• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا کی جوہری بم باری نے جاپان جیسی عالمی طاقت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ نیز، اس کی نو آبادیات بھی آزاد ریاستوں میں تبدیل ہو گئیں، جن میں پاکستان کا قریب ترین دوست، چین بھی شامل ہے۔ اس ہول ناک واقعے کے بعد بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے جاپان کو تاریخ کا حصّہ قرار دے دیا ۔ 

اس موقعے پر جنگ جُو جاپانی قوم نے امریکا سے جنگ کے میدان میں انتقام لینے کی بہ جائے اقتصادی میدان میں سبقت حاصل کرنے کی ٹھانی۔ یاد رہے کہ ہمہ وقت جنگ و جدل پر آمادہ، اپنی شجاعت و دلیری کے گُن گانے والی اور خود کُش حملوں کو بہادری کی معراج قرار دینے والی جاپانی قوم کو سَر نیہوڑائے کام کرنے والی قوم میں تبدیل کرنا کسی کرامت سے کم نہیں تھا۔ 

1945ء میں جاپان نے ہتھیار ڈالے اور اس واقعے کے 4برس بعد جاپانیوں کی مصلحت پسند حکمتِ عملی نے امریکا کو اُن کی سر زمین چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔بعدازاں، چند دہائیوں ہی میں جاپان نے دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بن کر نہ صرف امریکا اور یورپ کو حیرت میں مبتلا کر دیا، بلکہ جنوب مشرقی ایشیا سمیت دوسرے خطّوں کے ممالک اس کی تقلید بھی کرنے لگے۔

پاکستان کو بھی ایک ایسی خارجہ پالیسی بنانا ہو گی کہ جو عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی حکمتِ عملی پر استوار ہو۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اُس پالیسی کا تعیّن کرنا ہو گا کہ جس میں عوام کی بہتری مضمر ہو۔ واضح رہے کہ کم و بیش ہر ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ اختلافات و تنازعات ہوتے ہیں، لیکن ایک فریق دوسرے فریق کے اقدامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتّب نہیں کرتا۔

جاپان کی صلح جویانہ اور مفاہمت پسندانہ پالیسی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عالم میں معتبر مقام حاصل کرنے کے لیے اقوام کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ جاپان نے جارحانہ سفارت کاری کی بہ جائے محنت و قابلیت سے دُنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج کتنے لوگ کسی جاپانی سفارت کار، بین الاقوامی امور کے ماہر یا وزیرِ خارجہ کے نام سے واقف ہیں۔ جاپان کی قومی طاقت ہی اُس کی سب سے بڑی سفیر ہے اور آج یہ دُنیا میں سب سے زیادہ امداد دینے والا مُلک ہے۔ یاد رہے کہ پہل کی بہ جائے ردِ عمل پر مبنی سفارت کاری کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی ۔ ایسی خارجہ پالیسی اپنانے والی اقوام کو اپنی تمام تر توانائیاں اقوامِ عالم کو مطمئن کرنے پر صَرف کرنا پڑتی ہیں۔ 

نیز، ہر وقت ردِ عمل دینے کے لیے دوسرے فریق کے عمل کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی مرتّب کرتے وقت پہل کاری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں یا اسے ردِ عمل پر استوار کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے سفارت کاری کے میدان میں ہم ردِ عمل کو ترجیح دیتے ہیں اور زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی مرتّب کرتے وقت ہمیشہ بھارت کے اقدامات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے معاندانہ رویّے کے سبب ہمارا چوکنّا رہنا نہایت ضروری ہے، لیکن اپنی ہر پالیسی اسی زاویے سے مرتّب کرنا ضروری نہیں۔

بِلاشُبہ بھارت، جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اور طاقت وَر مُلک ہے، لیکن ایک چھوٹا مُلک اپنی دانش مندانہ حکمتِ عملی سے اپنی خود مختاری برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا اور ویت نام سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کی، جنہیں آج ’’ایشین ٹائیگرز‘‘ کہا جاتا ہے، مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ 

ویت نام 50برس تک جدوجہد میں مصروف رہا اور آج اس کی اہمیت مسلّم ہے۔ ایک جزیرے پر محیط اور 55لاکھ نفوس پر مشتمل، سنگاپور کا پاسپورٹ دُنیا میں سب سے زیادہ طاقت وَر پاسپورٹ ہے۔ یعنی سنگاپور کے باشندے دُنیا کے سب سے زیادہ محترم اور پسندیدہ شہری ہیں۔ ان ممالک نے جارحانہ اور ردِ عمل کی سفارت کاری کی بہ جائے حکمت پر مبنی پالیسی سے دُنیا میں اپنا مقام بنایا۔

لہٰذا، پاکستان کو بھی ایک ایسی خارجہ پالیسی بنانا ہو گی کہ جو عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی حکمتِ عملی پر استوار ہو۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اُس پالیسی کا تعیّن کرنا ہو گا کہ جس میں عوام کی بہتری مضمر ہو۔ واضح رہے کہ کم و بیش ہر ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ اختلافات و تنازعات ہوتے ہیں، لیکن ایک فریق دوسرے فریق کے اقدامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتّب نہیں کرتا۔ 

