• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم

سمندر کنارے سرسبز درختوں کی قطار کے ساتھ بنا مکان بلاشبہ تعمیر کی تمام تر خُوبیوں سے مزیّن تھا۔ سفید ٹائلز سے چمکتا فرش، لکڑی کا بھاری فرنیچر، جدیدطرزکے نرم صوفے، شیشے کی الماری میں رکھے قیمتی نفیس برتن اور دیواروں پر آویزاں پینٹنگز، غرض کہ ہر شے مکینوں کے اعلیٰ ذوق کی آئینہ دار تھی۔ پھر بھی نہ جانے کس چیز کی کمی تھی۔ شاید کسی جان دار قہقہے کی، کسی شرمیلی مُسکراہٹ کی، یا کسی کے لیے محبّت پاش نظروںکے فرشِ راہ ہونے کی،حالاں کہ یہاں سب ہی تو رہ رہے تھے۔ 

اس کے باوجود کسی کا کھانے کی میز پر برتن رکھتے ہوئے بار بار دروازے کی سمت دیکھنا اور کسی کا گھنٹی کی آواز پر دوڑکے جانا، عرصے سےمکان ایسے مناظر سے محروم تھا کہ گھر تو محبّتوں سے بنتے ہیں،گھروں کوتو رفاقتیں آباد کرتی ہیں۔مٹّی اور ریت سے گھر نہیں،مکان بنتے ہیں ۔مکانوں کو گھر رہنے والوں کا ہنسنا بولنا، سجنا سنورنا اور ایک دوسرے کا ساجھی ساتھی بننا بناتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کبھی مکان بنانابہت مشکل تھا، مگروہ چھوٹے چھوٹے ،محبّت کے پھولوں سے مہکتے گھر جنّت کا نمونہ ہوتےتھے۔نہ سونے کا الگ کمرا تھا، نہ ہی کھانے کا۔عام طور پر دسترخوان بھی وہیں بچھتا ،جہاں رات ہوتے ہی بستر لگادئیے جاتے تھے۔

اس کے باوجود رہنے والے ایک دوسرے کے دِلوں میں بستے تھے، ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔صُبح مُسکراتی تھی،تو رات دھیمے سُروں میں لوریاں سُناتی۔ پھر وقت بدلا،رہن سہن کے انداز بدلے اور مکانات اونچے، بُلند بالا ہونے لگے۔ یوں کھانے، سونے اور مہمانوں کے کمرےالگ الگ بن تو گئے، مگر محبّت کا پرندہ نہ جانے کہاں اُڑ گیا۔

آرایش و آسایش کی ریل پیل ہوئی، جگمگاتی گاڑیاں گھروں کے آگے کھڑی ہوگئیں اور دِل کا نگار خانہ خالی ہوتاچلاگیا۔ دورِ حاضر میں مشرق ہو یا مغرب انسان اُسی پُرانے گھر اور پُرانی دُنیا کو ڈھونڈ رہا ہے، جہاں جاکر دِن بھرکی تھکن منٹوں میں اُتر جاتی تھی۔ وہ اپنا گھر، جہاں پاؤں پسار کر سونے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔

گھر بسانا اور گھر کو گھر بنانا آسان نہیں کہ اس جنّت کی تعمیر کے لیے کچھ دشوار گزار مرحل سے گزرنا لازم ہے۔زندگی ساتھ گزارنے کا عہد کرنے والوں کے لیے اس عہد کی پاس داری بہت ضروری ہے کہ ایک دِن ہر عہد کی بازپرس ہوگی۔ اس پاس داری میں پہلا امر ایک دوسرے کا اِکرام اور عزّت ہے۔

یہ ذہن نشین کرلیں کہ ایک دوسرے کی رائے، خواہشات کا احترام ، عزّتِ نفس کا خیال اور آپس میں نرم لہجوں میں گفتگو رشتے قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔جو رشتہ اللہ کو گواہ بنا کرجوڑا گیا ہو، وہ بہت مقدّس ہوتاہے۔ اُسے بہرصورت برقرار رکھنے کی کوشش فریقین کے لیے اشد ضروری ہے کہ اِسی ایک رشتے سے بہت سے نئے رشتے وجود میں آتے ہیں اور انسان دو سے ضرب کھا کر دوسو میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ 

مکان کو گھر بنانے کے لیے اعتبار پہلی سیڑھی ہے۔ اعتبار کرنا اور کروانا دونوں ہی ضروری ہیں کہ اعتبار ٹوٹ جائے، تو سب کچھ ہوتے ہوئے کچھ باقی نہیں رہتا۔ اعتبار کی دیوار گرنے سے پورا مکان کچّے جھونپڑےکی مانند ڈھےجاتا ہے اور ٹوٹے ہوئے مکان کے ملبے میں صرف خوابوں کی کرچیاں بچتی ہیں۔ یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ زندگی اور رشتے مٹّی کے گھروندے نہیں، جیتی جاگتی حقیقتیں ہیں، ان کے بکھر جانے سے ان سے وابستہ بہت سے وجود بھی بکھر جاتے ہیں۔

مانا کہ اکیسویں صدی مادّی وسائل کے اعتبار سے مالا مال صدی کہلاتی ہے،مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس صدی میں انسان خالی کاسئہ دِل لیے کھڑا ہے۔ گھر اس دُنیا میں رب کی نشانی اور رحمت ہے۔ تھکن اُتارنے اور نئے سفر پر روانہ ہونے کے لیے تازہ دَم ہونے کا ٹھکانا ہے۔ اس گھر کی بقا ہی انسان اور انسانیت کی بقا ہے۔ گھر کو گھر بنانا اور آئندہ آنے والوں کے لیے اس کی حفاظت کرنا، مکینوں کا اوّلین فرض ہے، مگر لگتا ہے کہ اب یہ فرض کسی کو یاد نہیں رہا کہ ہر طرف ٹوٹے گھروں کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ 

رشتوں کے بیچ انا کی دیواریں کھڑی ہیں، گلے اور شکوے ہیں اوراپنی خواہشات کی تسکین ہے۔اےکاش…انسان اس چھوٹی سی دُنیا کی اہمیت سمجھے اور اسے آباد رکھنے کے لیے اپنی انا کی قربانی دے۔ عموماًساتھ رہنے والوں میں کبھی تلخی دَر آتی ہے،تو کبھی شیطان بھی دوریاں پیدا کردیتا ہے، مگر ان دوریوں کو دُور کرنا ہی عقل مند ہونے کی نشانی ہے۔ 

ہر ایسی مصروفیت، ہر ایسا رویّہ، جو بدگمانی کا سبب بنے، جس سے رشتوں میں دراڑ پڑے یا دوریاں بڑھیں،اُنہیں زندگی سے نکال دینا ہی بہتر ہے۔رب کو گھر کا اجڑنا پسند نہیں۔ اللہ کے بنی ﷺنے بھی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دِل کی دُنیا ہو یا گھر کی، اُسے جنت بنانا، آسان نہیں، مگر بنانا تو ہے، جو صبر و برداشت اور اعتماد و اعتبار ہی سے ممکن ہے۔

تازہ ترین