• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:۔ کیا فرماتے ہیں فقہائےکرام اس صورت میں کہ اگر ولی راضی نہ ہو، مگر لڑکا لڑکی راضی ہوں، وہ زندگی ساتھ گزارنا چاہتے ہوں تو کیا اُن کا نکاح جائز ہے؟ لڑکی کے والد اس کی شادی کسی مال دار شخص سےکرانا چاہتے ہیں، دین دار لڑکے سے نہیں۔(فاطمہ، کراچی)

جواب:۔ شريعت نے نکاح کے معاملے میں عورت کو نہ بالکل بے اختیار بنایا ہے اور نہ ہی مکمل آزادی دی ہے، بلکہ معاملہ معتدل رکھا ہے کیونکہ جس طرح عورت کو اس کے جائز حقوق نہ دینا ظلم ا ور جور ہے، اسی طرح اسے اولیاء کی نگرانی سے بالکل آزاد کردینا بھی بہت سے فتنوں اور مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔

ان دونوں کے پیش نظر ولی کو حکم ہے کہ وہ شادی کرتے وقت لڑکی کے جذبات اور خواہش کا احترام کرے اور رشتہ تلاش کرنے میں دین داری کو ترجیح دے، دوسری طرف لڑکی کو بھی چاہیے کہ وہ والدین تک اپنی خواہش تو پہنچادے ،لیکن اپنی رائے اور خواہش پر والدین کی صواب دید کو ترجیح دے، کیونکہ ان کی شفقت زیادہ ،عقل کامل اورتجربہ وسیع ہوتا ہے، اورجو لڑکیاں والدین کی خواہش کونظراندازکرکےاپنا نکاح خود کرلیتی ہیں،وہ شرافت وحیاکے تقاضوں کو بھی روند دیتی ہیں اور آئندہ زندگی میں بھی انہیں بے شمار مشکلات اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے برعکس جو لڑکیاں والدین کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ان کے فیصلے کو دل سے قبول کرلیتی ہیں تو حق تعالیٰ شانہ ان کے لیے برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اس ضروری وضاحت کے بعد اگر عاقلہ ، بالغہ لڑکی اپنا نکاح خود کرلے تو اس کی دو صورتیں ہیں : ایک صورت تو یہ ہے کہ لڑکا اس کے جوڑ کا ہے، تب تو نکاح درست ہے اور اگر لڑکی نے ایسا قدم اٹھالیا ہے تو والدین کو بھی اس پر راضی ہوجانا چاہیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لڑکا اس کا ہم پلہ نہیں ہے ،اس صورت میں ولی کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (رد المحتار۔3 / 84،55)

تازہ ترین