• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی شاہی جوڑا پاکستان آمد پر خوشی سے نہال

برطانوی شاہی جوڑے، شہزادہ ولیم اور اُن کی اہلیہ، کیٹ میڈلٹن نے گزشتہ ہفتے پاکستان میں چار بھرپور دن گزارے۔ کئی روز گزر جانے کے باوجود مُلکی اور غیر مُلکی میڈیا میں اُن کے دورۂ پاکستان کا چرچا ہے۔ ان معزّز مہمانوں کے لیے نہ صرف حکومت،بلکہ عوام بھی دیدۂ دِل فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ شاہی جوڑے نے بھی اپنے والہانہ اور شان دار استقبال پر پاکستان اور یہاں کے عوام کا تہہ دل سے شُکریہ ادا کیا۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین تعلقات کی ایک دیرینہ تاریخ ہے۔ 

قیامِ پاکستان کے بعد سے برطانوی شاہی خاندان کے کئی افراد یہاں کا دَورہ کر چُکے ہیں۔ ملکہ الزبتھ دوم شاہی خاندان کی پہلی شخصیت تھیں، جو 1961ء میں پاکستان آئیں اور اُن کا صدر ایّوب خان نے استقبال کیا ۔ اُن کی پذیرائی اور پُرجوش استقبال تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ کراچی کے عوام سڑکوں پر اُمڈ آئے تھے۔ 1991ء میں شہزادہ ولیم کی والدہ،لیڈی ڈیانا پاکستان کے دَورے پر آئیں۔ اُنہوں نے یوں تو پاکستان کے تین دَورے کیے، تاہم اپنے اوّلین دَورے میں پاکستان کے مختلف حصّوں کا دورہ بھی کیا۔ 

لوگوں سے ملنے کے انداز، سادگی، مقامی ثقافت اور فیشن اپنا کر اپنائیت کا احساس دِلانے جیسے طرزِ عمل نے اُنہیں پاکستان کی بھی شہزادی بنا دیا تھا۔ پھر وہ شہزادہ، چارلس سے علیٰحدگی کے بعد 1996ء میں اور اپنی وفات سے قبل 1997ء میں عمران خان کی دعوت پر پاکستان آئیں۔ 

ایک مرتبہ اُن کے ہم راہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ، جمائما خان بھی تھیں۔ 1997ء میں ملکہ الزبتھ دوئم نے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر پاکستان کا دَورہ کیا، جب کہ شہزادہ چارلس اور اُن کی اہلیہ، کمیلا پارکر اکتوبر 2006ء میں آئے۔ 

گو کہ شہزادہ ولیم کو مستقبل میں شاہی تخت کا وارث سمجھا جا رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کا والدہ کی طرف سے حسب نسب شاہی خاندان سے نہیں، کیوں کہ اُن کی والدہ، لیڈی ڈیانا شاہی خاندان کی فرد نہیں تھیں، جب کہ کیٹ میڈلٹن کے والدین بھی شاہی خاندان سے ہیں۔ اس کے باوجود، اس برطانوی جوڑے کی مقبولیت اور پاکستان میں پذیرائی، بالخصوص نئی نسل میں اُن کے لیے موجود وارفتگی کے جذبات کی بڑی وجہ لیڈی ڈیانا ہی کی شخصیت تھی۔ شاہی جوڑے نے اسلام آباد میں رکشے کی سواری کی اور صدر، وزیرِ اعظم سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ 

وفاقی دارالحکومت ہونے کے ناتے یہاں اُن کی زیادہ مصروفیات حکومتی شخصیات سے ملنے ملانے ہی تک رہیں، البتہ وہ دو اسکولز کے دورے پر گئے اور اسلام آباد کی تفریح گاہوں کی بھی سیر کی۔اسلام آباد کے بعد چترال کی وادیٔ کیلاش کا دَورہ کیا۔ وہاں کی منفرد اور پُرتجسّس ثقافت میں گہری دِل چسپی لی۔

اہلِ چترال نے برطانوی شاہی جوڑے کا روایتی انداز میں استقبال کیا اور اُنھیں چترال کی مقامی ٹوپیاں، چادریں اور لباس تحفتاً پیش کیے، جب کہ وہ روایتی رقص سے بھی خاصے محظوظ ہوئے۔

