• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ حافظ شیرازی کسی دوشیزہ پر فریفتہ ہوئے تو انہوںنے ایک شعر کہا جس کا مفہوم یہ تھاکہ اگر وہ میرے دل کا تحفہ قبول کرنے پر تیار ہوتو میں ا س کے چہرے کے تِل کے بدلےسمر قند و بخارا فدا کردوں۔ امیرتیمور لنگ نے اصفہان شہر کو فتح کرنے کے بعد جنگ و جدل سے فارغ ہوکر جب دربار لگایا تو کسی نے حافظ شیرازی کا یہ شعر پڑھا ۔ 

اب جبکہ سمر قند و بخارا تیموری حکومت کے اہم ترین اثاثے تھے اور سمرقند اس حکومت کا پایہ تخت بھی تھا، اس لیے امیر تیمور کو بہت بُرا لگا اور اس نے حافظؔ کوحاضر ہونے کا حکم جاری کیا۔ 

مفلوک الحال حافظ شیرازی کوجب پیوند لگے لباس میں حاضر کیا گیا تو اس کی حالت دیکھ کرتیمور لنگ کی حسِ مزاح جاگ اٹھی اور اس نے پوچھا کہ جس سمرقند کی خوشحالی کیلئے میں خون کے دریا بہا رہا ہوں، تم اسے ایک دوشیزہ کے چہرے کے تِل کے بدلے لُٹانا چاہتے ہو، توحافظ نے ادب سے جواب دیا کہ انہی غلط بخشیوں کی وجہ سے حافظ ؔ آج اس حال میں آپ کے سامنے ہے۔ یہ سن کر تیمور ہنس پڑا اور حافظ کو مال د ے کر رخصت کردیا۔

سمرقدیم فارسی کے لفظ ’اسمارا‘ سے نکلا ہے،جس کا مطلب پتھر یا چٹان ہے اور قند کا مطلب ہے قلعہ یا قصبہ۔ یوں سمرقند کاپورا مطلب ’چٹانی قلعہ‘ بنتاہے۔ سمر قند، ازبکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور صوبہ سمرقند کا دارالحکومت ہے۔ 

زمانہ قدیم سے مغرب اور چین کے درمیان شاہراہ ریشم کے وسط میں واقع یہ شہر اسلامی تہذیب وتمدن اور تحقیق کے مرکز کے طور پر جانا جاتارہاہے۔ 2ہزار750سالہ قدیم اس شہر کو یونیسکو کی جانب سے 2001ء میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا۔ سمرقند کی روٹیاں بہت مشہور ہیں اور بڑی تعداد میں یہاں کے سیا ح تحفہ کے طورپر روٹیاں اپنے ملک لے کر جاتے ہیں۔ سمرقند میں درجنوں خوبصورت مزار، مقبرے اور مساجد ہیں ۔

بی بی خانم مسجد

ازبکستان کی مشہور مساجد میں سے ایک یہ تاریخی مسجد چودھویں صدی کے عظیم فاتح امیر تیمور نے بنوائی اور اپنی بیوی کے نام سے اسے موسوم کیا۔ 1399ء میں فتح کے بعد نئے دارالحکومت سمر قند میں تعمیر ہونے والی مسجد کا گنبد 40 میٹر اور داخلی راستہ35میٹر بلند ہے۔ 19ویں صدی میں ایک زلزلے کی وجہ سے اس مسجد کو کافی نقصان پہنچا، جس کے بعد 1974ء میں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

حضرت خضر مسجد

ایک پہاڑی پر واقع یہ مسجد آٹھویں صدی میں تعمیر کی گئی، جسے بعد میں چنگیز خان نے 13ویں صدی میں حملے کے دوران جلادیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر 1834ء میں دوبارہ کی گئی ۔ 90ء کی دہائی میں سمر قند کے مخیر حضرات نے اسے اصل حالت میں بحال کردیا تھا۔ یہ سمرقند کی خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے۔

مقبرہ تیمور لنگ

سمر قند میں واقع مقبرہ تیمور لنگ ’’گورِ امیر تیمور‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، یہ عمارت ازبکستان کے عظیم تاریخی آثاراور سمر قند کی مشہور یادگاروں میں سے ایک ہے۔807ہجری میں تعمیر ہونے والی اس عمارت کا گنبد اور اندرونی حصہ ایرانی کاشی کاری کی عظمت کا شاہکارہے۔ 

پہلے پہل امیر تیمور نے 1403ء میں اپنے محبوب بھتیجے محمد سلطان کی یاد میں اس مقبرے کی تعمیرکا فرمان جاری کیا تھا ، پھر 1405ءمیں اپنی آخری سانسوں تک امیر تیمور نے خود اس عمارت کے تعمیراتی کام کی نگرانی کی۔ بعدازاں اس عمارت نے خاندانی مقبرے کی حیثیت اختیار کرلی، جس میں تیموری سلسلے کے دیگر سلاطین بھی دفن کیے جاتے رہے۔

اپنے گنبد ، اعلیٰ معیار کی کاشی کاری، عمدہ نقش و نگار والی لکڑیوں اور سنگ مرمر کی وجہ سے مشہور مسجد نما اس عمارت کی تعمیر اور توسیع 15ویں صدی کے وسط تک ہوتی رہی ۔ تیموری خاندا ن کی توجہ کا مرکز رہنے والی اس عمارت کیلئے مشہورایرانی معمار عبداللہ بن محمد بن محمود اصفہانی کو اصفہان سے سمرقند بلا کر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔ 

حضرت دانیالؑ کا مزار

سمر قند میں موجود ایک مزار کےبارے میں کہا جاتاہے کہ یہ پیغمبر حضرت دانیال ؑیا دانیار کا مزار ہے (مقامی زبان میں دانیال کو دانیار کہاجاتاہے)۔ یہاں مسلمان، یہودی اور عیسائی سب آتے ہیں اور اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ 

یہ غیر معمولی عمارت 20میٹرسے زائد طویل ہے اور عہدِ وسطیٰ کے اسلامی طرز میں سرخ رنگ کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے ۔ اس کے محراب اور گنبد اس کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ مزار میںگہرے سبز مخمل کے کپڑے سے ڈھکی ایک 18میٹر طویل قبرہے، جس پر سونے سے قرآنی آیات نقش کی گئی ہیں۔

سینٹ ایلیکسی کیتھڈرل

سینٹ ایلیکسی کیتھڈرل کی تعمیر 1912ء میں سمر قند میں تعینات روسی فوج کی کوسیک رجمنٹ کیلئے کی گئی تھی ۔ یہ کیتھڈرل آج بھی بہتر حالت میں موجود ہے اور دیکھنے کے لائق ہے۔

مدرسہ ریگستان

سمر قند میں ریگستان ایک علاقے کا نام ہے، جہاں مدرسہ ریگستان موجود ہے۔ یہاں تین قلعہ نما، پرشکوہ اوربلندو بالا عمارتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ تینوں دینی مدارس دہلی کے شاہی قلعہ اور شاہی مسجد جیسے ہیں اور طلیا کوری، شیر دار اور الغ بیگ کے نام سے منسوب ہیں۔ 

کمیونسٹ انقلاب کے دوران تینوں مدارس کو میوزیم کا درجہ دے کر ان کے درمیانی میدان میں اسٹیڈیم کی طرح نشستیں لگا دی گئی تھیں، جن کے بارے میں قیاس ہے کہ یہاں تھیٹر کی سرگر میاں ہوتی تھیں۔

تازہ ترین