• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آمنہ خورشید

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے بلّے پنٹو کی جسے اونچی اونچی چھلانگیں لگانا بہت پسند تھا۔ کبھی وہ برگد کے پیڑ کی سب سے اونچی شاخ پر چڑھ جاتا اور گھاس پر کود جاتا۔ ماما مانو ہائیں ہائیں کرتی رہتیں لیکن پنٹو کو ذرا بھی ڈر نہیں لگتا تھا۔

آج ماما مانو پنٹو کو کیلے کے درخت پر چڑھنا سکھا رہی تھیں۔’’یہ دیکھو! پہلے چھوٹی شاخ پر پاؤں رکھ کر زور ڈالو، پھر اس سے اونچی والی شاخ پر چڑھ جاؤ اور پھر ایسے پاؤں رکھ کر نیچے جھانکو۔‘‘ ابھی وہ بتا ہی رہی تھیں کہ پنٹو بہت اوپر چڑھ گیا۔

’’پنٹو! نیچے آجاؤ۔ ابھی آپ اتنی اونجی چھلانگ نہیں لگا سکتے۔‘‘ اسکی ماما نے آواز دی۔

لیکن پنٹو نے ایک نہ سنی اور دھڑام سے نیچے کود پڑا۔’’آہ۔۔۔ آہ‘‘ یہ کیا! اوہ خدایا! پنٹو کا ایک پاؤں بری طرح مڑ گیا تھا۔ ماما مانو تیزی سے نیچے آئیں اور اسے اٹھا کر گھر لے گئیں۔ کئی دن تک پنٹو ٹھیک طرح سے نہ چل سکا۔

ایک دن پنٹو بھالو میاں کی دکان سے سودا لینے جا رہے تھے۔ ماما مانو نے دودھ کے پیکٹ سویاں اور بادام منگوائے تھے۔ بھالو میاں نے سب سامان ایک بڑے سے تھیلے میں رکھا اور مضبوط گرہ لگا دی۔ پھر انہوں نے پنٹو سے کہا،"پنٹو بیٹے! اچھلتے کودتے نہیں جانا ورنہ دودھ کے پیکٹ پھٹ جائیں گے۔"

"جی انکل ٹھیک ہے۔" پنٹو نے کہا اور تھیلا اٹھا کر چل پڑا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں اس کا دوست مل گیا۔ یہ ٹونو تھا ایک ننھا سا بندر۔

"پتاہے پنٹو! یہ والا جو کیلے کا درخت ہے ناں میں تو وہاں سے بھی چھلانگ لگا لیتا ہوں۔ یہ چھلانگ مجھے میرے بھائی جان نے سکھائی ہے!" ٹونو نے بتایا تو پنٹو نے بھی سر اٹھا کر کیلے کے درخت کو دیکھا۔ وہ واقعی بہت اونچا تھا۔

"اچھا یہ بات ہے۔ یہ چھلانگ تو میں بھی لگا لوں۔" پنٹو نے جوش سے کہا اور جھک کر تھیلا گھاس پر رکھا۔ پھر وہ تیز تیز کودتا ہوا درخت پر چڑھ گیا۔

"ایک! دو! اورتین" ٹونو چلایا ،اس کے تین کہتے ہی پنٹو نے چھلانگ لگا دی۔ یہ دیکھے بغیر کہ نیچے اس کے سامان والا تھیلا پڑا ہوا تھا۔ پنٹو جب تک تھیلے پر سے اٹھ کر کھڑا ہوا ،تب تک ایک پیکٹ پھٹ گیا تھا اور دودھ سویوں اور بادام کو بگھو چکا تھا۔"اوہ ۔۔ اوہ۔۔ یہ میں نے کیا کیا؟" پنٹو پریشانی سے چلایا۔

ٹونو تو اس کے چھلانگ لگاتے ہی بھاگ گیا تھا۔

"اب کیا کروں؟" وہ کچھ دیر اداسی سے کھڑا سوچتا رہا، پھر اس نے دودھ کے باقی دونوں پیکٹ ہاتھ میں پکڑے۔ گیلے بادام چن کر مٹھی میں دبائے اور گھر کی طرف چل دیا۔

ماما مانو نے جب سامان کا یہ حشر دیکھا تو انہوں نے پنٹو کو خوب ڈانٹا۔ پورے دو دن تک پنٹو کا گھر سے نکلنا بند ہو گیا۔

اور ننھے منے پنٹو نے کپڑوں کی الماری پر بیٹھ کر خوب سوچا۔ کاش میں جوش میں نہ آتا تو سامان خراب ہوتا نہ ماما ناراض ہوتیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! شوق پورا کرنا اچھی بات ہے لیکن اگر اس سے آپ کا اور آپ کی چیزوں کا نقصان ہو یا بڑے ناراض ہوجائیں تو پھر یہ اچھی بات نہیں۔ اپنا خیال رکھیں اور اپنے امی ابو کی خوشی کا خیال رکھیں۔ اس سے اللہ پاک خوش ہوتے ہیں۔

تازہ ترین