• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختصر عرصے میں اپنے فن کا جادو دکھا کر انڈسٹری میں نام پیدا کرنے والے اداکار عمران اشرف کو اداکاروں کا ’’اداکار‘‘ کہا جاتا ہے، اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے ایک کے بعد ایک سیریل اپنے نام کرتا اور شہرت پاتا گیا۔ اپنے کیریئر کی 9 سالہ جدوجہد میں ناظرین عمران اشرف کے منفرد کرداروں کو دیکھ کر اِن کا مذاق اُڑانے کے ساتھ مختلف القابات سے نوازنے رہے لیکن اس نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کردیا کہ اداکار کی ظاہری حیثیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ اس کا جاندار کردار ہی اُسے اہم بناتا ہے۔ 

عمران اشرف 11 ستمبر 1989 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز 2011؁ء میں کیا۔ دل لگی، الف اللہ اور انسان، دِل موم کا دیا، تعبیر ، میری ماں، میرے مہربان، صدقے تمہارے ، گل رعنا، دولہا مل گیا، جھوٹ، دِل لاگی، بدگمان، خدا میرا بھی ہے، دِل جانم، لشکارہ، سسکیاں اور رانجھا رانجھا کردی سمیت کئی سیریلز میں وہ اپنی عمدہ اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔عمران کو ایوارڈز شوز کی مختلف کیٹگریز کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ ڈراما سیریل ’’دِل لگی اور گل رعنا‘‘ کے لیے بہترین سپورٹنگ رول کے ایوارڈز بھی ملے۔ اُن کا ایک کردار’’بھولا‘‘ اُنہیں شہرت کی بلندیوں تک لے گیا ۔ 

ڈراما انڈسٹری میں کئی کامیابیاں سمیٹنے کے بعد آج کل ’’جیو چینل‘‘ سے شروع ہونے والا میگا سیریل ’’کہیں دیپ جلے ‘‘ میں ایک منفرد اور منجھے ہوئے اداکار کی حیثیت سے ناظرین کے سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہم نے عمران اشرف سے ان کی نجی اور فنی زندگی کے حوالے سے گفتگو کی۔ ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کیا کہا، آپ بھی جانیے۔

میں بہت بھولا ہوں

میں چہرے پڑھنا جانتا ہوں۔ لوگوں کی پہچان ہوگئی ہے۔ لمحوں کی ملاقات بتا دیتی ہے کہ یہ بندہ کیا ہے۔ ایک سیریل میں ’’بھولا‘‘ کا کردار کیا، جو میری پہچان بن گیا۔ اس سے قبل اور بعد میں بھی بہت کردار کیے لیکن شہرت ’’بھولا‘‘ سے ملی۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ، عمران اشرف بھولا تو ہے ہی لیکن کردار کرکے مہر ثبت کر دی کہ واقعی میں بہت بھولا ہوں۔ مجھے خود بھی یہ کردار پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ، ’’دیپ جلے‘‘ میں بھی سیریل کے ساتھ میرا کردار بھی مقبول ہوگا۔

٭… سب سے پہلے اپنی نجی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

عمران اشرف … میں نے پشاور میں آنکھ کھولی۔ کم عمری میں پشاور سے اسلام آباد آگیا گرچہ پشاور سے اسلام آباد تک کاسفر تو مجھے یاد نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ اسلام آباد میں اچھا خاصا وقت گزارا ہے۔ تعلیم ایبٹ آباد میں حاصل کی گریجویشن کرنے کے بعد کراچی آگیا، یہ وہ شہر ہے جہاں آج مجھے رہتے ہوئے 10 برس ہوگئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے میں اِسی شہر میں پیدا ہوا ہوں۔ والد بینکار اور بورڈ آف ڈائریکٹر تھے۔ اُنہوں نے پاکستان کی صنعتی انڈسٹریز کے لیےبھی بہت کام کئے ہیں۔ 

میری والدہ سیدھی سادی خاتون ہیں۔تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ سب شادی شدہ ہیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ کیریئر کے آغاز میں بزنس کیا لیکن کچھ وقت بعد ختم ہوگیا ،بزنس میں بہت نقصان ہوگیا تھا۔ ہمارے مالی حالات خراب ہوگئے ، کراچی میں کام تلاش کیا۔لیکن ناکامی ہوئی۔بہت مشکل زندگی گزاری ،ملازمت کے حصول کے لیے شہر شہر پھرا لیکن صرف اور صرف اپنے رب سے مانگتا رہا۔ زندگی کے نشیب و فراز میں کئی درد سہے ہیں اس لیے درد کا کرب کیا ہوتا ہے یہ میں بہ خوبی جانتا ہوں۔ 

اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔شادی میری پسند اور فیملی کی رضا مندی سے کراچی میں ہوئی ہے ، سسرال والے طویل عرصے سے ملائیشیا میں مقیم ہیں، نکاح کی تقریب بھی ملائشیا میں ہوئی تھی ۔ ایک بیٹا ہے۔ اہل خانہ میں کچھ اسپین میں ، کچھ لاہور میں رہتے ہیں، جب کہ میں کراچی میں رہتا ہوں، یہ وہ شہر ہے جو ہر کسی کو نوازتا ہے، خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس شہر نے یہاں کے لوگوں نے اور پورے پاکستان نے بہت عزت دی ہے۔ 

اب شوبز کی زندگی میں مصروف ہوں لیکن شوٹنگ کے بعد جتنا وقت اپنے بچے کو دے سکتا ہوں، اُتنا دینے کی بھرپورکوشش کرتا ہوں، کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں اُسے وقت نہیں دیتا بلکہ وہ مجھے وقت دیتا ہے۔ جب وہ جاگتا ہے تو میرے ساتھ کھیلتا ہے ، میں انتظار کرتا ہوں اس وقت کا جب وہ جاگ رہا ہو اور میں اُس کے ساتھ کھیلوں۔

٭… اداکاری کا شوق کیسے ہوا ؟۔

عمران اشرف … اداکاری کا شوق کبھی نہیں تھا لیکن جب اس کا آغاز کیا تو پھر فیصلہ کیا کہ اس کام کو بھر پور توجہ سے کروں گا۔ مجھے تو اپنے کام سے براہ راست ’’عشق‘‘ ہوا تھا۔ میں کبھی بھی شوقین اداکار نہیں تھا، نہ ہی شوقین اداکار ہوں اور نہ ہوسکتا ہوں۔

٭… کیا اداکاری باقاعدہ سیکھی ہے؟۔

عمران اشرف … میں نے سپورٹنگ ایکٹر سے اپنے کیریئر کی جدوجہد شروع کی تھی اور آج بھی کامیابی اور ترقی کے لیے سفر کررہا ہوں ۔ دراصل ٹی وی دیکھ کر بڑے اداکاروں کی اداکاری سے اپنی ’’اداکاری ‘‘ کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔اداکاری کرناآسان نہیں ہے، ہر لمحے اپنی ذات کی نفی اور اپنی روح پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ شروع میں میرا تلفظ بھی بہت خراب تھا جو ڈراموں میں کام کرنے سے بہتر ہوا ہے۔ 

ویسے جسے آپ ایکٹنگ کہہ رہے ہیں وہ ایکٹنگ نہیں ’’ری ایکٹنگ‘‘ ہے کیونکہ میں ہر کردار میں پوری طرح ڈھل جانے کی کوشش کرتا ہوں ، جو کردار مجھے دیئے جاتے ہیں اُنہیں پوری طرح اپنے اندر سمو لیتا ہوں، کبھی کسی کردار کو آسان نہیں سمجھا۔ ہر کردار کو اپنے لیے چیلنج سمجھتا ہوں لیکن زندگی میں انسان ہر لمحہ سیکھتا ہے۔ ہر چھوٹے اور بڑے سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

میں تقریباً9 برس سے اداکاری کے میدان میں ہوں،اس جدوجہد میں کئی کردار ادا کئے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب لوگ نا صرف میرا مذاق اُڑاتے بلکہ پاگل بھی کہتے تھے کئی برس تک لوگوں کے اس مذاق کو برداشت کیا لیکن مجھے خود پر یقین تھا کہ پروردگار میری محنت کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور آج مجھے اپنی محنت کا پھل ملنا شروع ہوگیا ہے۔ 

اس کے علاوہ میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ظاہری طور پر آپ کیسے نظر آتے ہیں ۔ اصل چیز کردارکی اہمیت ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہر فنکار کو ایسی ہی سوچ رکھنی چاہئے کیونکہ اداکاری مشکل فن ہے۔ میں اپنی ایکٹنگ میں بھی صرف حقیقی فن دکھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔

٭… اس میدان میں کون لایا؟۔

عمران اشرف … مجھے دلاور ملک ، عرفان گھانچی اور فرحان قیصر صاحب لے کر آئے ہیں۔ اِن کے ڈراموں میں کام کرکے ہی میں نے اداکاری کے گُر سیکھے۔

٭… جیو کی نئے سیریل ’’کہیں دیپ جلے‘‘ میں اپنے کردار کے بارے میں کچھ بتائیں؟۔

عمران اشرف … ویسے تو میں نے ڈراموں میں کئی مختلف کردار ادا کئے ہیں۔ کبھی ’’بھولا‘‘ بنا ، کبھی ’’خواجہ سرا‘‘ ، کبھی ’’خان‘‘ کا کردار نبھایا لیکن ’’کہیں دیپ جلے‘‘ میں میرا کردار ایک عام ہیرو کا ہے۔ یہ کردار میرے لیے انتہائی مشکل اور پیچیدہ رہا کیونکہ میں نے اپنے اس کردار کے لیے خاص طور پر ایکٹنگ اسٹائل اور لہجہ بدلنے کی کوشش کی ہے۔

میرا کردار ایک بہت ہی امیر خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکے کا ہے جسے زندگی نے بری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اس لڑکے کی زندگی میں غیر یقینی طور پر کچھ ایسے حالات آتے ہیں کہ سب کچھ اُس کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ اس کے بعد کہانی نیا موڑ لیتی ہے اور پھر ایک غلط فہمی کی وجہ سے دو گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی غلط فہمی انسان کو کتنا بے بس، ادنیٰ اور کمزور بنا دیتی ہے یہی سب میرے کردار میں نظر آئے گا۔

٭… سیریل میں نیلم منیر کے ساتھ کام کا تجربہ کیسا رہا؟۔

عمران اشرف …اچھچا تجربہ رہا۔ نیلم منیر کے ساتھ 8 سال پہلے بھی ایک ڈراما کیا تھا۔ اس کے بعد ایک سیریل کیا۔ نیلم منیر ایسی اداکارہ ہے جو ایک چھوٹے اور عام سے سین کو بھی بہت بڑا بنا دیتی ہے یہ اس کی بہت خاص بات ہے۔

٭… آپ نے ایک سیریل میں ’’خواجہ سرا‘‘ کا کردار بھی کیا، اس بارے میں کچھ بتائیں ؟

عمران اشرف … یقین کیجئے خود کو پہلی بار خواجہ سرا کے روپ میں دیکھا تو احساس ہوا کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں ؟۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ جو کردار مجھے دیا گیا ہے وہ بہت مشکل ہے لیکن اِسے یاد گار بنانا میرا کام ہے، لہٰذا اس کردار پر بہت محنت کی اور شایدیہ کردار اس لیے زیادہ اچھی طرح نبھا لیا کیونکہ گھر میں ’’خواجہ سرا‘‘ کے کردارکی ریہرسل کرتا رہا، تاکہ کردار میں حقیقت کا رنگ نظر آئے۔

٭… کیا کسی خاص کردار پر بیگم تعریف یا تنقید نہیں کرتیں؟۔

عمران اشرف … بالکل کرتی ہیں ، لیکن مجموعی طور پر میرے کام سے بہت خوش ہوتی ہیں، مجھے بہت زیادہ سپورٹ کرتی ہیں۔ جہاں تک خاص کردار کی بات ہے تو اپنے ہر کردار کےلیے میں سخت محنت کرتا ہوں۔ بیگم اچھے کردار کی تعریف کرتی ہیں اور جہاں کوئی کمی کوتاہی رہ جاتی ہے اس کا اظہار بھی کردیتی ہیں تاکہ میں مزید محنت کرسکوں۔

٭… عام زندگی میں کیسے ہیں؟۔

عمران اشرف … مجھے جس طرح کے لوگ ملتے ہیں، میں اُن جیسا ہی بن جاتا ہوں۔ اگر زندگی میں کوئی اچھا انسان ملے تو میں اس سے دُگنااچھا بنتاہوں اور اگر کوئی برا انسان مل جائے تو اُس جیسا نہیں بنتا ، البتہ برابہت محسوس ہوتا ہے۔

