وفن میں مہارت،مکمل دسترس اور اونچا مقام بلکہ منصب امامت عطافرمایاتھا،شایدہی کوئی ایساعلم ہو،جس پرآپ کوعبور حاصل نہ ہو۔برصغیرکے تمام چوٹی کے علماء اورممالک اسلامیہ کی مذہبی وسیاسی شخصیات آپ کے علم وفضل،وسعت مطالعہ، دقّتِ نظراورخدمت دین کی معترف تھیں۔

حضرت علامہ بنوریؒان عظیم تاریخی شخصیتوں میں سے ایک تھے جوقوموں کی تاریخ میں اہم رول اداکرتی اوراپنے شاندارتاریخی کارناموں کی وجہ سے تاریخ میں بلندواعلیٰ مقام پاتی ہیں،جنہیں اقوام اپنے لئے سرمایۂ عزوافتخار سمجھتی اوران کے تعلق پرفخرونازکرتی ہیں،اورجن کے کام ونام ہمیشہ تاریخ میں روشن وتابندہ رہتے اورقومیں ان سے روشنی وہدایت حاصل کرتی اوران کی یادکوہمیشہ تازہ رکھتی ہیں۔

حضرت بنوریؒ مسلسل نصف صدی تک علم دین کی نشرواشاعت میں مشغول اورمختلف فتنوں کے خلاف نبردآزمارہے۔حضرت علامہ بنوریؒعلم حدیث میںبہت اونچامقام رکھتے تھے،حدیث کے اسرارورموزسے خوب واقف اوراس موضوع پران کامطالعہ بہت وسیع ومتنوع تھا،حدیث شریف کی مشہورکتاب ترمذی شریف کے ایک تہائی حصہ کی نہایت ہی جامع وبلیغ شرح ’’معارف السنن‘‘تین ہزارسے زائدصفحات میں لکھی۔

آپ تحریرکے میدان میں یکتائے زمانہ تھے،عربی و اُردو دونوں میں اچھوتا و منفرد اسلوب تحریراختیارفرماتے تھے،آپ کی اکثرتصانیف عربی میں ہیں جوعربی ادب کابہترین شاہ کارہیں،آپ کی عربیت کے سامنے اہل عرب بھی سرخم تسلیم کرتے اورآپ کی تحریریںپڑھ کرمحوحیرت ہوجاتے تھے،اوربرملااس کااعتراف کرتے تھے کہ ایک عجمی شخص عربی ادب میں اس قدرمہارت رکھتاہے جس سے بیشتراہل عرب بھی عاجزہیں۔

آپ کاسب سے بڑاعلمی کارنامہ اورصدقہ جاریہ’’جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن‘‘ہے ،جس کی بنیادآپ نے1953ء میں نہایت ہی اخلاص اورکامل توکل پررکھی،اس ادارے نے پاکستان کے مذہبی تشخص کواندرون وبیرون ملک نہایت روشن کیا،یہاں سے ہزاروں علمائے کرام،مفتیان عظام، حفاظ، قراء، خطباء، مبلغین،مصنفین پیداہوئے،جوآج دنیاکے کونے کونے میں قرآن وسنت کی خدمت میں مشغول ہیں،شایدہی دنیاکاکوئی ایساملک ہو،جہاں آپ کے تلامذہ یافیض یافتہ اسلام کی خدمت میں مشغول نہ ہوں۔

اس ادارے نے خدمت دین،احیائےدین اوربقائے دین کی وہ خدمات انجام دیں جن کی بناءپراسےازہرپاکستان کادرجہ دیناہی قرین انصاف ہے۔یہاں سے محب دین،محب وطن افرادکی وہ کھیپ تیارہوئی جس نے اپنی جان کی قربانی دےکر دین کی شمعیں بلندکیں،دسیوں چوٹی کے علماء دین کی خاطرراہ حق میں اپنی جان دےکرقافلہ شہداء میں شامل ہوئے۔اسی ادارے سے وابستہ بلند پایہ اہل علم سالہاسال تک موقرروزنامہ’’جنگ‘‘کے اقرأ صفحے پردنیابھرکے مسلمانوں کے مسائل کاحل اسلام کی روشنی میں پیش کرتے رہے اور الحمدللہ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

