• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سے پولیو کا خاتمہ: حکومت اور عوام کیلئے ایک بڑا چیلنج

پولیومیلائٹس(Polio Myelitis) جسےعرفِ عام میں ’’پولیو‘‘ ہی کہا جاتا ہے، دُنیا بَھر میں ایک عام مرض تھا،جس کے خاتمے کے لیے مختلف ادوار میں کئی اقدامات کیےگئے،لیکن80کی دہائی میں جب عالمی ادارۂ صحت، یونیسیف اور روٹری فاؤنڈیشن کے اشتراک سے عالم گیر سطح پر انسدادِ پولیو مہم کا آغازہوا،تو بتدریج اس کے پھیلاؤ کی شرح کم ہوتی چلی گئی، البتہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ آج بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ 

گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے12کیسز رپورٹ ہوئے ،تویہ اُمید کی جانے لگی کہ پاکستان پولیو کے خاتمے کے قریب پہنچ چُکا ہے، لیکن رواں برس ماہِ ستمبر تک رپورٹ کیے جانے والے پولیو کے69نئےکیسز نے خطرے کی گھنٹی ایک بار پھر بجا دی ہے، جس کے نتیجے میں جہاں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنزکی ہنگامی کمیٹی نے پاکستان پر بین الاقوامی عارضی سفری پابندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کی سفارش کی ہے، وہیں عالمی سطح پرپولیو وائر س کے پھیلائو اور کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو پولیو کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات اور تمام متاثرہ علاقوں میں فوری اور مؤثر سرگرمیاں شروع کرنا ہوں گی۔ ایسے حالات میں جب گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کیسز میںخاصی کمی آچُکی تھی، ایک مرتبہ پھر پولیو کے کیسزنے نہ صرف مُلک ، بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ 

آج دُنیا ایک گلوبل ویلیج ہے۔ کوئی مُلک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا،تو اگراس ضمن میں فوری طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے، تو وہ وقت دُور نہیں،جب پاکستان پر مزید پابندیاں عائدکردی جائیں گی۔ تاہم، حکومتِ پاکستان عالمی شراکت داروں کے تعاون سے 2022ءتک مُلک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ضرور ہے۔ اس حوالے سے نئی حکمتِ عملی مرتّب کی جارہی ہے، جس کا باضابطہ اعلان نومبر میں کیا جائے گا۔ حکومت کو پولیو کےخاتمے کےلیے نہ صرف درپیش رکاوٹوں پر فوری قابو پانا ہوگا،بلکہ متعلقہ اداروں اور اہل کاروں کوبھی فریم ورک میں لانا ہوگا۔

گرچہ پاکستان گزشتہ دو عشروں سے تسلسل سے پولیو کے خاتمے کی جدوجہد کررہا ہے،اس کے باوجود ’’پولیو فِری زون‘‘میں داخل نہیں ہوسکا۔واضح رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کسی بھی مُلک میں متواتر تین سال تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آنے کی صُورت ہی میں ،اُس مُلک کو’’پولیو فری مُلک‘‘ قرار دیتا ہے۔پاکستان سےپولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی کئی وجوہ میں ایک وجہ پس ماندہ اور دور دراز کے علاقے ہیں،کیوں کہ رواںبرس جن علاقوں میں پولیو کے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، وہ دُوردراز کے پس ماندہ علاقے ہی ہیں، جہاںورکرز کو بچّوں تک رسائی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پھر صحت کی بنیادی سہولتوں اور حفاظتی ٹیکوں کافقدان،خراب سیوریج سسٹم، آلودہ پانی(جس کے ذریعے وائرس پھیل رہا ہے)،صفائی ستھرائی کی ناقص صُورتِ حال،کوڑا کَرکَٹ ٹھکانے لگانے کے نا مناسب انتظامات، تعلیم و آگاہی کی کمی،پولیو کے حفاظتی قطروں سے متعلق منفی پروپیگنڈا،موسمی تبدیلیاں(کیوں کہ پولیو ٹیمز کی شدید موسم کے دِنوں میں نقل و حرکت محدود ہوجاتی ہے)، پہاڑی علاقوں میں سفرکی دشواری، پولیو مہم ناکام بنانے کے لیےمختلف ہتھکنڈوں کا استعمال، قبائلی اضلاع اوربلوچستان میں سکیوریٹی کی صُورتِ حال،پولیو ورکرز پر حملے اوران کےاغواجیسے عوامل بھی انسدادِ پولیو مہم میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی اور تسلسل سے نقل و حرکت بھی پولیو وائرس کے پھیلائو کا موجب ہے،جب کہ خانہ بدوش،بھیک مانگنے والے اور افغان مہاجربچّوں کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے میں بھی خاصی مشکلات پیش آتی ہیں،توصوبوں کے انتظامی مسائل ، فنڈز کے اجراء میں سُستی اور منصوبہ بندی کا فقدان بھی پولیو مہم پر اثر انداز ہوتاہے۔ 