٭… دوسروں کی کیا بات بری لگتی ہے؟۔

عمران اشرف … جب کوئی کسی دوسرے کی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتا ہے یا کسی کو احساس کمتری کا احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے یا کسی کے احساس کمتری کے ساتھ کھیلتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ وہ میرے ساتھ یا میرے جذبات کے ساتھ کھیل رہا ہے، اُس وقت مجھے بہت برا لگتا ہے۔

٭… پروڈکشن کی طرف آنے کا ارادہ ہے؟۔

عمران اشرف … ایسا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے، میں اداکار اور لکھاری ہوں۔ میری 85 فیصد توجہ اداکاری پر ہے اور 15 فیصد لکھنے پر ، لہٰذا ڈائریکشن اور پروڈکشن کی طرف جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

٭… سنا ہے آپ نے ایک ڈراما بھی لکھا تھا؟۔

عمران اشرف … صحیح سنا ہے،میں نے ایک ڈراما بہ عنوان ’’تعبیر‘‘لکھا تھا اسی ڈرامے کی وجہ سے میں ہوسٹن بھی گیا۔ بہترین رائٹر آف دی ایئر کی کیٹگری کے لیے مجھے نامزد کیا گیا ۔ اس کے علاوہ میں ایک اور ڈراما لکھ رہا ہوں جو بہت جلد ناظرین دیکھیں گے۔ فی الحال اس کےبارے میں مزید نہیں بتا سکتا۔

٭… اپنا کون سا ڈراما سب سے اچھا لگا؟۔

عمران اشرف … بہت سے ڈرامے ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں لیکن ’’گل رعنا‘‘ اور ’’ دِل کا کیا ہوا‘‘ یہ وہ سیریلز ہیں جو بحیثیت اداکار میرے دِل کے بہت قریب ہیں۔

٭… کون سا کردار بھول نہیں سکتے؟۔

عمران اشرف … ’’بھولا‘‘یہ وہ کردار ہے جس نے مجھے شہرت ہی نہیں دی بلکہ میری پہچان بنائی۔ شاید ’’بھولا‘‘ اب تک کا میرا سب سے مشہور ہونے والا کردار ہے۔ اس کے علاوہ اس کردار نے مجھے اداکاری کی دوڑ میں ایک خاص جگہ فراہم کردی ہے کیونکہ دُنیا بھر میں لوگ مجھے اِسی کردار کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ 

شاید اس کردار کے حوالے سے میںاپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے رونے لگوں۔اس کے علاوہ ڈراما ’الف اللہ اور انسان‘ کا کردار بھی یادگار ہے۔ سیریل ’’صدقے تمہارے‘‘میں میرا بہت مختصر کردار تھا، پھر بھی کافی نمایاں رہا۔کردار منفی تھا اس لیے شاید ناظرین نے پسند کیا ہو ، میری نظر میں وہ کردار اتنا بڑا تھا نہیں جتنا بڑا ناظرین کی پسند نے بنا دیا۔

٭… کیا ڈراموں کے معیار سے مطمئن ہیں؟۔

عمران اشرف … میں بہت زیادہ مطمئن ہوں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب بھی ہم پاکستان سے باہر سفر کرتے ہیں تو بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ہمارے ڈراموں پر گفتگو کرتےاور فخر محسوس کرتے ہیں۔ 

آپ دُنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، وہاں آپ کو کوئی پاکستانی نظر آجائے، آپ اس سے بات کریں اس کی گفتگو کے دوران ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ اسے اپنی ڈراما انڈسٹری پر کتنا فخر ہے، یقینا یہ ہم سب کے لیے بہت اچھی بات ہے کہ بیرونی دُنیا میں رہنے والے پاکستانی کسی غیر ملکی شخص سے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’اگر آپ کو کوئی اچھا ڈراما دیکھنا ہے تو آپ پاکستانی ڈرامے دیکھو‘‘ ۔ 

اب جس قوم کو اپنے ڈراموں کے معیار پر اتنا فخرہو تو یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ ہم آج بھی اپنے ڈراموں کے معیار سے پوری طرح مطمئن ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم صبر کرکے بیٹھ جائیں ہمیں اپنے ڈراموں میں مزید بہتری اور نکھار لانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے، تاکہ ہم آگے سے آگے بڑھتے جائیں۔

