• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  • شاید ہماری روح کو پچھلے زمانوں کا سفر پسند ہے
  • اپنائیت کے لیے شناسائی ضروری نہیں، کچھ اجنبی بھی دیرینہ شناسا نکلتے ہیں
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

پروفیسر صدیقی اور فیضی صاحب نے حیرت سے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا، ’’پولیس کا یہاں کیا کام؟‘‘ مَیں نے خود کو آنے والے وقت کےلیےذہنی طور پر تیار کرلیا، مجھے یہ اطمینان تو تھا کہ اگر میں پکڑا بھی گیا، تو بخت خان مہرو کی تلاش جاری رکھے گا۔ ہم دونوں نے اِسی لیے ایک جگہ اور ایک ہی گاڑی سےسفر نہ کرنے کافیصلہ کیا تھا، تاکہ ہم میں سےکوئی ایک اگر اِس لمبے سفر کے دوران پولیس کےہتھےچڑھ بھی جائے، تو دُوسرا کسی اور سمت سے اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ فیضی صاحب نے ناگواری سے کہا۔ ’’آجائو بھئی، دروازہ کُھلا ہے۔‘‘ مَیں نے غیرمحسوس طریقے سے خود کو چادر میں ڈھانپنے کی کوشش کی اور اُسی لمحے دروازہ کُھلا۔ ایک پولیس افسر اور ٹکٹ چیکر اندر داخل ہوئے۔ افسر نے پروفیسر حضرات کو خندہ پیشانی سے سلام کیا۔ ’’معذرت چاہتا ہوں، آپ لوگوں کے ناشتے میں مخل ہوا، لیکن ہمیں خبر ملی ہے کہ کچھ جرائم پیشہ افراد اس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں۔ چیک کرنا ضروری تھا۔‘‘ صدیقی صاحب نے ہنس کر فیضی صاحب کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں، جرائم پیشہ سفر تو کر رہے ہیں، مگر ہمارا جُرم صرف اتنا ہے کہ ہم دونوں اپنی دُنیا سے بِنا کسی کو بتائے چند لمحے چُرا کر اِس سفر پر نکلے ہیں۔ یہ بارش، یہ گاڑی، یہ پٹریوں کی جھنکار، یہ سفر اور ہم تینوں… آپ چاہیں تو اس جُرم میں گرفتار کر سکتے ہیں ہمیں۔‘‘ صدیقی صاحب کی بات پر پروفیسر فیضی بھی زور سے ہنس پڑے ’’ہاں بھئی‘ جُرم تو ہمارا واقعی بہت بڑا ہے۔‘‘ پولیس افسر بھی اُن کی زندہ دلی پر مُسکرادیا، پھر اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ میری سانسیں اَٹکنے لگیں۔ افسر نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’’آپ کی تعریف؟‘‘ مجھ سے پہلے صدیقی صاحب بول پڑے۔ ’’بھئی کہا ناں، ہم تینوں ساتھ ہیں۔‘‘ مَیں نے دھیرے سے جواب دیا۔ ’’مَیں عبداللہ ہوں۔‘‘ ٹکٹ چیکر نے میرا ٹکٹ دیکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو پروفیسر فیضی بول اُٹھے۔ ’’بھئی، ان کے پاس اس ڈَبّے کاٹکٹ نہیں ہے۔ عبداللہ میاں کو جلدی میں ٹرین پکڑنی پڑی۔ تم یوں کرو، اِن کا اسی ڈَبّے کا ٹکٹ بنا دو۔ میں اضافی رقم دے دیتا ہوں۔‘‘ مَیں نے پروفیسر صاحب کے ہاتھ اُن کی جیب کی طرف بڑھتے دیکھ کر جلدی سے کہا ’’نہیں‘ اس کی ضرورت نہیں۔ پیسے ہیں میرے پاس۔