دورے کے آخری مرحلے میں برطانوی شاہی جوڑا لاہور پہنچا، جہاں اُنہوں نے تاریخی بادشاہی مسجد دیکھی۔ اس موقعے پر شہزادی کیٹ میڈلٹن نے اپنا سر انتہائی قرینے، سلیقے کے ساتھ دوپٹّے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ 

مہمانوں نے قرآنِ پاک کی تلاوت بھی سُنی۔ لاہور کی کرکٹ اکیڈمی میں قومی کرکٹ ٹیم کی کھلاڑیوں سے ملاقات کی اور اُن کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی۔ 

برطانوی شاہی خاندان کا خاصّہ ہے کہ وہ غیر مُلکی دَورے میں عوامی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں اور مصروفیات کو مقامی رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔ اسی لیے شاہی جوڑا جہاں گیا، اُس نے اپنے’’غیر اہم‘‘ ملاقاتیوں، گارڈز، مالی، کرکٹ گرائونڈ میں کام کرنے والے افراد، اسکولز کے بچّوں، ٹیچرز حتیٰ کہ چوکیدار سے بھی ہاتھ ملایا اور خیر خیریت دریافت کی۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ ہر جگہ ہاتھ ملانے میں پہل خود شہزادی نے کی۔

شاہی خاندان کے افراد کا یہ دَورہ تقریباً تیرہ سال بعد ہوا۔ برطانیہ کے شاہی تخت کے متوقّع وارث شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ میڈلٹن کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے جب خبریں منظرِ عام پر آنی شروع ہوئیں اور خود برطانیہ کی جانب سے اسے ایک مشکل، پیچیدہ اور سکیوریٹی کے حوالے سے نازک دَورہ قرار دیا گیا، تو بھارت نے ان خبروں کو سنسنی خیز بنا کر منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ میڈیا کے ذریعے خدشات کو ہوا دے کر دَورہ منسوخ کروایا دیا جائے۔ دَورے کی تصدیق ہونے تک شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ 

برطانوی وزارتِ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کو بھی بنیاد بنایا گیا، لیکن یہ سب سازشیں ناکام ہوئیں اور شاہی جوڑا اپنی طے شدہ مصروفیات بہ طریقِ احسن مکمل کرکے واپس چلا گیا۔ 

نائن الیون کے بعد پاکستان یورپی ہی نہیں، دنیا بھر کے سیّاحوں کے لیے ایک خطرناک مُلک سمجھا جانے لگا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل، عوام اور سیکیوریٹی اداروں کی بیش بہا قربانیوں سے صُورتِ حال میں بہتری آرہی ہے۔ 

شاہی جوڑے کی پاکستان آمد اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے، جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا ایک مثبت اور بہت خوش گوار امیج اُبھرا۔

شہزادی مرکزِ نگاہ، اِک اِک انداز کا لیڈی ڈیانا سے تقابل

بلاشبہ دورۂ پاکستان میں پرنس ولیم کی نسبت، پرنسز میڈلٹن کو کہیں زیادہ توجّہ اور پذیرائی حاصل ہوئی اور اُس کی بڑی وجہ اُن کے ملبوسات، جیولری سے لے کر اندازِ نشست و برخاست تک کا اُن کی ساس( لیڈی ڈیانا) سے تقابل و موازنہ تھا۔ 

وہ جہاز سے اُتریں ،تو اُن کے ٹرکوائز رنگ پہناوے کا لیڈی ڈیانا کے پاکستان آمد کے موقعے پر پہنے جانے والے لباس کے رنگ و انداز سے موازنہ کیا گیا۔ اُس کے بعد گہرے نیلے، سفید و سبز رنگ پہناووں حتیٰ کہ چترالی ٹوپی تک پہننے کے اسٹائل کی تصویریں، ڈیانا کی تصویروں کے ساتھ شئیر کی گئیں۔ 

شہزادی اپنے دورۂ پاکستان سے لے کر تاحال سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ دورے کے دوران ٹاپ ٹرینڈز میں رہیں، تو بعدازاں بھی اُن سے متعلق اَن گنت میمز بنتی رہیں۔ نیز، شہزادی کی آرایش وزیبائش ہی کے سبب نہیں، اُن کی سادگی، ملن ساری، شائستگی، رکھ رکھاؤ اور عوام النّاس میں خُوب گُھل مِل جانے کے باعث بھی تاحال اُن کا موازنہ لیڈی ڈیانا جیسی سحر انگزیز شخصیت ہی سے جاری ہے۔

تازہ ترین