مثال کے طور پر سنگاپور نے ملائیشیا سے علیحدگی حاصل کی، جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے جوہری عزائم کا سامنا ہے، چین اور جاپان، چین اور امریکا اور چین اور بھارت کے درمیان بھی مفادات کی جنگ جاری ہے، یوکرین کے معاملے پر رُوس اور یورپ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور یورپی ممالک کو بریگزٹ، قوم پرستی، شرحِ نمو میں گراوٹ اور شامی مہاجرین جیسے مسائل کا سامنا ہے، لیکن کیا ان ممالک نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کو فراموش کر دیا۔ یاد رہے کہ ان ممالک ہی میں سادگی و کفایت شعاری کے نعرے جچتے ہیں۔ آج وزیرِ اعظم، عمران خان اور اُن کے رفقا یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسئلہ کشمیر پر دُنیا پاکستان کی بہ جائے بھارت کا ساتھ دیتی ہے اور انسانی حقوق پر اپنے تجارتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ 

گرچہ پاکستان حق بہ جانب ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمارے دوست ممالک یا دُنیا کی دوسری ریاستیں ہماری خاطر اپنے مفادات فراموش کر دیں۔ واضح رہے کہ آج کوئی بھی مُلک اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی پالیسی سے انحراف نہیں کر سکتا۔ امریکا نے کل مشرقِ وسطیٰ میں فوجی مداخلت کی تھی اور آج اس خطّے کو خیر باد کہہ رہا ہے۔ 

نیز، اب کوئی یورپی مُلک بھی عرب اور اسلامی دُنیا کے معاملات میں دِل چسپی لینے پر آمادہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کے مفادات کم ہو گئے ہیں، لیکن اس دُوری میں ان ممالک کی داخلی پالیسی کا بھی بڑا عمل دخل ہے، کیوں کہ آج مغربی باشندے جنگ کے نام ہی سے بے زار ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے معاملات میں تبھی کوئی مُلک دِل چسپی لے گا کہ جب ہم سے اُس کے مفادات وابستہ ہوں گے، جب کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری جی ڈی پی کی شرحِ نمو گر کر تین فی صد سے بھی کم ہو چکی ہے۔

پھر ایسی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کیسے کام یاب ہو سکتی ہے کہ جو مستقبل میں دشمن کے نیست و نابود ہونے اور اختلاف رکھنے والوں کے خاتمے پر استوار کی گئی ہو۔ یعنی ہم اپنے مخالف کی تباہی و بربادی کی آرزوئوں پر مبنی پالیسی مرتّب کرتے ہیں۔ اوّلاً، ایسا عملی طور پر ممکن ہی نہیں اور ثانیاً اس سے عوام میں منفی جذبات کو تحریک ملتی ہے۔ غور کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے اندر یہ جراثیم بڑھتے جارہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اس بات پر خوشی مناتے ہیں کہ فلاں مُلک میں پاکستان سے زیادہ خُوں ریزی، افراتفری ،غُربت اور بُھوک پا ئی جاتی ہے۔ 

ان طفل تسلیوں سے محض دل ہی بہلایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، ہم محض دوسروں کو بد دُعائیں دے کر اپنی کام یابی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ گرچہ یہ ایک انتہائی تشویش ناک عمل ہے، لیکن اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے حُکم راں، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، عوام کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں، کیوں کہ اسے وہ اپنی نا اہلی چُھپانے کا سب سے بہتر طریقہ سمجھتے ہیں۔ کم و بیش ہر حکومت ہی نے اپنے پورا دَورسابقہ حُکم رانوں کی نااہلی کا رونا روتے ہوئے گزار ا۔ عوام کو حقیقت بتانے کی بہ جائے اُن میں حد سے زیادہ مایوسی پھیلائی یا پھر انہیں حد سے زیادہ خوش فہمیوں میں مبتلا کر دیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ مُلک کی سیاسی و معاشی صورتِ حال کبھی بھی مستحکم نہیں ہو سکی۔ اب صرف ان باتوں پر جَشن نہیں منایا جا سکتا کہ فلاں مُلک ہم سے بھی بد تر ہے، کیوں کہ آج مواصلات کے جدید ذرایع کی وجہ سے ممالک ایک دوسرے سے اس قدر جُڑ چُکے ہیں کہ کسی ایک مُلک میں ہونے والی ترقّی خطّے کے دوسرے ممالک کو بھی پس ماندگی سے کھینچ نکالتی ہے۔ جاپان نے جنوب مشرقی ایشیا میں یہی کردار ادا کیا، جب کہ چین تو پوری دُنیا کی معیشت کا انجن بن چکا ہے۔ آج ہر مُلک دوسرے مُلک کی خوش حالی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چناں چہ ہمیں بھی اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی کم زوریوں، خامیوں کو دُور کرنا چاہیے۔ 