علاوہ ازیں،بعض والدین بھی پاکستان کو پولیو فری مُلک قرار نہ دئیے جانے کابڑا سبب ہیں،کیوں کہ جن بچّوں میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی ہے، اُن کے والدین نے ورکرز سےسخت رویّہ اختیار کرتے ہوئے پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کردیا تھا۔ یاد رکھیے،پولیو سے بچاؤ کا واحدطریقہ حفاظتی قطرے ہی ہیں، جو پانچ سال کی عُمر کےہربچّے کوپلوانے انتہائی ضروری ہیں کہ جب تک ہر جگہ سے اس وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگا ،یہ مرض مُلک میںیونہی پھیلتا رہے گا۔

20ویں صدی میں دُنیا کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا تھا، ان میں ایک چیلنج پولیو کا مرض تھا،جس سے ہرسال دُنیا بَھر میں ہزاروں بچّے معذور ہورہےتھے۔اگرچہ پچاس کی دہائی سے قبل بھی پولیو سے تحفّظ کے لیے ویکسینز متعارف کروائی گئیں، مگر یہ تجربات کام یاب نہیں ہوسکے۔بالآخر،خاصی تحقیق کے بعد 1950ء میں مرض کے خلاف ایک مؤثر ویکسین دریافت کرلی گئی، جس کے بعد کئی ترقّی یافتہ مُمالک’’پولیو فِری‘‘ ہوگئے، لیکن پھر بھی ترقّی پذیر اور تیسری دُنیا کے مُمالک سے پولیو کا خطرہ نہیں ٹلا۔ستّر کے عشرے میں دُنیا بَھر میں پولیو کے خلاف مختلف پروگرامز کا اجراء ہوا، جن کی بدولت ترقّی پذیر مُمالک میں خاصی حد تک پولیو پر قابو پالیا گیا۔ 

تاہم،صحیح معنوں میں1988ء میں دُنیا بَھر سے پولیو کا 99.9فی صد خاتمہ کردیا گیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی دُنیا کے ڈھائی ارب بچّوں کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلائے جارہے ہیں۔فی الوقت، صرف پاکستان اور افغانستان ہی میں پولیو کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، کیوں کہ نائیجریا میں2016ء سے لے کرتاحال کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور توقع کی جارہی ہے کہ عالمی ادرۂ صحت جلد ہی نائجیریا کو بھی پولیو فری مُلک قرار دے دے گا۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے 2014ء میں’’ قومی ایمرجینسی ایکشن پلان‘‘ کا اجراء کیا گیا،جس پر عمل درآمد کےنتیجے میں 2015ءمیں پولیو کے کیسز میں 82فی صد کمی آئی۔واضح رہے کہ 2014ءمیں پولیو کے 306کیسزرپورٹ ہوئے تھے،جو پوری دُنیا کے مجموعی کیسز کا 85فی صد ہیں۔

رواں برس جن علاقوں میں پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اُن میں سرِفہرست تو خیبرپختون خوا ہے،جہاں42بچّے پولیو وائرس کی زد میں آئے، جب کہ قبائلی علاقہ جات میں دس، صوبۂ سندھ میں سات، پنجاب اور بلوچستان میں پانچ پانچ کیسز کی تصدیق کی جاچُکی ہے۔ 2018ء میں صوبۂ پنجاب میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا، لیکن اس سال پنجاب کے اضلاع سے بھی اب تک پولیوکے پانچ کیسز سامنے آچُکے ہیں، البتہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پولیو سے محفوظ ہیں۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری جنگ میں کام یابی، اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بچّوں کے فنڈز، عالمی ادارۂ صحت اور متحدہ عرب امارات کے تعاون ہی سے ممکن ہوئی ہے۔واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے 2014ء میں ’’امارات پولیو مہم‘‘کا آغازسندھ، بلوچستان اور قبائلی اضلاع سےکیا تھا،جس کے تحت پولیو ویکسین، پولیو ورکرز اور سکیوریٹی کے لیے خطیر مالی امدا د فراہم کی جارہی ہے۔ 

