• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

زیادہ دماغی سرگرمیاں عمر کو کم کرسکتی ہیں، تحقیق

انسان کو اللّٰہ تعالیٰ نے خلق کیا اور اس کے اختتام کا وقت بھی اسی کو معلوم ہے، لیکن پھر بھی بنی نوع آدم اپنے لیے لمبی اور سعادت مند زندگی کی خواہش رکھتا ہے۔

سائنس چونکہ جذبات اور روحانیت سے عاری ہے اس لیے یہاں ہر شے کو مادی و تجزیاتی اور تجرباتی پیمانوں پر پرکھتے ہوئے ہی نتائج اخذ کرتی ہے۔

سائنسدان نئی تحقیق میں زندگی کی طوالت سے متعلق اہم انکشافات سامنے لائے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ انسان کے اہم ترین عضو یعنی دماغ ہی اس کی لمبی اور چھوٹی عمر کا فیصلہ کرتا ہے۔

یہ تحقیق امریکی ریاست بوسٹن کے ہارورڈ میڈیکل اسکول میں وفات پاجانے والے انسانوں کے پوسٹ مارٹم کے دوران حاصل کردہ دماغوں کے ٹشوز پر کی گئی۔

تحقیق میں حیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ جن لوگوں کی عمریں 60 سے لے کر 80 کے درمیان ہیں وہ ان سے بھی لمی عمر پانے والے انسانوں سے بہت مختلف ہیں۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں کی زندگی 80 سے زائد تھی، ان کے دماغ میں ریسٹ (REST) نامی پروٹین کی مقدار بہت کم ہے۔ یہ پروٹین عمر رسیدہ لوگوں کے مقابلے میں کم عمر والے افراد میں دماغی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ پروٹرین الزائما جیسی بیماری کے خلاف حفاظتی کام کرتا ہے، تاہم اس بات کی مکمل تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ یہ انسانوں کو موت سے بچاتا ہے یا پھر زندگی کو بڑھا دیتا ہے۔

یہاں یہ بات اخذ کی گئی کہ جو انسان کم سے کم دماغی سرگرمیوں میں شامل ہوتا ہے، اس کی زندگی کا دورانیہ لمبا جبکہ جو زیادہ سے زیادہ دماغ کا استعمال کرتا ہے اس کی زندگی کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے۔

اس تحقیق سے علیحدہ ایک نیورو سائنسدان مائیکل میک کونیل کا کہنا تھا کہ اس تحقیق میں حیران کردینے والی چیز ان کے لیے دماغ کی سرگرمی ہی ہے، اور یہاں یہ بات جان کی حیرانی ہوتی ہے کہ عام سرگرمی لمبی عمر کے لیے اچھی ہے۔

ریسٹ نامی اس پروٹین کا زندہ انسان کے دماغ میں تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے اسی وجہ سے سائنسدانوں نے چوہوں اور راؤنڈ وارمز پر تجربے کرنا شروع کیے تاکہ اس بات کا اندازہ بھی لگایا جاسکے کہ زندگی کے دوران ایک جاندار پر کتنا اثر انداز ہوسکتا ہے۔

تحقیق دانوں کے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ انہوں نے جیسے ہی ریسٹ پروٹین کی سرگرمی کو تیز کرنا شروع کیا تو اس کے دماغ کی سرگرمی کم ہوتی چلی گئی اور اس کے ساتھ انہوں نے مقررہ اوسط عمر سے زائد زندگی گزاری۔

اسی طرح جب وارمز میں ریسٹ کی مقدار کو کم کیا گیا تو اس کی دماغی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جس کے ساتھ ہی اس کی اوسط زندگی کا دورانیہ کم ہوگیا۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کے پروفیسر اور اس تحقیق کے معاون بروس ینکر کا کہنا ہے کہ ان کی لیبارٹری یہ دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا ان ریسٹ نامی ان پروٹینز کو بڑھانے سے اعصابی بیماریوں کے علاج سے متعلق نئی راہیں کھولی جاسکتی ہیں؟

تازہ ترین
تازہ ترین