حضرت علامہ بنوری ؒکے حسن عمل اوراخلاص وتدبرکی بدولت برصغیرمیں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پرقادیانی فرقہ غیرمسلم اقلیت قرارپایا، 1974ء میں اسی عبقری شخصیت کو تحریک ختم نبوت کاقائدمنتخب کیاگیا،آپ کوجماعت کی زمامِ قیادت سنبھالے ابھی دومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ ربوہ اسٹیشن کا سانحہ رونماہوا،آپ نے مذکورہ واقعے کے بعدامت مسلمہ کومتحدکرنے کے لئے دن رات ایک کردیئے،آپ کی انتھک محنت ،کوشش، جدوجہد اورقربانیوں کے بعدبالآخر7ستمبر1974ء کو قادیانیوں کو سرکاری سطح پر خارج ازاسلام قراردیاگیا۔

آپ نے اپنے ادارے سے ایک مجلہ ماہنامہ ’’بینات‘‘بھی جاری فرمایا،جودینی صحافت کاایک شاہ کار ہے،جس نے دین اسلام کی مدافعت اوراعدائے اسلام کی سازشوں کے خلاف گراںقدرصحافتی خدمات انجام دیں،اورنصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجودآب وتاب سے مسلسل شائع ہورہاہے۔

آپ کوحرمین شریفین سے والہانہ عقیدت ومحبت بلکہ عشق تھا،اسی بنا ءپررمضان المبارک کے عمرے اوراخیرعشرہ میں مسجدنبوی کے اعتکاف کادسیوں سال معمول رہا۔آپ اعلیٰ مناصب وعہدوں پربھی فائزرہے،جن میں سے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل(انڈیا)،مجلس علمی ڈابھیل،تحریک ختم نبوت، جمعیت علمائے سرحد،وفاق المدارس پاکستان کی صدارت آپ کے سپرد رہی، اسی طرح بلاد عربیہ میں مجلس علمی دمشق،مجمع البحوث الاسلامیہ قاہرہ اور پاکستان میں آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے۔

آپ کی فکرکاافق بین الاسلامی بلکہ بین الاقوامی تھا،مسلمانوں کے مسائل سے دل چسپی تھی،ان کی دینی ودنیاوی ترقی سے خوش ہوتے اور تنزل وکمزوری کی خبریں سن کررنجیدہ وغمگین ہوتے،اسی سوچ کے تحت آپ نے دینی، دعوتی اورتبلیغی مقاصدکے لئے مختلف ممالک کے سفرفرمائے۔خلاصہ یہ ہے کہ حضرت بنوریؒ کی شخصیت اپنے ظاہری وباطنی اوصاف وکمالات اوراپنے معنوی وصوری محاسن وفضائل کے لحاظ سے واقعی اورصحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی شخصیت تھی،جس کی مثالیں تاریخ میں خال خال ہی ملتی ہیں،بلاشبہ اللہ نے اپنی خاص عنایات کے تحت آپ کی ذات گرامی کے اندربہت سے وہ فضائل ومحاسن یکجاجمع فرمادیئے تھے جو شاذونادرہی کسی شخصیت میں جمع ہوتے ہیں۔

17؍اکتوبر1977ء کویہ سچاعاشق رسول،اقلیم علم کاتاجدار،حریم نبوت کاپاسبان،حسینی خانوادہ کاچشم وچراغ دنیاکے افق سے غروب ہوگیا۔آپ کی نمازِ جنازو حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ ڈاکٹر مولانا عبدالحی عارفی رحمہ اللہ کی اقتدامیں اداکی گئی اورجامعہ علوم اسلامیہ کراچی کے مغربی حصے میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

تازہ ترین