‘‘ اور جلدی سے گِنے بغیر کچھ رقم ٹکٹ چیکر کےحوالےکردی۔ اُس نے میرا نیا ٹکٹ بنادیا اور ٹکٹ اور بقیہ رقم میرے حوالے کردی۔ پولیس والا جاتے جاتے پلٹا۔ ’’دروازہ اندر سے ٹھیک سے بند کرلیجیے اور، کوئی ایمرجینسی ہو تو یاد رکھیے گا کہ پولیس کی پلاٹون آپ کی حفاظت کے لیے ساتھ سفر کر رہی ہے۔‘‘ ٹکٹ چیکر نے مُڑتے ہوئے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ’’مَیں نے آپ کا ٹکٹ عبداللہ کے نام ہی سے بنایا ہے۔‘‘ اور پھر مُسکرا کر پلٹا اور ڈبّے سے نکل گیا۔ مجھے اس کی نظروں نے الجھن میں ڈال دیا۔ جیل کے ریکارڈ میں میرا نام ساحر درج تھا، کیوں کہ میرے تعلیمی ریکارڈ اور شناختی کارڈ میں یہی نام لکھوایا گیا تھا، مگر ٹکٹ چیکر کی نظروں میں چُھپی مسکراہٹ بتارہی تھی کہ جیسے اُسے میرے دونوں ناموں کا علم ہو۔ نہیں، نہیں، اگرایسا ہوتا، تو وہ اُسی وقت پولیس والے کو میری حقیقت بتا دیتا۔ مگر وہ چُپ رہا، اور وہ افسر، اُس پولیس والے نے بھی تو زیادہ کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ نہ ہی اُس نے میری کوئی شناخت چیک کی اور نہ میرے حُلیے اور بِنا ٹکٹ سفر کرنے پر کوئی اعتراض کیا۔ شاید وہ پروفیسر فیضی اور صدیقی صاحب کی بارُعب شخصیات سے متاثر ہوگیا ہو۔ مَیں خود ہی ذہن میں سوال بُنتا اور پھر خود ہی اُن کے جواب گھڑتا رہا۔

باہر ابھی تک تیز بارش ہو رہی تھی اور کھڑکی سےباہر کےتمام مناظر دُھندلائے ہوئے سے تھے، جیسے کوئی خواب ہو۔ اندر کمپارٹمنٹ میں بلب کی پیلی روشنی پھیلی تھی۔ اب مجھے احساس ہورہا تھا کہ باہر راہ داری سے لے کر یہاں اندر کمرے تک پوری بوگی کی سجاوٹ ہی قدیم طرز پر کی گئی ہے، جیسےکبھی یہ ٹرینیں پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں چلتی ہوں گی، آج کل تو ویسے بھی نِت نئے تجربوں کا دَور ہے،شاید ٹرین انتظامیہ نے بھی اپنی گولڈن جوبلی یا سو سال پورے ہونے پر اس ڈبّے کو کسی قدیمی گاڑی کی طرز پر سجایا ہو کہ انسان اندر سے ہمیشہ ماضی پرست ہی رہا ہے۔ اِسے گزرا ہوا وقت ہمیشہ دل کش لگتا ہے اورماضی اِسے اپنی جانب کھینچتا ہے۔ نہ جانے یہ کیسا سحر ہے کہ لوگ اپنے ماضی یا کسی گزرے دَور کا ذکر آتے ہی ٹھنڈی آہیں بھرنا شروع کردیتے ہیں۔ شاید ہماری رُوح کو پچھلے زمانوں کا سفر پسند ہے۔ پروفیسر فیضی نے تازہ کافی مگوں میں اُنڈیلی، پھر وہی مخصوص بھینی خوشبو ڈبّے میں پھیل گئی۔ صدیقی صاحب نے مجھے کھوئے دیکھ کر جیسے میرے دل کا چور پکڑ لیا۔ ’’لگتا ہے، تمہیں اس کافی کی خوشبو پسند ہے۔ دونوں مرتبہ تم نے گہرے سانس لے کر مہک کو اپنےاندر اُتارنےکی کوشش کی۔‘‘ اس بزرگ کی نظر اور مشاہدہ واقعی بہت تیز تھا۔ ’’جی… مجھے یہ مہک ماضی کی سُنہری وادی میں لے جاتی ہے۔ کچھ میٹھی یادیں چھیڑ دیتی ہے۔‘‘ پروفیسر فیضی میری بات سُن کر دھیرے سے مُسکائے۔ ’’تم نے ٹائم مشین کا ذکر کیا تھا ناں، تو دیکھو قدرت کی ایک اور ٹائم مشین یہ مہک، یہ خوشبو بھی ہے، جو ہمیں پل بھرمیں ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیتی ہے، جہاں ہماری حِس کا پہلی مرتبہ اس سے پالا پڑا ہوتا ہے۔ بس ذرا دھیان دینے کی ضرورت ہے، آپ خود کوٹھیک اُسی جگہ موجود پاتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صفت موسیقی میں بھی پائی جاتی ہے، ماضی کی کوئی بھی سُنی ہوئی دُھن ایک لمحے میں زمانوں کے سفر طے کر کے آپ کو ماضی میں لے جا کے کھڑا کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے، انسانی دماغ خود یہ سب یادیں، خوشبوئیں، پَل اور دُھنیں اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے اور وقت پڑنے پر ہمیں اُسی زمانے میں پہنچادیتاہے۔‘‘مَیں غور سے پروفیسر صاحب کی مسحورکُن گفتگو سُن رہا تھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ میرے ساتھ کئی بار ایسا ہو چُکا تھا، خاص طور پر جلتے ہوئے کوئلے کی مہک اور دُھواں ہر بارمجھےمیرے ماضی، میرے بچپن کی گلابی وادیوں میں کھینچ لے جاتا، جب ہمارے پہاڑ والے گھر کی چھت پر سردیوں میں ڈھیروں برف گرا کرتی اور چھت کی چِمنی سے یہی دُھواں اپنی ایک خاص مہک لیےساری فضا میں پھیل جایا کرتا۔ مَیں ان دونوں کی گفتگو سُننے میں اس قدر محو تھا کہ کچھ دیر کے لیےسب کچھ بُھول گیا کہ اس خواب انگیز ماحول اور باہر برستی بارش کے سوا بھی کچھ ہے میری زندگی میں، اور وہ دونوں بھی کچھ عجب مردِ آزاد تھے کہ دونوں میں سے کسی کو میرے حُلیے، بدحال شخصیت یا فقیری سے کوئی غرض ہی نہ تھی۔ ایسے ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے، جیسے ہماری برسوں کی پہچان ہو۔ اور میں بھی اس عرصے میں خود کو جیل توڑ کر بھاگے ہوئے ایک سزائے موت کے قیدی کے بجائے اُن ہی کا کوئی ہم دَمِ دیرینہ محسوس کرنے لگا تھا۔ واقعی کسی کی اپنائیت محسوس کرنےکےلیے پُرانی شناسائی کی شرط پوری ہونا ضروری نہیں، کچھ اَجنبی بھی ہمارےدیرینہ شناسا نکلتے ہیں۔ ہاں، مگر قسمت میں ہمارا ایسے اَجنبیوں سے سامنا ذرا کم ہی لکھا ہوتا ہے۔

ٹرین تیزی سے ویرانوں میں دوڑ رہی تھی، مگر باہر کا منظر ابھی تک کھڑکی کے شیشے پر جَمی بھاپ کی وجہ سے واضح نہیں تھا۔ وہ دونوں ابھی تک اُسی ’’وقت میں سفر‘‘ کی بحث میں مصروف تھے۔ صدیقی صاحب بولے۔ ’’گویا تم یہ کہنا چاہتے ہو انسان بہت جلد وقت میں سفر کرنے کے قابل ہوجائے گا؟‘‘ ’’بالکل، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہاں، البتہ ابتدا میں کچھ پیچیدگیاں ضرورہوں گی، مثلاً یہ کہ کچھ سیّاروں کے وقت کا دورانیہ اس دُنیا سے بہت تیز یا زیادہ ہوگا، جیسے وہاں کے چند لمحے کرّئہ اَرض کے کئی سال کے برابر ہوسکتے ہیں، یعنی اگر کوئی وہاں تھوڑا سا وقت گزار کر واپس آئے گا، تو یہاں زمین پر اس کے ہم عُمر شاید اپنی عُمر کی ایک دہائی پوری کرچکے ہوں۔ اس فرق پر قابو پانے میں کچھ وقت لگے گا انسان کو۔‘‘ صدیقی صاحب نے گہرا سانس لیا۔ ’’ہم م م… اور یہ جو آج کل ٹائم ٹریولرز یعنی وقت میں سفر کرنے والےانسانوں کےبارےمیں مختلف تھیوریز سامنے آرہی ہیں، کیا تم اُن پر بھی یقین رکھتے ہو فیضی؟‘‘ ’’ہاں… ایسا ممکن ہے، کیوں کہ ابھی کچھ مثالیں تو میں نے بیان کی تھیں۔ اصحابِ کہف کا وہ ساتھی، جو بازار کھانا لینے کے لیے اُس زمانے کے لوگوں کے درمیان موجود تھا، وہ ان لوگوں کے لیے ایک ٹائم ٹریولر ہی تو تھا۔ جو پُرانے زمانے سے وقت کاسفر کرتے ہوئے صدیوں کی منزلیں طے کرکے آیا تھا۔ شرط بس پہچان کی ہے۔ ہو سکتا ہے، ہمارے آس پاس بھی ایسا ہی کوئی وقت میں سفر کرنے والا موجود ہو، مگر ہم اُسے پہچان ہی نہ پاتے ہوں۔ اورمیں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خود اِسی دُنیا میں ابھی تک چند ایسے گوشے، جگہیں یا خطّے موجود ہیں، جہاں وقت رُکا ہوا ہے۔ معلّق ہے یا بہت سُست یا پھر بہت تیز رفتار ہے۔ اب یہ ہمارے نصیب یا ہماری جدوجہد پر منحصر ہے کہ ہم زمین کے اس خاص خطّے یاٹکڑے تک پہنچتے ہیں کہ نہیں۔ ہوسکتا ہے، وہ جگہ اصحابِ کہف والا غار ہی ہو یا اہرامِ مصر یا کسی سمندر کی تہہ میں چُھپا کوئی کاریڈور… یا برمودا کی تکون…‘‘ صدیقی صاحب پروفیسر کی بات سُن کر عجیب انداز میں مُسکرائے ’’یا پھر کوئی ویران پلیٹ فارم یا پرانی ٹرین۔‘‘ دونوں ہنس پڑے۔ مَیں نے ان کی ہنسی میں ایک عجیب سا تاثر محسوس کیا اور پھراچانک میرا سر بھاری ہونے لگا۔ مجھے لگا، جیسے کافی میں کوئی نشہ آور دوا ملی ہوئی تھی۔ مَیں نے گھبرا کر کھڑے ہونے کی کوشش کی، مگر مجھے سارا ڈبّا گھومتا محسوس ہو رہا تھا اور پھر ایک زوردار چکّر نے مجھے ہوش و حواس سے بے گانہ کردیا۔

مَیں چکرا کر گرا اور پھر نہ جانے کب میری آنکھ کُھلی تو ٹرین کسی پُرہجوم اسٹیشن پر رُکی ہوئی تھی۔ میرا سر ابھی تک بُری طرح چکرا رہا تھا۔ شام کا اندھیرا پھیل چُکا تھا اور پلیٹ فارم پر بنے ٹھیلوں پر گیس کے بڑے بڑے ہنڈولے روشن تھے۔ مَیں نے آس پاس نظر ڈالی، مگر یہ کیا، یہ وہ ڈبّا تو نہیں تھا، جس میں میری ملاقات پروفیسر فیضی اور صدیقی صاحب سے ہوئی تھی۔ یہ تو کوئی ڈاک کا ڈبّا لگتا تھا۔ چاروں طرف خاکی رنگ کی بوریاں بکھری پڑی تھیں، جن میں خط ہی خط بھرے تھے۔ ڈبّے کا فرش بوسیدہ تھا اور گھاس پھونس، تنکوں سےاَٹا پڑاتھا۔ پرانےڈبّے کی کھڑکیاں لکڑی کے تختے لگا کر بند کر دی گئی تھیں، لیکن درمیان میں کُھلی درزیں تھیں، جن سے باہر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ میں حیرت سے چاروں طرف دیکھتا رہا۔ جانے مَیں وہاں کیسے پہنچا تھا۔ مَیں تو کسی اور ڈبّے میں سوار ہوا تھا، جو بہت عالی شان تھا، جہاں مجھےوہ شائستہ اور نفیس طبیعت بزرگ ملے تھے۔ تبھی مجھے یاد آیا کہ میں چکر کھا کر گِرا تھا۔ اور اُس وقت بھی میرے سر میں درد کی شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ اچانک باہر سے کسی نے ڈاک ڈبّے کا دروازہ کھولا اور دو اہل کار اندر داخل ہوئے۔ وہ آپس میں زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر ان دونوں کو حیرت کاجھٹکا لگا۔ ’’اوئے… کون ہے تُو… اور اِدھر کیا کر رہا ہے…؟‘‘ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں انہیں کیا جواب دوں۔ دُوسرا بولا۔ ’’ضرور چوری کرنے آیا ہوگا۔‘‘ ’’نہیں، مَیں چور نہیں ہوں اور یہاں چوری کرنے لائق کچھ ہے بھی نہیں۔‘‘ وہ دونوں خاموش ہوگئے۔ ’’پھر ضرور بِنا ٹکٹ چھپ کر سفر کررہا ہوگا… ہے ناں؟‘‘ ’’نہیں، ٹکٹ بھی ہے میرے پاس۔‘‘ مَیں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر گزشتہ روز کا خریدا نچلے درجے کا ٹکٹ دکھایا۔ ٹکٹ دیکھ کر دونوں اَچنبھے میں پڑگئے۔ ’’اوئے بادشاہو، ٹکٹ بھی ہے، تو پھر اپنے ڈبّے میں بیٹھنا تھا ناں، یہاں کہاں خجل خوار ہورہے ہو۔ یہ تو ڈاک کا پرانا ڈبّا ہے۔ اچھا اب چلو، ٹلو اِدھر سے۔ یہ آخری اسٹیشن ہے۔ ابھی اسٹیشن ماسٹر نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو ہماری شامت آجائے گی۔‘‘ مَیں نے چکراتے سر کے ساتھ ڈبّے کےدَرودیوار پرآخری نظر ڈالی،تبھی مجھے کھڑکی کے قریب ڈبّے کی اندرونی دیواروں پر کیا گیا سُرخ رنگ کچھ اُکھڑا سا نظر آیا اوراس کے نیچے سے پرانا ہلکاسبز اور پیلا رنگ جھلکتا دکھائی دیا۔ ہاں، مَیں نےپروفیسر فیضی اورصدیقی صاحب کے ساتھ جس ڈبّے میں سفر کیا تھا، اُس کا رنگ بھی تو اندر سے کچھ ایسا ہی تھا، مگر مجھے یہ ماجرا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ مَیں ڈبّے سے نیچے اُترا تو سامنے ہی ایک بزرگ اسٹیشن ماسٹر کی وردی میں کھڑے مجھے گھورتے نظر آئے۔ ’’کون ہو تم… اور یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ مَیں نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ ’’غلطی سے اس ڈبّے میں سوار ہوگیا تھاجناب… مسافرہوں۔‘‘ میں نےدو قدم آگے بڑھائے، پھر جانے کیا سوچ کر دوبارہ پلٹا۔ اسٹیشن ماسٹر ابھی وہیں کھڑا میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے سینے پر لگی نام کی تختی پر انگریزی میں جاوید لکھا تھا۔ ’’جاوید صاحب! اگر بُرا نہ مانیں، تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ ڈاک کا ڈبّا کتنا پرانا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ کیا یہ بوگی ہمیشہ سے ڈاک ڈبّے کے طور پر استعمال ہوتی آئی ہے۔