نیز، ہمیں کسی مسیحا یا سحر انگیز شخصیت کے انتظار میں بھی نہیں رہنا چاہیے کہ جو آناً فاناً ہماری بد حالی کو خوش حالی میں بدل دے گا۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کو اس وقت اسی لیے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے کہ انہوں نے عوام کو بہت زیادہ سُنہرے خواب دکھائے تھے اور اب اُن کے لیے اپنے دعووں سے پیچھا چھڑوانامشکل ہوتا جارہا ہے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سربراہِ حکومت تو مخلص، ایمان دار، محبِ وطن اور عالمی شُہرت یافتہ ہے، لیکن اس کی ٹیم ناکارہ، نا اہل اور بے ایمان ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک سربراہِ حکومت کا کام ہی اچھی ٹیم منتخب اور اُسے رہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے، جو سارے کام کرتی ہے۔ 

نیز، سربراہ کی رہنمائی کی بہ دولت ہی پوری قوم میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔ جاپانی، چینی اور جرمن لیڈر شپ نے یہی کام کیا۔ جنوبی کوریا اور سنگاپور کی قسمت بھی اپنے رہنمائوں ہی کی وجہ سے تبدیل ہوئی۔ یہ ایک مسلّمہ اصول ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں۔ ڈینگ ژیائو پھنگ، لی کو آن یو، نیلسن منڈیلا اور اینگلا مِرکل بلا وجہ تو قابلِ تقلید رہنما نہیں بنے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سوشل میڈیا خود ہی دُرست سمت کی جانب گام زن ہو جائے گا اور ترقّی یافتہ معاشروں میں یہ عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔ تاہم، وطنِ عزیز میں اسے انجمنِ ستایشِ باہمی یا پھر مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا پلیٹ فارم بنا دیا گیا ہے۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ایک جانب عیب جوئی کو بد ترین گناہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خود دن بھر یہی گناہ کمانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم مسلمان ہونے کے ناتے ایک دوسرے کا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ذرا سا اختلاف برداشت نہیں کر سکتے اور معمولی معمولی سی باتوں پر ایک دوسرے کو مَرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے سے برداشت غائب ہو چکی ہے۔ لہٰذا، ہمیں سب سے پہلے اپنا گھر دُرست کرنا ہو گا اور جب یہ سُدھر ہو جائے گا، تو پھر دوسرے بھی ہماری جانب متوجّہ ہو ں گے۔

ردِ عمل پر مبنی سفارت کاری کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ آپ ہمہ وقت غُصّے میں رہتے ہیں اور یوں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نیز، عوام بھی جذباتی ہو جاتے ہیں اور اپنے حکم رانوں سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس سفارت کاری کا دوسرا نام ہی’’ متبادل‘‘ ہے۔ یعنی آپ کو بہ یک وقت کئی راستے کُھلے رکھنے پڑتے ہیں۔ تقاریر اور بیانات سے زیادہ غور و فکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ عملیت پسند بننا پڑتا ہے۔ بہ وقتِ ضرورت عوام کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے اور جمہوری ممالک میں یہ اعتماد انتخابات فراہم کرتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ آئے روز خطاب اور پھر اُس کی ستایش کی روایت مہذّب اقوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی۔ پھر ہر تنازعے کے دو یا اُس سے زاید فریق ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ظالم ہوں یا مظلوم، دُنیا کو ان سب کی بات توجّہ سے سُننا پڑتی ہے، کیوں کہ وہ بھی اقوام عالم ہی کا حصّہ ہیں۔ کیا شمالی کوریا، شامی حکومت، مصر یا افغان طالبان سے مذاکرات نہیں ہوتے۔ البتہ شنوائی و داد رسی کا دارومدار مؤثرخارجہ پالیسی اور بہتر داخلی عوامل پر ہوتا ہے۔ پھر ہمیں عالمی فضا کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ آج کم و بیش ساری دُنیا ہی جنگ و جدل سے اُکتا چکی ہے۔ 

امریکا جیسے طاقت وَر ترین مُلک کا قوم پرست صدر، ڈونلڈ ٹرمپ مختلف ممالک سے اپنی افواج واپس بلا رہا ہے۔ یورپ بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کا اندازہ شامی بُحران میں اُس کی عدم دِل چسپی سے لگایا جا سکتا ہے، اس کے برعکس جو ممالک اب تک جنگوں میں اُلجھے ہوئے ہیں، اُن کی اور اُن کے عوام کی مشکلات بہ تدریج بڑھتی جا رہی ہیں۔ سو، ہمیں دُنیا سے اپنا اصولی مؤقف منوانے کے لیے پہلے اپنی داخلی صورتِ حال کو بہتر کرنا ہو گا اور دُنیا کے مفادات خود سے وابستہ کرنا ہوں گے۔ بہ صورتِ دیگر ردِ عمل کی پالیسی ہماری رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دے گی۔

تازہ ترین