• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ حضرت آدمؑ جو دین لے کر آئے تھے،یعنی دینِ اسلام ،رسول اکرمﷺ پر اس کی تکمیل کردی گئی۔آپﷺ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔جس طرح آپﷺ پر نبوت کی تکمیل کردی گئی، بالکل اسی طرح دین بھی آپﷺ کی ذاتِ گرامی پر مکمل کردیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا،اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کیا۔(سورۃ المائدہ)ایک مقام پر یوں فرمایاگیا:جو چیز تمہیں رسولﷺ دیں، اسے لے لو اورجس چیز سے منع کریں، اس سے باز آجاؤ‘‘۔آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ مردود ہوگی۔(بخاری ومسلم)جامع ترمذی میں ہے:تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائےراشدینؓ کی سنت پر عمل کرو۔

سرورِ کونین ،حضرت محمدﷺ جو شریعت اوردین لے کر آئے،اس میں ہردور کے مسائل کا حل موجود ہے،اس کی اتباع میں ہی انسانیت کی فلاح اور نجات کا راز مضمر ہے

پروردگار عالم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا،اور یہ بھی اس کا بے پایاں اور عظیم احسان اور انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایمان اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا اور خداوندِ قدوس کا سب سے اعلیٰ احسان اور انعام یہ ہے کہ ہمیں افضل الانبیاء، امام المرسلین، خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا امتی بنایا،دین کی تکمیل خاتم الانبیاءﷺ پر ہوئی۔جو دین حضرت آدم علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام اور دیگر انبیاءؑ لائے تھے ۔ جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کا متفقہ دین تھا، اس دین کی تکمیل حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی پر ہوئی۔آنحضرت ﷺنے اس دین کو مسلسل 23 برس طرح طرح کی تکلیفیں سہہ کر، ایذائیں برداشت کرکے، مصائب و مظالم کے پہاڑ اٹھاکر، لوگوں کے طعنے سن کر مخلوقِ خدا تک پہنچایا۔ 

حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان ہوا۔’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی،اسلام کو تمہارے لئے بطورِ دین پسند کیا ہے‘‘۔اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل اور جامع دین ہے۔ دینِ اسلام نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے، ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین،اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔قرآنِ مقدس نازل کرکے اعلان فرمایا کہ قرآن میں اصولِ دین کو کھول کر بیان کیاگیا ہےاور نبی اکرمﷺ کو مبعوث فرماکے اعلان کیاکہ تمہارے لئے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔

رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ فرمائیے،احادیث و سیرت کی کتابوں میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک ایک لحظہ محفوظ ہے۔اُمت کا ہر آدمی جو کام بھی کرنا چاہے آنحضرت ﷺ کی ذاتِ گرامی میں اس کے لیے کامل نمونہ موجود ہے۔شادی ہو یا غمی، صحت ہو یا بیماری، سفر ہویا حضر، جنگ ہو یاصلح، سسر ہو یاداماد، والدین ہوں یا اولاد، سربراہِ مملکت ہو یا مزدور، مسجد ہو یا بازار، عبادت ہو یاتجارت، نماز ہو، روزہ ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، جنازہ ہو، حج ہو، قربانی ہو، عمرہ ہو، غرض یہ کہ زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آنحضرت ﷺکی ذاتِ اقدس ایک مسلمان کے لیے کامل نمونہ ہے۔ 

حتیٰ کہ اس شفیق و مہربان پیغمبر ﷺ نے قضائے حاجت اور تھوکنے تک کے طریقے اور آداب تک امت کو سکھادئیے۔ فرمایا کعبہ کی طرف منہ کرکے نہ تھوکنا۔ کعبہ کی طرف منہ کرکے اور پیٹھ کرکے قضائے حاجت نہ کرنا۔ راستے میں بیٹھ کر پیشاب نہ کرنا، جس طرف سے ہوا آرہی ہو اس طرف منہ کرکے پیشاب نہ کرنا۔

جس شفیق پیغمبر ﷺ نے تھوکنے تک کے، بال کٹوانے اور ناخن ترشوانے تک کے۔ ہاں جس مشفق پیغمبر ﷺ نے جملہ امور کے آداب اور طریقے امت کو سکھائے، کیا اس پیغمبر ﷺ نے دین و دنیا کے دوسرے معاملات میں راہنمائی نہ کی ہوگی؟ کیا اس پیغمبر ﷺ نے عبادت و تجارت، شادی و غمی، اذان و تکبیر، نماز و روزہ کے آداب اور مسائل نہیں سکھائے ہوں گے؟ لازماً سکھائے ہیں، اور زندگی گزارنے کے طور طریقے، عبادت و تجارت کے آداب ضرور بتائے ہیں۔لہٰذاجو کام آنحضرتﷺ، خلفائے راشدینؓ اور صحابۂ کرامؓ سے ثابت نہیں،وہ خلاف شرع اور بدعت ہوگا۔