اس مہم کے ذریعے پاکستان میں اب تک تقریباً سات کروڑ 10لاکھ بچّوں کو پولیو ویکسین پلائی جاچُکی ہے۔ اگرچہ حکومت نے پولیو کے قطروں کے حوالے سے پھیلائے گئے پروپیگنڈےکے تدارک کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی، لیکن جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوگیا ۔ اس ضمن میںوزیرِاعظم کے پولیو پروگرام کے فوکل پرسن، بابر بن عطا نے والدین سے اپیل کی ہےکہ وہ اپنے بچّوں کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے ضرور پلوائیں اور کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں،کیوںکہ خدانخواستہ اگر ایک بار یہ وائرس جسم میں داخل ہوجائے، تو معذوری عُمربَھر کا روگ بن جاتی ہے،جب کہ مرض پیچیدہ ہونے کی صُورت میں جان تک جا سکتی ہے۔

اس حوالے سےحکومت کا کہنا ہے کہ بچّوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلوانے میں ہچکچاہٹ کے شکار تمام والدین سےسختی برتنےکی بجائے انہیں دلائل سے قائل کیا جائے گا۔نیز، مرض سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ والدین کے تمام سوالات کے تسلّی بخش جوابات بھی دیئے جائیں گے۔ حکّام کے مطابق حکومتی اقدامات کی بدولت 2020ءسے پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی آنا شروع ہوگی اور پھربتدریج کیسزکم ہوجائیں گے۔

حتیٰ کہ2021ء کے موسم ِسرما اور 2022ءکے اوائل تک مُلک سے مکمل طور پر پولیو کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس ضمن میں مُلک بَھر میں پولیو سے آگاہی کے لیے 100کال سینٹر قائم کرکے والدین کے سوالوں کے جواب دئیے جائیں گے،تاکہ پولیو ویکسین سےمتعلق معاشرے میںرائج غلط تصوّرات کی بیخ کنی کی جاسکے۔

پولیو کے خاتمے کے لیے ترتیب دی جانے والی نئی حکمتِ عملی میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ ویکسین کے اخراجات برداشت کرنا حکومت کے بس میں نہیں،جس کے لیے اقوامِ ِمتحدہ، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر مُمالک اور ڈونر ادارے بَھر پورتعاون کررہے ہیں۔2014ءسے 2018ءکے دوران متحدہ عرب امارات اور دیگر شراکت داروں کی مالی معاونت سے پولیو کیسز میں نہ صرف خاطر خواہ کمی آئی ، بلکہ مُلک کے ہرحصّے تک پولیو ویکسین فراہم کرنا بھی سہل ہوا۔

یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پولیو مہم کا امدادی پروگرام متحدہ عرب امارات کے صدر ،شیخ خلیفہ بن زید النہیان کی سربراہی میں2010ء میں شروع کیے گئے پروگرام ہی کا ایک حصّہ ہے۔ یہ پروگرام زیادہ تربہترصحت ، پولیو کے خاتمے ، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی بہتری، غذائی تحفّظ اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر محیط ہے۔ متحدہ عرب امارات اس امدادی پروگرام کے ذریعے دیہی اور قبائلی علاقوں میں ،بالخصوص بچّوں اور خواتین کے لیےصحت کے نو مختلف پروگرامز پر کام کررہا ہے،جن میں راول پنڈی میں 1300بستروں کے پاک امارات ملٹری اسپتال کا قیام، سوات میں شیخ خلیفہ بن زید النہیان اسپتال اور شولام میں شیخہ فاطمہ بنتِ مبارک اسپتال کی تعمیر شامل ہیں۔

