• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوسلو: نارویجن پاکستانی ادیب کے ناول ’نکا‘ کی تعارفی تقریب

نارویجن پاکستانی ادیب انیس احمد کا چولستان پر ناول ’نکا‘ شائع ہوگیا ہے، جس کی تعارفی تقریب اوسلو میں منعقد کی گئی۔

ممتاز نارویجن پاکستانی ادیب و دانشور انیس احمد کا پاکستان کے صحرائے علاقے چولستان پر ناول ’نکا‘شائع ہوگیا ہے۔ ناول کی تعارفی تقریب دارالحکومت اوسلو میں سماجی تنظیم پاکستان فیملی نیٹ ورک کے زیر اہتمام گزشتہ روز منعقد ہوئی۔ اس موقع پر متعدد نارویجن پاکستانیوں بالخصوص ادب سے دلچسپی رکھنے والی شخصیات کی کثیر تعداد موجود تھی۔

تقریب کے منتظم اور فیملی نیٹ ورک کے عہدیدار نثار بھگت نے شرکاء کا خیرمقدم کیا اور نقابت کے فرائض یاسمین مجاہد نے انجام دیئے۔

تقریب کے آغاز ہی میں اسی ہفتے وفات پانے والے پیپلز پارٹی ناروے کے جنرل سیکرٹری اور راولپنڈی، اسلام آباد ویلفیئر سوسائٹی ناروے کے صدر اور بہت ہی متحرک سماجی شخصیت مرزا محمد ذوالفقار کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

ویژن فورم ناروے کے سربراہ ارشد بٹ نے مرحوم مرزا ذوالفقار کی بیش بہا سماجی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ مرحوم مرزا ذوالفقار ہمیشہ ناروے میں پاکستانیوں کی فلاح و بہبود اور پاکستان میں ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے سرگرم رہے۔

انیس احمد کے ناول ’نکا‘ کے تعارف کے سلسلے میں ناول کے پہلے مضمون کے کچھ اقتباسات اردو و پنجابی کے ممتاز شاعر خالد تھتھال نے پیش کیے۔ کہنہ مشق ادیب و دانشور مسعود منور نے انیس احمد کے بارے میں تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ صحافت سے سبکدوش ہونے کے بعد انیس احمد کس طرح ادب کی طرف راغب ہوئے اور اپنے پہلے ناول ’جنگل میں منگل‘ کے بعد اب ’نکا‘ کے عنوان سے اردو ادب کو ایک اور اعلیٰ معیار کا ناول فراہم کیا ہے۔

تقریب کے دوران پاکستانی نژاد نارویجن اداکار و ہدایت کار ٹونی عثمان اور پاکستانی اداکارہ ارم حسن نے ناول ’’نکا‘‘ کے کچھ حصے ڈرامائی انداز میں پڑھ کر شرکاء کو سنائے۔

اختتام پر نارویجن ٹی وی ’’این آر کو‘‘ کے پاکستانی نژاد صحافی اور انعام یافتہ دستاویزی فلمساز عطاء انصاری کو انیس احمد کے ساتھ مکالمے کی دعوت دی گئی۔

عطا انصاری نے بتایا کہ انہوں نے انیس احمد کی دعوت پر’’این آر کو‘‘ کی اردو سروس سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ اس طرح انیس احمد ان کے استاد اور رہنماء بھی ہیں۔

اوسلو میں مقیم اردو کے ممتاز شاعر و دانشور سید حیدر حسین نے ناول ’’نکا‘‘ کو اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ناول ’’نکا‘‘ سماج سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک مکمل کہانی ہے جس کے سب کردار معاشرے کی اساس سے جڑے ہوئے ہیں۔

بقول ان کے، اس ناول کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے اسے اردو کے دس بہترین ناولوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ممتاز دانشور سید مجاہد علی نے کہا کہ ناول نگار انیس احمد نے صحافت اور ادب دونوں شعبوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے اور پوری دیانتداری سے ان شعبوں کے فروغ کے لیے کوشش کی ہے۔

پاکستانی نژاد بیوروکریٹ راحیلہ کوکب اور ہندوستانی نژاد مترجم و صحافی آستری گھوش نے بھی انیس احمد کی ادبی و صحافتی خدمات کو سراہا۔

انیس احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ادب سے ان کا تعلق بچپن سے ہے تاہم عملی شعبہ صحافت سے فارغ ہونے کے بعد انہیں ادب میں مزید کام کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔

اپنے ناول کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ چولستان کے بارے میں ان کے مشاہدات، معلومات اور ارتباط کی وجہ سے انہیں اس ناول کے کردار تلاش کرنے اور انہیں ایک کہانی کی صورت میں پیش کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اس ماحول اور معاشرے کو موضوع بنایا ہے جس کے بارے میں انہیں بہتر اور براہ راست معلومات حاصل تھیں۔ اس کے علاوہ وہ چونکہ اردو میں لکھتے ہیں ، بحیثیت ایک ادیب اس لیے برصغیر کے اس روایتی خطے کے پس منظر پر کہانی استوار کرنا ان کے لیے ایک فطری تقاضا بھی تھا۔

جس طرح ناول کے عنوان ’’نکا‘‘ سے ظاہر ہے، اس ناول میں چولستان کے معاشرے میں پیدا ہونے والے ایک بچے کا کردار ادبی مہارت سے پیش کیا گیا ہے اور اسی کردار سے جڑے ہوئے کچھ دیگر کردار مثلاً بچے کی ماں، دادی اور جاگیردار وغیرہ بھی اس ناول میں موجود ہیں جو اس روایتی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔

نسل در نسل استحصال کے ساتھ ساتھ چولستان کے معاشرے میں خاص طور پر تقسیم ہند سے قبل مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آپس میں رواداری اور قربت کو بھی دکھا گیا ہے۔

تقریب کے دوران وضاحت کرتے ہوئے یاسمین مجاہد نے بتایاکہ اس لڑکے (نکے) کی زندگی میں آنے والی تین خواتین یعنی اسکی ماں، دادی اور معشوقہ کے کردار ناول کی کہانی پر چھائے ہوئے ہیں۔

یہ نسوانی کردار چولستان کی قدیم روہی سماج کا حصہ ہیں جن کی زندگیاں غلامی، غربت اور مشکلات میں گزرتی ہیں لیکن پھر بھی ان میں حوصلہ ، خودداری اور عزت نفس کی جو پائیدار خصلتیں پائی جاتی ہیں، وہ جدید معاشرے کی عورت کے لئے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ ستر کی دہائی کے اواسط میں تعلیم کی غرض سے پاکستان سے ناروے ہجرت کرنے کے بعد انیس احمد کافی عرصہ ناروے کے قومی نشریاتی ادارے ’’این آر کو‘‘ سے وابستہ رہے اور خاص طور پر اس ادارے کی اردو سروس کے معیار کو بہتر کرنے میں ان کا کردار نمایاں رہا۔

اس پروقار تقریب کا آخری مرحلے میں پاکستان فیملی نیٹ ورک کی طرف سے ناول کے مصنف اور تقریب کے مہمان خصوصی انیس احمد کو سندھی اجرک پیش کی گئی۔ اختتام پر پاکستانی روایتی ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

تازہ ترین