٭… کس ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرنے میں مزہ آتا ہے، نیز کام میں بہتری کے لیے کیا ضروری ہے؟

عمران اشرف … ایک اداکار کے لیے اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے لیکن میں یہی کہوں گا کہ مجھے تمام ہی ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے میں مزہ آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل چیز کام ہے ، آپ اپنے کام کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ 

اگر آپ اداکار ہیں تو اچھی ایکٹنگ ضروری ہے، ڈائریکٹر ہیں تو اچھی ڈائریکشن ضروری ہے،اگرلکھاری ہیں تو بہترین اسکرپٹ ضروری ہیں اور اگر اداکار ہیں تو اس کے لیے اداکاری کے اسرار و رموز جاننا ضروری ہیں۔

٭… فلموں میں کام کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔

عمران اشرف … ایک ٹیلی فلم میں بطور چائلڈ اسٹار کام کیا تھا۔ جب بڑا ہوا تو اُسی ہدایتکار نے فون کرکے کہا کہ دوبارہ اپنی تصاویر بھیجو اور آڈیشن کے لیے آجائو۔میں گیا۔آڈیشن میں تو پاس ہوگیا لیکن فلم میں اتنی خراب کارکردگی دکھائی کہ سب نے تنقید کے تیر چلانا شروع کردیئے۔ 

اس کے بعد جب مجھے اپنے کام سے عشق ہو گیا تو پھر ایسا کام دکھایا کہ جو لوگ مجھے کھوٹا سکہ سمجھتے تھے آج میرے ساتھ سیلفیاں بنواتے ہیں اور گھر والوں سمیت بے شمار پیار کرنے والے پرستار بھی ہیں۔ رہی بات باقاعدہ فلموں کی تو وہ مکمل ہیں کسی بھی وقت اُس کا اعلان سامنے آجائے گا۔

٭… پاکستان کے سیاسی حالات پر کیا تبصرہ کریں گے؟۔

عمران اشرف … میں ایک آرٹسٹ ہوں اور مجھے معلوم ہی نہیں ہے کہ سیاست کس چیز کا نام ہے۔

٭… زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کیا سمجھتے ہیں؟۔

عمران اشرف … میں نے اپنی زندگی میں بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں جس میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اداکاروں کو پرستار تو بہت مل جاتے ہیں، لیکن دُعا گو کسی کسی کو ملتے ہیں۔ میری ماں کی دعائیں ہر لمحہ میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ 

خدا کا شکر ہے کہ میں اُن لوگوں میں سے ہوں اور اُن اداکاروں میں سے ہوں جن کے لیےلوگ خصوصی طور پر دُعا کرتے ہیں۔ بحیثیت اداکار میرے لیے سب سے اہم میرے پرستار ہیں اور میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ میرے جتنے بھی چاہنے والے ہیں وہ بہت ہی اچھے اور زبردست ہیں۔ 

   فردوس جمال بھولا کا کردار مجھ سے بہتر کرتے

فردوس جمال سنیئر اداکار ہیں، وہ جو کردار وہ کر چکے ہیں اور جو کردار وہ کررہے ہیں ۔ اُن کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سینئرز کی تنقید ہمیشہ اصلاح کے لیے ہوتی ہے ، فردوس جمال کے کام سے میں سیکھتا ہوں۔ غالباً ایک ٹی وی شو میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’بھولے‘‘ کا کردار بہترین اداکاری نہیں محض دکھاوا تھا۔ یہ بات وہ مجھ سے براہ راست بھی کہہ چکے ہیں ۔ 

میں نے اس وقت بھی برا نہیں مانا تھا ۔ البتہ یہ تنقید کئی روز تک سوشل میڈیا کی زینت بنی رہی جس کے بعد میں نے اپنے پرستاروں سے کہا کہ، فردوس جمال ہمارے لیے قابل عزت اور پاکستان کے معروف اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ اگر وہ ’’بھولا‘‘ کا کردار ادا کرتے تو مجھ سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے کرتے ، میں اِن کی تنقید کو بھی میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کیونکہ ہمارے گھر کے بڑے بھی ہمیں کچھ کہہ دیتے ہیں تو ہمیں ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین