• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسانی سے پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہونے کی وجہ سے ہمیں بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔ لیکن ذرا تصور کریں کہ جن لوگوں کو حروف اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتے نظر آتے ہیں یا وہ حرف ’ب‘ اور ’پ‘ کے درمیان فرق نہیں دیکھ پاتے ، انہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کی 5٪ سے 10٪فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے ، جس کی وجہ سے ہر روز ان کی زندگی مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اکتوبر کا مہینہ ڈسلیکسیا (Dyslexia) سےآگاہی کا مہینہ ہے،جس میںہم شعوری طور پراس بیماری میں مبتلا لوگوں کی زندگی اور ان کی صورتحال کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر آپ کے بچے کو سیکھنے کے عمل میں مشکل پیش آتی ہے یا وہ پڑھنے لکھنے میں کم صلاحیت کا حامل ہے یااس کی اسکول میں کارکردگی بہتر نہیں ہے تو اس کی وجہ ڈسلیکسیا (Dyslexia)بھی ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی ذہنی بیماری یا معذوری نہیں ہے بلکہ اس کے شکار افراد کو سیکھنےکے عمل میں دشواری محسوس ہوتی ہے، تاہم انہیں کند ذہن یا نکما نہیں کہا جاسکتا۔ 

دراصل ہم بچے کی ذہنی استطاعت کے مطابق اس کے سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ نہیں لگا پاتے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اسے پڑھانے لکھانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہم سارا الزام بچے پر دھر دیتے ہیں ۔ 

لازمی امر ہے کہ اگر چھ سال کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جائے تو سب بچے ایک جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے، لیکن یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آخری دسواں بچہ بھی لکھنا پڑھنا سیکھ ہی جائے گا چاہے اس میں زیادہ وقت لگے ، بس صبر واستقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو ڈانٹنے یا سزا دینے کے بجائے اس کی وجہ کو تلاش کرنا چاہئے ۔

ڈسلیکسیا کی علامات ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ کچھ بچے ہجے کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو کچھ لکھنے میں جدوجہد کررہے ہوتے ہیں، کچھ بچے اس کشمکش میں لکھنا جلدی سیکھ نہیں پاتے کہ دائیں ہاتھ سے لکھنا ہے یا بائیں ہاتھ سے۔ بعض لوگوںسےعمر بھر املا اور گرامر کی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ بچوں کواس مشکل سے نکالنے کیلئے والدین کا کردار بہت اہم ہو جاتاہے۔ 

والدین کو اپنے بچے پر ابتدا ہی سے نظر رکھنی چاہئے کہ اس کے لکھنے پڑھنے کی کیفیت، اس کے منہ سے نکلنے والے عام بول چال کے الفاظ، ڈرائنگ کرنے، لفظ جوڑنے اور توڑنے اور حروف کو پہچاننے کے عمل میں اس کی کارکردگی کیسی ہے تاکہ جلد از جلد یہ معلوم کرلیا جائے کہ بچے کو کس محاذ پر ناکامی یا کمزوری کا سامناہے۔ اس کیلئے والدین کو بچے پر خصوصی توجہ اور وقت دینے کی ضرورت ہے۔ 

بچے کے سیکھنے کی رکاوٹ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینے کی وجہ سے والدین ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں اور بچہ سمجھنے لگتاہے کہ اسے کچھ نہیں آتا اور نہ ہی وہ اچھی طرح سیکھ سکتاہے۔ اس طرح بچے نفسیاتی طور پراحساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، انہیں لگتاہے کہ انہیں اہمیت نہیں دی جارہی اور وہ اپنی بات کرنے یا دوسروں کی مدد مانگنے میں ہچکچانے لگتے ہیں۔ بار بار پوچھنے پر جب ایسے بچوں کو ڈانٹا جاتاہے توان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ یاد کرنے یا سیکھنے کے عمل میں مزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کا نتیجہ ذہنی دبائو کی صورت نکلتاہے ۔

ڈسلیکسیا کے ماہرین ایسے بچوں کو اسپیچ تھراپی یا گفتگو کے مراحل سے شناخت کرتے ہیںاور ان کی کمزوریاں معلوم کرکے انہیں درست کرنے کے مشورے دیتےہیں ۔ ان کا مشورہ یہی ہوتا ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کی مناسبت سے ایسے کھلونے یا تعلیمی کتابیں لا کردی جائیں، جن کے ذریعے کھیل کھیل میں رنگوںیا اشکال کی مدد سے بچے حروف پہچاننے لگیں۔ اس کے علاوہ انہیں دلچسپ ، رنگ برنگی ،تصویروں سے مزین کہانیاں، کتابیں اور رسائل لا کر دیں۔ 

بچوں کے ٹیچرز سے ملیں، ان کی کارکردگی پر رپورٹ لیں، اگر کسی بچے میں ڈسلیکسیا کی شناخت ہوجائے تو ٹیچرز کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور سب مل کر بچے کو اس پریشانی کی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کریں۔

ضروری نہیں کہ ڈسلیکسیا میں مبتلا افراد ناکام ہوں، یہ بہت کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے کامیاب شخصیات کی ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں، جو اپنے بچپن میں ڈسلیکسیا کا شکار تھیں۔

٭امریکا کی بہترین اداکارہ جینیفر آنسٹن بھی ڈسلیکسیاکا شکار تھیں اور یہ چیز ان پر20سال کی عمر میں آشکار ہوئی۔ انھیں اسکول میں کتابیں پڑھنے میں دقت کاسامنا ہوتا تھا، اس سے بچنے کیلئے وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں اور مختلف ٹیبلوز میں بھالو یا جوکر بن کر اپنی ٹیچر کو خوش کرتی تھیں۔ 

جب انھیں ڈسلیکسیا کا پتہ چلا تو ایسا محسوس ہوا کہ ان کے بچپن کے سارے ڈرائونے خواب ختم ہوگئے ہیںیعنی جن محرکات کی وجہ سے وہ ذہنی دبائو کا شکار رہی تھیں، وہ تو ان کے بس میں ہی نہیں تھے۔

٭اپنے کام سے ایک دنیا کو حیرت میں مبتلا کرنے والے ہالی ووڈ کے چوٹی کےفلم میکر اسٹیون اسپیل برگ کو بھی60سا ل کی عمر میں پتہ چلا کہ وہ بچپن میں ڈسلیکسیا کا شکار تھے۔ اسکول میں ان کے ساتھ بچے ناروا سلوک رکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ اسکول میں جدوجہد کرتے رہے جبکہ 1968ء میں کالج سے نکال دیےگئے۔ 

کالج سے نکالے جانے کے بعد مشہور فلم میکر نے بڑی اسکرین کا رخ کیا اور مشہور کلاسک فلم The Goonies لکھی اور پروڈیوس کی، اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

٭لیجنڈری ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی مرحوم کے بھی اسکول کا ابتدائی زمانہ ڈسلیکسیا کی وجہ سے بہت متاثر رہا، انھیں دوسروں سےفائٹ کرنے سے پہلے ڈسلیکسیا سے فائٹ کرنی پڑی۔ بعد میں دنیا نے نہ صرف محمد علی کے یادگار پنچ دیکھے بلکہ ان کے فرمائے گئے اقوال و فرمودات کو بھی یاد رکھا۔ ان کا مشہور قول ہے کہ اگر کسی کا کوئی تخیل نہیں ہے تو وہ پرواز نہیں کرسکتا۔

تازہ ترین