• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توجہ کے ارتکاز میں کمی (Attention-Deficit/Hyperactivity Disorder) بچوں اور نوعمروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے، جس کے باعث وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتےاور ہر چیز یا کام سے جلد اُکتا جاتے ہیں۔ بچپن میں متاثر کرنے والا یہ مرض جوانی میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔ 

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق دنیا میں کم سےکم ایک کروڑ افراد توجہ میں کمی کے مرض میں مبتلا ہیں، بچوں میں عام طور پر ADHD تشخیص شدہ ذہنی خرابی ہے۔ ADHD والے بچے ہائپرایکٹیو ہوسکتے ہیں اور وہ اس کے اثرات کو کنٹرول نہیں کرسکتے یا انہیں توجہ مرکوز کرنے میں پریشانی ہوسکتی ہے۔ یہ طرز عمل اسکول اور گھریلو زندگی میں ان کے اور گھر والوں کیلئے پریشانی پید ا کرتا ہے۔ 

یہ مرض لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں زیادہ عام ہے، جو عام طور پر اسکول کےابتدائی برسوں میں سامنے آتا ہے کیونکہ مرض کے شکار بچے کو اس عرصے میں توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ADHD والے بالغ افراد کو وقت کا انتظام کرنے ، منظم ہونے ، اہداف کا تعین کرنے اور ملازمت کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ضروری نہیں کہ اس مرض کاشکار ایک مخصوص طبقہ ہی ہو، اگر آپ ہمیشہ دیر سے پہنچتے ہیں یا کسی بھی خرابی کی صورت میں خود کو بھلا برا کہتے رہتے ہیں،ایک کمپنی میں آپ ٹک کر ملازمت نہیں کرتے یا کوئی بھی کام مقررہ وقت میں نمٹانے میں آپ کو مشکل پیش آتی ہے تو ہوسکتاہے کہ آپ بھی ADHD کے مرض میں مبتلا ہوں۔ در اصل ADHD ایک غیر امتیازی عارضہ ہے جو ہر دور، صنف، عقل، مذہبی، سماجی اور معاشی پسِ منظر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔

امریکا میں تقریباً ہر مرکزی دھارے کی میڈیکل، نفسیاتی اور تعلیمی تنظیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ توجہ میں کمی / ہائپرایکٹیوٹی ڈس آرڈر (ADHD) ایک حقیقی دماغی خرابی کی بیماری ہے۔ یہ نتیجہ بھی نکالا گیا کہ ADHD والے بچے اور بالغ افراد مناسب علاج سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق اس مرض سے نجات پانے کیلئے ادویات سے زیادہ نفسیاتی طریقہ کار زیادہ مؤثر ثابت ہو تاہے۔

علامات

اس مرض میں مبتلا بچوں یا افراد میں بے چینی، اضطرابی کیفیت، ہائپر ایکٹیویٹی ، توجہ مرکوز کرنے یا توجہ دینے میں ناکامی جیسی علامات پائی جاتی ہیں۔یہ علامات عموماً بارہ سال کی عمر سے پہلے سامنے آجاتی ہیں ، جو کہ لڑکیوں اور لڑکوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ 

ان علامات میں اسکول کی پڑھائی، ہوم ورک اور کام کاج پر توجہ دینے میں ناکامی، ہائپر ایکٹو ہوجانا (یعنی ہر کام فوراً ہوجانے کی خواہش یا جلد بازی)، لڑائی جھگڑے کرنا، لاپروائی برتنا، عدم توجہ کے باعث تعلیمی کارکردگی خراب ہونا، بے چین رہنا، ایک ہی بات بار بار کرنا اور دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا وغیرہ شامل ہے۔

مرض کی یہ شدت یا اس میں کمی بیشی بلوغت میں بھی جاری رہ سکتی ہے ، لیکن اگر اس کے سدباب کیلئے بچپن ہی سے توجہ دی جائے تو بعد میں بچے ایک اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

وجوہات

ADHD کی تشخیص ایک پیچیدہ عمل ہےکیونکہ ا س کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ موروثی، ماحولیاتی یا جینیاتی عوامل میں سے کوئی ایک یا سب کا مجموعہ ہو سکتی ہے۔ تاہم کچھ خطرنا ک عوامل جیسے مادرشکم میں زہریلے اثرات پھیلنے کے باعث یا وقت سے پہلے بچہ کی پیدائش یا زچگی کے دوران استعمال ہونے والی ادویات کے مضر اثرات بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں۔ 

تشخیصی عمل کو پیچیدہ بنانے کے لئے بہت سی علامات معمول کے طرز عمل جیسی ہی نظرآتی ہیں۔ مزید برآں، بہت ساری دوسری حالتیں ADHD سے ملتی جلتی ہیں۔ لہٰذا، علامت کی دیگر ممکنہ وجوہات کو ADHD کی تشخیص تک پہنچنے سے پہلے دھیان میں رکھنا چاہئے۔ADHD اخلاقی ناکامی، والدین کے خراب روّیوں یا آپس کے تعلقات، گھریلو پریشانیوں، اساتذہ یا اسکول کے غیر معیاری ہونے، بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے، کھانے کی الرجی یا زیادہ شوگر کی وجہ سے نہیں ہوتا۔

علاج و سدباب

فی الحال، ADHD کے دستیاب علاج اس کی علامات کو کم کرنے اور کام کو بہتر بنانے پر مرکوز ہیں۔ علاج میں ادویات ، طرح طرح کی سائیکو تھراپی ، طرز عمل کو ٹھیک کرنا، تربیت اور تعلیمی مدد شامل ہیں۔ نیورولوجسٹ یا ذہنی صحت کے ماہر ین یا ماہرین نفسیات، نفسیاتی تشخیص، معائنہ اور روّیوں کے تجزیے کے مطابق مرض کی تشخیص کرسکتےہیں۔ علاج کے ضمن میں نفسیاتی طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ کگنیٹیوبیہیوریل تھراپی(CBT)اور مشاورت کو اپنا یا جاسکتاہے۔ 

اس کے علاوہ ذہنی بالیدگی یا تندرستی کی ادویات بھی تجویز کی جاسکتی ہیں۔ میسا چوسٹس جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر اسٹیون سن اور ا ن کی ٹیم نے ADHDمیں مبتلا 86افراد پر تحقیق کی، جن میں دوائوں کے استعمال کے باوجو د اس مرض کی علامات موجود رہیں۔ 

تحقیق کے مطابق دوائیں سب کچھ نہیں کرتیں، وہ بس علامات کو کم کرسکتی ہیں، تاہم لوگوں کو اپنی عادات پر قابو پانے کا طریقہ نہیں سکھا پاتیں، اس لیے ا س مرض میں مختصر مدت کی سائیکو تھراپی یا نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

تازہ ترین