• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’زرعی کرپشن‘ ناقص بیج اور جعلی ادویات، فصلیں تباہ و برباد

پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق یہاں کی معیشت کا 80٪ فیصد حصہ زرعی پیدوار پر مشتمل ہے، اسی طرح ہی صوبہ سندھ میں بھی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر منحصر ہےقیام پاکستان کے بعد آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر عوام کی غذائی کفالت کرنے کے لیےحکومت، کاشتکاروں اور کسانوں کی جانب سے زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی، جدید ہائبرڈ اجناس کے بیج، کھاد اور زرعی ادویات کا استعمال شروع کیاگیا ، جس سے اجناس کی پیدواربڑھانے میں مدد ملی۔ 

زرعی اجناس جہاں ملکی آبادی کی غدائی ضرورتیں پورا کرنے کا سبب بنیں، وہیں برآمدات کے ذریعے ملکی ریونیو کے اضافے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوئیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہرطرف کرپشن کا دوردورہ ہے جس سے زراعت کا شعبہ بھی محفوظ نہ رہ سکا اور ملکی زراعت کی تباہی و بربادی کا باعث بن گیا۔

زرعی مارکیٹوں میںفروخت کیے جانے والےاجناس کے بیجوں سے لے کر کھاد اورزرعی ادویات فروخت کرنےوالے تاجروں نے محض لالچ اور ناجائز منافع خوری کے چکر میں انتہائی غیر معیاری، دو نمبر اور فصلوں کے لئے مضر ترین اثرات رکھنے والے نقلی بیج، کھاد اور زرعی ادویات فروخت کرنا شروع کردی ہیں جب کہ محکمہ زراعت کے افسران ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

ناقص بیجوں اور ادویات بنانے والی کمپنیاں مشہور برانڈز کی نقل تیار کرکے نت نئے ناموں سے مارکیٹ میں پھیلا رہے ہیں، جب کہ محکمہ زراعت کے حکام اس کاروبار سے اپنا حصہ وصول کرکے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے زراعت تبای کے دہانے پر پہنچ چکی ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ 

اس قسم کی صورت حال کا سامنا گڑھی خیرو سمیت شمالی سندھ کے اکثر اضلاع جن میں جیکب آباد ،،قمبر،شہدادکوٹ، لاڑکانہ، کشمور، شکارپور اور سکھر کے علاکو زیادہ ہے جہاںکے باشندوں کی گزر بسر کا زیادہ تر انحصار زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ لوگوں کے پیٹ پالنے کا ذریعہ کاشت کاری پر منحصر ہے اور زیادہ تر کاشت کار دھان یعنی (چاول) کی کاشت کرتے ہیں۔

زراعت کے لیے قدرتی عوامل، وسائل اور زرخیز زمین میسر ہونے کی وجہ سے کچھ عشرے قبل تک پاکستان میں زراعت کا شعبہ انتہائی عروج پر تھا اور ہمارا ملک دنیا کے کئی ممالک کی غذائی ضرورتیں پوری کرتا تھا لیکن جب سے محکمہ زراعت میں کرپٹ عناصر کی اجارہ داری ہوئی ہے ہمارے ملک کو غذائی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کی زرعی مارکیٹوں میں چائنا سے سے درآمد شدہ ہائبرڈ بیجوں کے آنے کے بعد زیادہ تر کاشت کاروں نےاضافی پیداوار اور منافع کے لالچ میںاس کا استعمال شروع کردیا ہے۔

چین سے دھان سے لے کر ، گندم اور سرسوں تک کے ہائی برڈبیج درآمد ہوتے ہیں، اسی وجہ سے زرعی اجناس کی کاشت کےساتھ ساتھ ان کی نشوونما کی ضرورتوں کے پیشِ نظر درآمد شدہ شدہ کھاد اور زرعی ادویات کے استعمال میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کاشت کاروں میں مذکورہ زرعی اشیاء کی مانگ بڑھنے کے ساتھ جعل ساز اور نقلی اشیاء بنانے کے ماہرین بھی سرگرم عمل ہوگئے ہیں جنہیں مبینۃ طور سے زررعی حکام کی آشیرواد حاصل ہے۔

انہوں نے چائنا کے ہائبرڈ بیجوں کے نام پر مقامی طور پر غیر معیاری اور ملتے جلتے ناموں والی زرعی اجناس اور زرعی ادویات خوبصورت اور دیدہ زیب پیکنگ میں پیک کرکے مارکیٹ میں پھیلادی ہیں،جن کی تشہیر پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی ادویات اور کھاد کے ڈیلروں سے گٹھ جوڑ کے ذریعے انہیں بھاری منافع اور غیر ممالک کے ٹور پیکیجز کا لالچ دے کر فروخت کے لیے دی جارہی ہیں۔اس صورت حال کی وجہ سے کاشت کاروں کو زرعی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو بھی بھاری نقصان کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔

موجودہ سیزن میں نئی فصل تیاری کے تمام مراحل طے کرنے کے باوجودبہتر پیداوار کے بجائے اکثر دھان کی فصل کے خوشے چاول کے بجائے خالی نظر آتے ہیں، جسے مقامی لوگ پاپڑی بھی کہتے ہیں۔ جعلی زرعی ادویات اور ناقص کھاد کی وجہ سے فصلوں کو مختلف النوع بیماریوں نے بھی گھیر لیا ہے۔مقامی کاشتکاروں کے مطابق فصلوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے جو بھی زرعی ادویات یا اسپرے استعمال کرتے ہیں، اس سے فائدہ ہونے کے بجائے فصلیں دن بدن مزید تباہ ہو رہی ہیں۔ 

مختلف کمپنیاں ہائی برڈ بیج کہہ کرپہلے مہنگے داموں جعلی بیج فروخت کرتی ہیں پھر فصل کی بہتر نشوونما کے نام پر مختلف ناموں سے جعلی زرعی ادویات کے ذریعے کاشت کاروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں، اس کی وجہ سے ایک طرف تو زرعی پیداوار دن بدن کم جب کہ فصلوں پر ہونے والے مصارف بڑھتے جارہے ہیں، تو دوسری جانب قابلِ کاشت زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہورہی ہے۔

انہی اسباب کی وجہ سے کاشت کاراور کسان، زرعی شعبے سے مایوس ہوکر اپنے آبائی پیشے کو خیر باد کہہ کر اقنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کے حصول کی خاطر بڑے شہروںکی جانب ہجرت کررہے ہیں جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ملک کےعوام کی غذائی ضرورتیں پوری کرنے میں حکومت کو شدید دشواریوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین