• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابر اعظم کو کپتان بنانا، ’پی سی بی‘ کا ایک جذباتی فیصلہ!

بابر اعظم کو کپتان بنانا، ’پی سی بی‘ کا ایک جذباتی فیصلہ!
قومی ٹی20 کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم

پاکستان کرکٹ کی تاریخ حادثاتی کپتانوں سے بھری پڑی ہے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے کرکٹ کے کھیل میں اپنی ایک منفرد حیثیت رکھنے والی ٹیم پاکستان میں کئی ایسے کرکٹرز کو ماضی میں کپتانی کی مسند پر براجمان کیا گیا، جو ٹیم میں نہیں تھے، پھر ایسا بھی دیکھا گیا کہ کپتانی چھن جانے کے بعد ٹیم میں بھی جگہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا اور اس کی تازہ مثال تینوں فارمیٹس میں قومی ٹیم کی قیادت کرنے والے وکٹ کیپر سرفراز احمد ہیں، جن کو کپتانی سے بورڈ نے فارغ کیا اور پھر ان سے مشاورت کیساتھ ٹیم منتخب کرنے والے چیف سلیکٹر مصباح الحق نے انہیں کسی ایک فارمیٹ کی ٹیم میں شامل کرنا بھی گوارا نہ کیا۔

درحقیقت ایسا پاکستان کرکٹ میں ہوتا رہا ہے اور بورڈ کی موجودہ پالیسیوں کے تناظر میں مستقبل میں بھی ایسا ہوسکتا ہے، 18 اکتوبر کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹی 20 فارمیٹ میں اس سال 15 اکتوبر کو 25ویں سالگرہ منانے والے دائیں ہاتھ کے بلے باز بابر اعظم کو کپتان بنانے کا اعلان کیا، تو کرکٹ کے حلقوں میں یہ بات موضوع بحث بن گئی کہ اتنی جلدی کیا تھی؟

بابر اعظم کو اس ذمہ داری کے لیے منتخب کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں، وہی تو اس وقت واحد بیٹسمین ہیں، جن کے کندھے ٹیم کی بیٹنگ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اور کپتانی کا اضافی بوجھ کہیں ان کو اضافی دباؤ کا شکار نہ کردے اور ایسا ہوا، تو یہ ایک باصلاحیت بیٹسمین کے ساتھ نا صرف ناانصافی کے مترادف ہوگا، بلکہ اس کا براہ راست بوجھ قومی ٹیم پر پڑے گا اور اس کا پہلی بار عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا، جب سری لنکا کے خلاف ٹی20 سیریز میں جہاں سرفراز احمد کی قیادت میں قومی ٹیم کو تین۔صفر کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا، ٹی 20رینکنگ کے نمبر ایک بیٹسمین تین اننگز میں محض 43 رنز کرسکے۔

یاد رہے یہ بطور نائب کپتان بابر اعظم کی پہلی سیریز تھی، اگرچہ ون ڈے سیریز میں بھی بابر اعظم نائب کپتان تھے اور انہوں نے کیرئیر کی گیارہویں سینچری بھی اسکور کی تھی، تاہم وہاں جیت کیساتھ سوال نہ اٹھے۔ البتہ اب پی سی بی کے اس فیصلے کا پہلا بڑا امتحان دورہ آسڑیلیا ہے، جہاں بابر اعظم کی کپتانی میں منتخب 15رکنی اسکواڈ میں تین نئے کرکٹرز کو شامل کیا گیا ہے۔

دوسری طرف  آسٹریلیا روانگی سے قبل بابر اعظم فیصل آباد میں ڈومیسٹک ٹی 20 ٹورنامنٹ میں بطور بیٹسمین چار اننگز میں 219 رنز کیساتھ تو کامیاب رہے، لیکن چھ ٹیسٹ کرکٹرز کیساتھ کھیلنے والی سینٹرل پنجاب کی ٹیم ان کی قیادت میں بری طرح ناکام دکھائی دی، ٹورنامنٹ میں اس ٹیم کو واحد فتح نادرن پنجاب کے مقابلے پر حاصل ہوئی،جہاں 223 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والی سینٹرل پنجاب کی ٹیم کو کامیابی تن تنہا ٹیسٹ اوپنر احمد شہزاد نے دلوائی، جنھوں نے 63  گیندوں پر111رنز کی باری تراشی، یہاں بابر اعظم چار رنز پر پویلین لوٹ گئے تھے۔

بابر اعظم 2012ء میں آسٹریلیا میں ہونے والے آئی سی سی انڈر۔19ورلڈکپ میں گرین شرٹس کے کپتان تھے، بارہ ٹیموں کے ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم 8ویں نمبر پر رہی تھی، اگرچہ پی سی بی نے آسٹریلیا میں آئندہ سال ہونیوالے آئی سی سی ورلڈ ٹی20تک بابر اعظم کو قیادت دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بابر اعظم وہاں تک جا سکیں گے؟ جنہیں بھارتی ٹیم کے قائد ویرات کوہلی کا ہم پلہ کہا جارہا ہے، انفرادی کارکردگی کے تناظر میں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، لیکن قیادت کے معاملے میں ان کو اس انداز میں ہرگز تیار نہیں کیا جارہا، یا اس انداز میں آگے نہیں لایا گیا، جس کا طریقہ کار ویرات کوہلی کے معاملے میں اختیار کیا گیا، ویرات کوہلی کو کپتانی کی ذمہ داری دی گئی، تو فیلڈ میں ان کی رہنمائی کے لئے بھارتی ٹیم کے کامیاب ترین کپتان مہندرا سنگھ دھونی پیچھے کھڑے تھے، البتہ بحیثیت کپتان جب بابر اعظم آسٹریلیا جیسی مضبوط اور اعصاب پر سوار ہونے والی ٹیم کا مقابلہ کرنے آئندہ ماہ انہی کے میدانوں پر ایکشن میں ہونگے، تو ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے لئے کوئی تجربے کار کھلاڑی ٹیم کا حصہ نہیں ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ بابر اعظم کیساتھ مناسب ہوگا؟ جن کے بارے میں عام تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ٹیم کی کارکردگی کے برعکس ذاتی کارکردگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

26 جون 2019ء کو ایجبسٹن ( برمنگھم ) میں آئی سی سی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ناقابل شکست 111رنز کی باری کھیل کر بابر اعظم نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن 9 اکتوبر کو اس سال قذافی اسٹیڈیم میں سری لنکا کیخلاف تیسرے ٹی 20 میں 148رنز کا ہدف حاصل کرنے والی ٹیم نے جب پہلی گیند پر فخر زمان کی وکٹ کھو دی تھی، دوسری وکٹ پر بابر اعظم نے حارث سہیل کیساتھ 75رنز کی شراکت بنا کر اس بات کو پھر تقویت دی کہ وہ اپنے لئے کھیلے، کیونکہ 12ویں اوور میں جب وہ 32 گیندوں پر 27 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، تو ٹیم دباؤ کا شکار نظر آئی، لیکن اب مستقبل میں بطور کپتان بابر اعظم اس طرح کی بلے بازی کے نہ تو متحمل ہو سکتے ہیں، نا ہی خود اس کا دفاع کرسکیں گے۔

تازہ ترین