• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم خان

ہم اپنے آس پاس کی بہت سی حقیقتوں سے آنکھیں چُرا لیتے ہیں، یا پھر یہ کہ اُن کا سِرے سے نوٹس ہی نہیں لیتے، حالاں کہ اُن میں سے کئی ایک معاشرے کو دیمک کی مانند چاٹ رہی ہوتی ہیں۔ ایک ایسی ہی خوف ناک اور اذیّت ناک حقیقت، سڑکوں کے کنارے یا بس اسٹاپس سے ہٹ کر سُنسان جگہوں پر کھڑی، بھیک مانگنے کے ساتھ عجیب اشارے کرتی اور عوامی مقامات پر منڈلاتی خواتین بھی ہیں، مگر کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ خوا تین کون ہیں؟ 

اُن کا اصل کام کیا ہے؟ اور وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں…؟؟نہیں …!! اس لیے کہ ہمارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔دراصل، اُن خواتین میں سے کئی ایک کا تعلق ایسے کاروبار یا پیشے سے ہے، جس کی اجازت کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ ہی پاکستان کا قانون۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاں تو اس بارے میں بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ شرم و حیا کے کچھ تقاضے ہیں، تاہم اس حقیقت سے بھی فرار ممکن نہیں کہ اب یہ مسئلہ ایک ناسور کی شکل اختیار کر چُکا ہے اور اس کی فوری سرجری ناگزیر ہے۔

متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے ایک پالیسی کے تحت اس کاروبار کو فروغ دیا۔ اُس نے اس کام کے لیے’’ red light‘‘ علاقے قائم کیے، جہاں کے مکینوں کو’’ کاروباری‘‘ سہولتیں مہیا کی گئیں اور اس کے عوض حکومت ٹیکس بھی وصول کرتی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور اور ملتان کی ہیرا منڈی اس کام کے لیے بدنام تھیں، لیکن اس کے علاوہ بھی مُلک کے دیگر شہروں میں مخصوص علاقے اس طرح کے کاروبار کے لیے مختص تھے۔ 

جیسے فیصل آباد کا انم پور بازار، غلام آباد، کراچی میں نیپئرروڈ اور پنڈی کی کاسی گلی وغیرہ۔ جنرل ضیاالحق کے دَور میں کچھ سختی کی گئی اور اس کاروبار کے لیے شام میں دو گھنٹے کی اجازت دی گئی۔ جو شخص مقرّرہ اوقات میں اُن علاقوں میں جاتا، پولیس اُس کا نام ایک رجسٹر میں درج کر لیتی، جس سے لوگوں نے وہاں کا رُخ کرنا کم کردیا۔ یوں یہ کاروبار مخصوص علاقوں سے نکل کر شہر بھر میں پھیل گیا۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق،2003ء میں پاکستان کی تقریباً 20,000سے زاید خواتین اس کاروبار سے منسلک تھیں مگر افسوس ناک طور پر اُن کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔2009ء کی این اے سی پی (NACP)کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 1,36000خواتین اس کاروبار سے وابستہ تھیں۔ اب اس کاروبار نے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں میں جڑیں مضبوط اور وسیع کرلی ہیں۔’’ Demographic and Health Survey‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں عصمت فروشی کے دھندے سے وابستہ خواتین کی تعداد ڈھائی لاکھ سے بھی زائد ہے اور کئی مقامات پر ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز، اسپا سینٹرز، بیوٹی پارلرز اور مساج سینٹرز وغیرہ بھی اس مذموم کام میں ملوّث ہیں۔ 

نیز، پولیس بھی اس حوالے سے انتہائی شرم ناک کردار ادا کر رہی ہے، وہ نہ صرف یہ کہ فحاشی کی سرپرستی کرتی ہے، بلکہ اسے فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ 

اُس نے اس طرح کے اڈّوں سے باقاعدہ بھتّے باندھ رکھے ہیں۔ اِسی طرح، بہت سے سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا کردار بھی قابلِ مذمّت ہے، جو اپنی بے لگام نفسانی خواہشات کی تسکین کی خاطر اس طرح کے کاموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ 

پھر یہ کہ کئی اداروں میں بھی ملازمت پیشہ خواتین اور ملازمت کی متلاشیوں کو ناپسندیدہ حرکات کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

اب تو شاطر ذہنوں اور نفس پرستوں نے اس کاروبار کو’’ ای کامرس‘‘ کی شکل بھی دے دی ہے۔ نوجوان نسل کو اس دلدل کی طرف راغب کرنے کے لیے باقاعدہ مختلف ویب سائٹس، فیس بُک پیجز اور واٹس ایپ گروپس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت، مذہب سے دُوری، تربیت و شعور کی کمی، لالچ، غربت و افلاس، بلیک میلنگ اور ریاستی و انتظامی اداروں کی کم زوری کے سبب اس طرح کے گھناؤنے کاروبار کو پنپنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ 

گو کہ پاکستان میں عصمت فروشی غیر قانونی ہے اور اس کے خلاف سخت قوانین بھی موجود ہیں، لیکن بے ضمیر افراد کی وجہ سے یہ کاروبار نوجوان نسل کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم عام کرنے پر تو بہت زور دیا جاتا ہے، لیکن ہم تربیت کا فریضہ بُھلا بیٹھے ہیں۔ 

ہمیں اس طرح کے ثقافتی، معاشرتی اور اخلاقی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعلیم کے ساتھ، شعور و آگاہی کو بھی فروغ دینا ہوگا تاکہ نئی نسل زمانے کی اونچ نیچ اور اپنی اقدار سے واقف ہو سکے۔ علاوہ ازیں، حکومت کو بھی اپنی اسلامی اور آئینی ذمّے داری پوری کرتے ہوئے عِصمت فروشی کے سدّ ِباب کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ساحر لدھیانوی نے اسی صُورتِ حال کی کچھ اس طرح منظر کشی کی تھی 

’’یہ کُوچے ،یہ نیلام گھر دِل کشی کے …یہ لُٹتے ہوئے کارواں زندگی کے…کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خُودی کے…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…یہ پُر پیچ گلیاں، یہ بے خواب بازار…یہ گم نام راہی، یہ سِکّوں کی جھنکار…یہ عِصمت کے سودے، یہ سودوں پہ تکرار…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…تعفّن سے پُر، نیم روشن یہ گلیاں…یہ مَسلی ہوئی اَدھ کِھلی زرد کلیاں…یہ بِکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…وہ اُجلے دریچوں میں پائل کی چَھن چَھن…تنفّس کی الجھن پہ طبلے کی دَھن دَھن…یہ بے رُوح کمروں میں کھانسی کی ٹَھن ٹَھن…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں پر…یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر…یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں پر…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…یہاں پِیر بھی آ چُکے ہیں، جواں بھی…تنو مند بیٹے بھی، ابّا میاں بھی…یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے، ماں بھی…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی…یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی…پیمبرؐ کی امّت، زلیخا کی بیٹی…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں…بلاؤ، خدایانِ دیں کو بلاؤ…یہ کُوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دِکھاؤ…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ…ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ۔‘‘

تازہ ترین