دراصل پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ کا بڑاسبب ہیں۔ چوں کہ آبادی کے لحاظ سے اسپتال کم ہیں اور بڑے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا رش رہتا ہے، تو ان اقدامات کے ذریعے عوام کو علاج معالجے کی معیاری سہولتیں دستیاب ہوں گی۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے زیادہ سالانہ بجٹ مختص کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان خطّے کے مُمالک میں صحت کی مد میں سب سے کم بجٹ خرچ کرنے والا مُلک ہے۔ علاوہ ازیں، آبادی پر کنٹرول کے لیے فیملی پلاننگ سمیت دیگر آگاہی مہمّات بھی ضروری ہیں۔

چوں کہ عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال24اکتوبر کو’’پولیو کا عالمی یوم‘‘مختلف تھیمز کے ساتھ منایا جاتا ہے،جس کا مقصدہر خطّے سے اس موذی مرض کا قلع قمع کرنا ہےاورامسال کا تھیم ،"One Day. One Focus: Ending Polio" ہے،تو ’’پولیو کے عالمی یوم‘‘ کے موقعے پراربابِ اقتدار کے ساتھ پوری قوم کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہےکہ دُنیا کہاں سے کہاںپہنچ چُکی ہے اور ہم ابھی تک اس بیماری کے خلاف ہی لڑ رہے ہیں، جس سے باقی دُنیا گزشتہ صدی میں چھٹکارا حاصل کرچُکی ہے۔

حکومت کو آگاہی مہم کےساتھ پولیو وائرس پھیلنے اور اس کا موجب بننے والے عوامل کا بھی تدارک کرنا ہوگا،جس کے لیے مُلک کے دُوردراز اور دشوار گزار علاقوں کے بچّوں تک رسائی سہل بنانے، پولیو ورکرز کی سیکیورٹی اور مراعات میں اضافے، کوڑا کَرکَٹ ٹھکانے لگانے، تمام شہروں میں سیوریج کے پانی کے لیے منظم نظام اور پینے کے پانی کو آلودہ اور سیوریج کے پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے اضافی وسائل مختص کرنے جیسے مؤثر اقدامات فوری توجّہ کے متقاضی ہیں۔

اِسی طرح افغان مہاجرین کے بچّوں کو پولیو ویکسین کےقطرے پلانے کےلیے الگ سے متحرک ٹیمیں مستقل بنیادوں پر تشکیل دی جائیں اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ اور عالمی شراکت داروں کی مدد لی جاسکتی ہے۔ صوبوں کے بروقت اور فوری فنڈز کے اجراء کا بندوبست بھی کیا جائے اورجن علاقوں میں پولیو کے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، اُن کے لیے الگ سے حکمتِ عملی مرتّب کی جائے۔ایسے خصوصی مراکز قائم کیے جائیں، جہاں مستقل بنیادوں پر پولیو کے قطرے پلانے کا منظم انتظام ہو۔

مُلک کے تمام بچّوں کو پولیو جیسے موذی مرض سے بچانا ہوگا، تاکہ وہ مُلک وقوم کی ترقّی و خوش حالی میں اپنا بَھرپور کردار ادا کرسکیں۔ اس کے لیے اُن والدین کو قائل کرناہوگا، جو پولیو ویکسین پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ بچّوں کی پولیو سے معذوری کے ذمّے دار براہِ راست والدین بھی ہیں،لہٰذا انہیں پولیو ورکرز سے تعاون کرنا ہوگا اور بالخصوص ان دشوار گزار علاقوں تک جہاں پولیو ورکرز کی رسائی نہیں، وہاں کے مکینوں کو خود آگے بڑھنا ہوگا اورقریبی اسپتالوں، دیہی مراکزِ صحت اور پولیو مراکز جا کر اپنے بچّوں کو قطرے پلوانا ہوں گے۔ 

والدین، بچّوں کو مستقل معذوری سے بچانے کے لیےذمّے داری کا مظاہرہ کریں اور ان علاقوں کی نشان دہی کریں، جہاں پولیو کی ٹیمیں پہنچ نہیںپا رہی ہیں۔پوری قوم کو حکومت ، عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا اور مُلک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے بیڑہ اُٹھانا ہوگا،کیوں کہ کوئی بھی مُلک کسی بھی وبا یا آفت سے اسی صُورت عہدہ برا ہوتا ہے، جب اس کی حکومت کے ساتھ پوری قوم بھی یک جا ہو تی ہے۔

تازہ ترین