ہمارے رسول ﷺرسول کامل ہیں کہ ان پر دین کی تکمیل ہوئی۔ہمارے پیغمبر ﷺ کی زندگی اور سیرت کا ایک ایک لحظہ محفوظ اور قابل عمل ہے۔ ان کی اتباع اور پیروی کا نام ہی دین ہے،آپﷺ کی تعلیمات اور شریعت کی پیروی ہی ہمارے تمام مسائل کا حل اوردین و دنیا میں کامیابی کا سرچشمہ ہے۔ سنت رسولؐ سے اعراض بے دینی ہے۔ تو پھر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ زندگی گزارنے کا ہرہرگوشہ اورہر ہر شعبہ اسوئہ رسولﷺ اور سنت پیغمبر ﷺ کے مطابق ہوگا، تو وہی دین ہوگا۔

اگر کوئی شخص عبادت و نیکی اور ثواب کا کوئی ایساخود ساختہ کام کرے گا ،جس کا وجود آنحضرت ﷺ کے مبارک دَور میں نہیں تھا اور خلفائے راشدین ؓکا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی نظر آتا ہے اور اصحابِ رسول بھی وہ کام نہیں کرتے تھے، آج کوئی شخص اس کام کو نیکی اور دین سمجھتا ہے تو وہ سراسر فریب ، دھوکے اور غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کام ثواب اور دین نہیں ہوگا ،بلکہ خلاف شرع اور ایک خود ساختہ عمل ہوگا۔

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں: عبادت کا جو کام اصحاب رسول ﷺنے نہیں کیا، وہ کام تم بھی نہ کرو کیونکہ پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، جسے یہ پچھلے پوراکریں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اے مسلمانو! اور پہلے لوگوں کے طریقے اختیار کرو۔ (الاعتصام علامہ شاطبی)

عبادت و نیکی اور دین کا ہر کام کرتے ہوئے پرکھنا ہوگا۔ اور دیکھنا ہوگا کہ آنحضرتﷺ اور اصحاب پیغمبرﷺ کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔اگر اس کا ثبوت آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دور سے مل جائے تو وہ کام سنت ، ثواب، نیکی اور دین ہوگا،اللہ کی رضامندی کا موجب اور آنحضرتﷺ کی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ اگر اس کام کا ثبوت اور نام ونشان آنحضرتﷺ کی سیرت و سنت میں بھی نہ ہو، اصحاب رسولﷺ کے اعمال سے بھی نہ ہو، تو پھر وہ کام بظاہر کتنا ہی خوش نما کیوں نہ ہو۔ بظاہر نیکی معلوم ہو وہ سنت اور دین نہیں ہوگا، بلکہ خود ساختہ عمل اور گمراہی ہوگا، وہ کام غضب خداوندی کا موجب اور رسول اکرمﷺ کی ناراضی کا سبب ہوگا۔

وہ کام اور وہ عمل دین اور نیکی ہوگا جوقرآن وسنت اور آنحضور ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺ کے عمل سے ثابت ہو۔یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جو شخص بھی دین اور نیکی کا کوئی کام کرنا چاہتا ہے، اُسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ آیا حضور اکرم ﷺاوراصحابِ رسول ﷺنے یہ کام کیا تھا؟ یا اس کام کے کرنے کاحکم دیا تھا؟ اگر آنحضرت ﷺ کی مبارک زندگی اور اصحابِ رسولﷺ کی زندگیوں میں وہ کام ہوا، اور وہ شریعت اور قرآن وسنت سے ثابت بھی ہو اور انہوں نے وہ کام کیا، یاکرنے کا حکم دیا تو پھر وہ کام دین بھی ہوگا، ثواب بھی ہوگا اور باعث رحمت بھی ہوگا۔ان تعلیمات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خاتم الانبیاء،سیدالمرسلین،حضوراکرمﷺ جو شریعت اوردین لے کر آئے درحقیقت اس کی اتباع میں ہی انسانیت کی فلاح اور نجات کا راز مضمر ہے۔

تازہ ترین