• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمانہ تیزی سے ترقی کررہا ہے، ہر کام کیلئے مشینیں اور کمپیوٹرز آ چکے ہیں تو بھلا تعمیراتی صنعت پیچھے کیسے رہ جاتی۔ ا س سے قطع نظر کہ انسانی راج مستریوں کے روزگار کا کیا ہوگا اور بے روزگاری کس قدر پھیلے گی، یہ حقیقت ہے کہ روبوٹس سے نہ تو آپ کو معاوضے کیلئے گفت و شنید کرنی پڑے گی اور نہ ہی ان کے کھانے پینے یا تیز دھوپ میں کام نہ کروانے کا خیال رکھنا پڑے گا۔ 

ہر شعبے کی طرح تعمیراتی صنعت میں بھی روبوٹکس ٹیکنالوجی کی آمد نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے، جس کے باعث صنعتکار روبوٹس کو افرادی قوت کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ ہی نہیں رہے بلکہ استعمال بھی کررہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے متعلق ماہرین پیش گوئی کرتےرہے ہیں کہ ایک روبوٹ 100 مزدوروں کے برابر اینٹوں کا بھاری بوجھ اٹھائے گا۔ اس حقیقت کی عملی تصویر بھی اب ہمارے سامنے آگئی ہے اور اب روبوٹس مستری دیواریں اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں تحقیق کے حوالے سے مشہور فرم ٹریکٹیکا کی رپورٹ ’’کنسٹرکشن اینڈ ڈیمولیشن روبوٹکس‘‘ کے مطابق 2018ء میں کنسٹرکشن روبوٹکس کی آمدنی 22.7ملین ڈالرتھی، جو 2025ء میںبڑھ کر 226ملین ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ اس فرم کا مزید کہنا ہے کہ تعمیرات کرنے اور عمارتوں کو ڈھانے کیلئے اس عرصے میں 7ہزار سے زائد کنسٹرکشن روبوٹس اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں گے۔ ا س میں سب سے بڑا ایریا یونٹ شپمنٹ کاہے، جو کنسٹرکشن سائٹس پر روبوٹس کی مدد کیلئےاستعمال ہوگااور اس کے بعد انفرااسٹرکچر روبوٹس، اسٹرکچر روبوٹس اور فنشنگ روبوٹس کی باری آئے گی۔

ٹریکٹیکا کے سینئر تجزیہ کار گلین سینڈرس کا کہنا ہے،’’کنسٹرکشن روبوٹک انڈسٹری کے اس ابتدائی مرحلے پر کچھ کمپنیاں فروخت اور لیز کیلئے پروڈکٹس آفر کر رہی ہیں۔ اس وقت روبوٹس کی جوکیٹیگریز دستیاب ہیں، ان میں عمارتوں کو زمین بوس کرنے، اینٹیں لگانے، ڈرلنگ کرنے، تھری ڈی پرنٹنگ اور ریبر ٹائینگ (سریوں کی باڑھ یا بار بنانا) والے روبوٹس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایگزواسکیلیٹن (Exoskeletons)اور لوڈ اٹھانے والے اسسٹنٹ روبوٹس کی کچھ اقسام بھی موجود ہیں‘‘۔

گلین مزید کہتے ہیں کہ درمیانی اور بڑی سائز کی تعمیراتی کمپنیاں ان روبوٹس کی تلاش میں ہیں، جو مزدوروں کی کمی، تحفظ، رفتار، درستگی و بلڈنگ آٹومیشن اور بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ (BIM)سسٹمز کے ساتھ اس کی سالمیت جیسے مسائل کو حل کریں۔

ٹریکٹیکا کی یہ رپورٹ 2018ء سے 2025ء تک مارکیٹ میں شپمنٹ اور ریوینیو کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے 28اہم کمپنیوں کی پروفائلز بھی سامنے لاتی ہے۔ ایک کمپنی براہ راست انڈسٹری کے60خصوصی پلیئر ز کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔

رواں سال کے آغاز میں ٹرانسپرنسی مارکیٹ ریسرچ نے 2026ء تک کنسٹرکشن روبوٹ مارکیٹ470.61ملین ڈالر تک پہنچنے کی پیش گوئی کی تھی، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ 2018ء سے 2026ء تک سالانہ گروتھ ریٹ 10.4فیصد تک رہے گا اور اس میں بھی عالمی سطح پر ایشیا پیسیفک مارکیٹ قیادت کررہی ہوگی۔

جہاں تک روبوٹکس کی بات ہے، کنسٹرکشن کمپنیاں تعمیراتی علاقوں میں فضائی ڈرونز اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سوفٹ ویئرز استعمال کررہی ہوں گی، جس سے ان کی تجزیاتی اور آپریشنل کارکردگی مزید بڑھ جائے گی۔

اس وقت اگر ہم انڈسٹری میں روبوٹس کے استعمال کی بات کریں تو سعودی عرب نے گذشتہ سال ایک آسٹریلوی کمپنی سے معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت فاسٹ برک روبوٹکس (Fastbrick Robotics)کمپنی مکانات کی تعمیر میں مدد دینے والے 100روبوٹس فراہم کرے گی۔ سعودی حکومت آئندہ پانچ سال کے دوران 15لاکھ گھر تعمیر کرے گی، جن کی لاگت کا تخمینہ 100ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اسی طرح جاپان میں بھی روبوٹس بہت تیزی سے انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ 

اس کی ایک سماجی وجہ یہ بھی ہے کہ جاپان میں روبوٹس بہت پسند اور قبول کیے جاتے ہیں۔ جاپان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ انڈسٹریل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (اے آئی ایس ٹی) کے ماہرین نے بڑی مہارت سے ایک انسان نما مزدور روبوٹ تیار کیا ہے، جو تعمیراتی کام کرسکتا ہے۔ اس نئے روبوٹ کو ’ایچ آر پی فائیو پی‘ کا نام دیا گیا ہے، جس میں موٹروں اور ایکچوایٹرز کا اضافہ کرکے اس میں لچک لائی گئی ہے۔ 

اگرچہ اس کا کام سست ہوتاہے لیکن اس میں غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔اس سے یہ امکان ضرور پیدا ہوا ہے کہ اگلے چند برس میں روبوٹ مستری ہمیں تعمیراتی عمل میں عام دکھائی دینے لگیں گے۔

تازہ ترین