‘‘ میرا سوال سُن کر وہ چونک سا گیا۔ ’’تم یہ سوال کیوں پوچھ رہےہو؟ ویسے پچھلے بائیس سال سے تو میں یہاں تعینات ہوں، جونیئر کلرک بھرتی ہوا تھا، تب سے لے کر آج تک مَیں نے تو اس بوگی کو اسی حال میں ڈاک ڈبّے کے طور پر ہی دیکھا ہے، البتہ بہت پہلے یہ ڈبّا کئی سال تک ریلوے شیڈ میں کھڑا رہتا تھا۔ سُناہےکچھ دہائیاں قبل یہ کسی نئی شان دار ٹرین کے سلیپر کمپارٹمنٹ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، مگر اب تو یہ بھی برباد ہوگیا، باقی اثاثوں کی طرح۔‘‘

اسٹیشن ماسٹر جانے کیا کچھ کہتا رہا، لیکن میرے دماغ میں اتنا سُن کر ہی جھکّڑ سے چلنے لگے۔ اس کا مطلب جو کچھ میں نے دیکھا، وہ صرف ایک خواب نہیں تھا۔ کبھی یہ ڈبّا واقعی خوب صورت سلیپر بوگی ہوا کرتا تھا، مگر وہ دونوں خوش لباس بزرگ، وہ ڈائننگ کار کا بیرا، وہ ٹکٹ چیکر اور پولیس والا… وہ سب کون تھے؟ کیا وہ بھی صرف میرے تخیّل کی اُڑان تھے۔ مگر اتنا مکمل وہم… اتنا حسین تخیّل، پھر اچانک میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا، فیضی اور صدیقی آپس میں جنّات کے وقت میں سفر کرنے کی بات کررہے تھے، تو کہیں وہ سارے کردار بھی جنّات ہی تو نہیں تھے، جنہوں نے اپنے سحر سے اس ڈبّے کو کچھ دیر کے لیے وہی پرانا عالی شان کمپارٹمنٹ بنا کر مجھے دکھا دیا، جو کبھی اس بوگی کی تاریخ تھی۔ مطلب میں بھاگتے ہوئے عجلت میں اُسی پرانے ڈاک ڈبّے ہی میں چڑھا تھا، مگرچند گھنٹوں کےلیے میری نظربندی کردی گئی اور مجھے جنّات نے ایک خواب انگیز ماحول ہی دکھایا۔ یہ سوچ کر میری ریڑھ کی ہڈّی میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی۔ مطلب وہ سب پہلے سے جانتے تھے کہ مَیں کون ہوں، بس انہوں نے مجھے اپنے ایک کھیل کا حصّہ بننے کی اجازت دی تھی، جو وہ شاید میرے ٹرین پر سوار ہونے سے پہلے سے کھیل رہے تھے، مگر اتنی پُرمغز گفتگو، اتنے دُرست علمی حوالے… وہ کافی… وہ خوشبو… اور پروفیسر فیضی نے تو وقت میں سفر کرنے والےکچھ خاص لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔ تو کیا وہ سب ٹائم ٹریولرز تھے، جو وقت کی سُرنگ میں سفرکرتے اچانک مجھ سے ٹکراگئے۔ مگر یہ سب مجھے ہی کیوں دکھائی دیایا پھر میں نے واقعی کوئی انتہائی مکمل اور ہر لحاظ سے مربوط خواب دیکھا تھا۔ جب سلطان بابا میرے ساتھ سفرکرتے تھے، تب ایسی اَن ہونیاں روز میرے ساتھ ہوا کرتی تھیں، مگر اُن کے جانے کے بعد اور خاص طور پر جتنا عرصہ میں جیل میں قید رہا، یہ معاملات قریباً رُک سے گئے تھے، تو پھر اچانک یہ سب دوبارہ کیوں شروع ہورہا تھا۔ مَیں اُس پُرہجوم اور بہت سے پلیٹ فارمز والے بڑے جدید ریلوے اسٹیشن کے مرکزی پلیٹ فارم پر کھڑا اپنی سوچوں کی یلغار میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک ہی کسی بھاگتے قُلی کے زوردار دھکّے سے گرتے گرتے بچا۔ کسی دُوسرے پلیٹ فارم پر کوئی گاڑی لگ رہی تھی اور سارے قُلی اپنے اپنے حصّے کے روزگار کی طرف دوڑےجارہےتھے۔ ماتھےپر محنت کا پسینہ، اور بالوں میں وقت کی دُھول، شاید ان کے حصّے کی روزی انہیں یوں دوڑ کر ہی ملنی تھی، کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں، وہ لوگ جن کی روزی خود دوڑتی ہوئی اُن کے پاس آتی ہے اور کتنے ناشُکرے ہوتے ہیں، اُن میں سے وہ، جو پھر بھی اپنے رَبّ کا ٹھیک سے شُکر ادا نہیں کرپاتے۔ اسٹیشن کے بیرونی دروازے پر ایک ریلوے اہل کار باہر جانے والوں سے اُن کے استعمال شدہ ٹکٹ لے کر جمع کررہا تھا۔ مَیں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر اُسے اپنا ٹکٹ تھمایا اور دو قدم آگے بڑھا، تبھی مجھے ایک خیال آیا اور میں نے تیزی سے اپنی ساری جیبیں اُلٹ کر رکھ دیں۔ گزشتہ روز میں نے ڈبّے میں ٹکٹ چیکر سے ٹکٹ خریدا تھا اور اُس نے کچھ رقم بھی مجھے واپس کی تھی، مگر ہزار بار جیبیں دیکھ لینے کے باوجود مجھے نہ تو وہ ٹکٹ ملا اور نہ ہی وہ واپس کی ہوئی رقم۔ ہاں، میری اپنی رقم ابھی تک اُسی طرح بڑے نوٹوں کی گڈّی میں بندھی رکھی تھی اور اس میں سے کوئی بھی نوٹ کم نہیں تھا۔

میرا سر ایک بار پھرچکرا گیا۔ پروفیسر فیضی نے کہا تھا کہ دُنیا میں آج بھی چند مقامات ایسے پائے جاتے ہیں، جہاں وقت کی گردش تٓھمی رہتی ہے، تو کیا میں کل رات یا گزشتہ روز تک کسی ایسے ہی ماضی میں ٹھہرے لمحے کا حصّہ بنا رہا۔ مَیں جتنا سوچتا، یہ گُتھی اتنی ہی اُلجھتی جارہی تھی۔اسٹیشن سےنکلتے ہی بالکل سامنےکچھ فاصلے پر چند پولیس اہل کار ایک پک اَپ کے گرد جمع تھے اور آنے جانے والوں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مَیں نے اپنے چہرے کو غیرمحسوس طریقے سے مزید چُھپا لیا اور بخت خان کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ منصوبے کےمطابق اُس کو یہیں مجھ سے ملنا تھا، لیکن مجھے وہ آس پاس کہیں دکھائی نہیں دیا۔ میرا دل ڈُوبنے لگا، کہیں کوئی اَن ہونی نہ ہوگئی ہو، کہیں بخت خان کو پولیس نے گرفتار نہ کرلیا ہو۔ میرا وہاں زیادہ دیر رُکنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا، کیوں کہ بِنا سامان، کسی مسافر کو پلیٹ فارم سے نکلتے دیکھ کر کوئی بھی پولیس والا شک میں پڑ سکتا تھا۔ مَیں نےخود کو مسافروں کی نکلتی بھیڑ کے دھارے میں چُھپائے رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی تاکہ پولیس کی گاڑی سے دُور جاسکوں، لیکن تبھی سامنے سے آتے ایک اَجنبی شخص نے غور سے میری طرف دیکھا اور لپک کر میرا ہاتھ پکڑلیا۔ ’’تم… تم عبداللہ ہو ناں…!!‘‘ مَیں نےگھبرا کر اُس کی طرف دیکھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین