15جون 2019ء کو 96برس کی عُمر میں آنجہانی ہونے والے اطالوی فلمز اور اوپیرا(غنائی تمثیل) کے بادشاہ، فرانکو زیفی ریلی سے ہماری شناسائی ماضی کی خُوب رُو اداکارہ، بروک شیلڈز کی فلم کے ذریعے ہوئی تھی۔ یہ 1980ء کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔ فرانکو زیفی ریلی فلم، ’’اینڈ لیس لَو‘‘(Endless Love) کے ہدایت کار تھے۔ گرچہ یہ اُن کی بہترین فلم نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود اُس وقت کے نوجوانوں کی پسندیدہ تھی۔
تب کراچی میں بے شمار سنیما گھر ہوا کرتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف صدر کے آس پاس واقع ایک سے دو کلومیٹر کے علاقے ہی میں ایک درجن سے زیادہ سنیما قائم تھے، جن میں بمبینو، کیپری، لائٹ ہائوس، لیرک، ناز، نشاط، پیلس، پلازا، پرنس، پرنسیز، اوڈین، ریگل، ریکس، ریو، پیراڈائز اور اسکالا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ فرانکو زیفی ریلی کے کام اور زندگی کے بارے میں پیدا ہونے والے تجسّس نے ہمیں شیکسپیئر کے ڈراموں پر اُن کی ہدایت کاری میں بننے والی دو فلمز، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ (1967ء) اور ’’دی ٹَیمنگ آف دی شریو (1968ء) دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ یہ دونوں موویز ہی شیکسپیئر کے ڈراموں کی بہترین عکّاسی کرتی ہیں۔
فرانکو زیفی ریلی نے رومانی موضوعات کے علاوہ تاریخی واقعات و شخصیات پر بھی کئی فلمز بنائیں۔ مثلاً ان کی ’’برادر سَن، سِسٹر مُون‘‘ نامی فلم سینٹ فرانسس آف اسیسی کے حالاتِ زندگی پر مبنی ہے۔ زیفی ریلی نے مذکورہ فلم کو قدیم کلیسائوں میں فلمایا اور یہ تقریباً ایک ہزار برس قدیم یورپ کی عکّاسی کرتی ہے۔
اسی قسم کی ایک اور فلم، ’’دی نیم آف دی روز‘‘ ہے، جس میں شان کونری نے شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ فلم اطالوی مصنّف، امبرتوایکو کے ناول پر مبنی ہے۔ اسی طرح زیفی ریلی کی ایک مِنی ٹی وی سیریز کا نام، ’’جیزز آف نزارتھ‘‘ (Jesus of Nazareth) ہے، جو 1977ء میں پیش کی گئی ۔ اس کے مصنّفین میں مشہور مصنّف، انتھونی برگیز بھی شامل تھے، جن کے ایک ناول، ’’کلاک ورک اورینج‘‘ پر اسٹینلے کیوبرک 1971ء میں فلم بنا چُکے تھے۔
اُن کی ایک اور مشہور فلم کا نام، ’’اسپیرو‘‘ ہے۔ 1993ء میں بنائی گئی اس مووی کی کہانی بھی ایک اطالوی مصنّف، گیووانی ورگا کے ناول سے ماخوذ ہے۔ ورگا کی ایک اور کہانی، ’’رَسٹک شیولری‘‘ ہے، جس پر مسکانی اے نے ایک اوپیرا لکھا اور زیفی ریلی نے فلم بنائی۔ اس فلم میں سِسلی کی دیہی زندگی کی بہترین عکّاسی کی گئی ہے اور یہ فلم دیکھتے وقت فلم بین خود کو گائوں میں گھومتا پھرتا محسوس کرتے ہیں۔
زیفی ریلی نے اپنے فلمی سفر کا آغاز 1948ء میں نائب ہدایت کار کی حیثیت سے ہدایت کار، ویس کونٹی کی سرپرستی میں کیا تھا۔ ویس کونٹی کو اطالوی سینما میں جدید حقیقت نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے اور چُوں کہ انہوں نے سینما، اوپیرا اور تھیٹر تینوں شعبوں ہی میں گہرے نقوش چھوڑے، لہٰذا زیفی ریلی کو بھی ان تینوں شعبوں ہی سے شغف پیدا ہوا۔
تاہم، انہوں نے اوپیرا کے حوالے سے وسیع پیمانے پر کام کیا اور معروف اطالوی اوپیرا نگار، پوچی نی کے تینوں مشہور اوپیراز کو ان کی ہدایت کاری میں بار بار پیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک اوپیرا کا نام، ’’ٹوسکا‘‘ ہے، جو 1800ء کے روم کی کہانی پیش کرتا ہے۔ دوسرا اوپیرا، لا بوہیم ہے، جس میں 1830ء کے پیرس کی کہانی بیان کی گئی ہے، جب کہ تیسرا اوپیرا، ’’مادام بٹر فلائی‘‘ انیسویں صدی کے اواخر کے ناگا ساکی تصویر کَشی کرتا ہے۔
’’ٹوسکا‘‘ میں روم کے ایک سیاسی قیدی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس اوپیرا میں دکھایا گیا ہے کہ روم پر تشدّد اور خوف کا راج ہے۔ ری پبلکن گروہ پسپائی کا شکار ہے، جب کہ حملہ آور شاہ پرست زور آور ہیں۔ اسکارپیا نامی جرنیل خفیہ پولیس کا سربراہ اور کٹر شاہ پرست ہے، جو جمہوریت پسندوں کو چُن چُن کر جیلوں میں ٹھونستا اور تشدّد کا نشانہ بناتا ہے ۔
ان میں سے ایک قیدی کسی طرح فرار ہو کر اپنے ایک فن کار دوست کے پاس پناہ لینے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اوپیرا میں فن اور آزادی کی تڑپ کے درمیان تعلق کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’لا بوہیم‘‘ کے چار مرکزی کردار ہیں، مارسیلو نامی پینٹر، روڈ ولفو نامی شاعر، شانارڈ نامی فلسفی اور ایک موسیقار۔ اس کے علاوہ اس اوپیرا میں ایک کنجوس مالک مکان اور سلائی کرنے والی میمی نامی لڑکی کو دکھایا گیا ہے۔
اوپیرا کے پہلے منظر میں غریب فن کار، مارسیلو اور شاعر، روڈ ولفو کو کرسمس کی شام میں سردی سے بچنے کے لیے روڈ ولفو کے تحریر کردہ ڈرامے کے صفحات پھاڑ پھاڑ کر آگ میں جھونکتے دکھایا گیا ہے۔ پھر فلسفی اپنی کُتب لے کر آتا ہے اور وہ بھی ان کے صفحات پھاڑ پھاڑ کر آتش دان میں پھینکنے لگتاہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب مُلک پر عوام دشمن قوّتوں کا راج ہو، تو ڈراما، شاعری اور فلسفہ سبھی آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں۔ ’’مادام بٹر فلائی‘‘ نامی اوپیرا میں عالمی طاقتوں پر کڑا طنز کیا گیا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکی بحریہ کا ایک افسر ناگا ساکی میں ایک جاپانی عورت سے شادی کرتا ہے اور پھر اپنی حاملہ بیوی کو چھوڑ کر امریکا روانہ ہوجاتا ہے۔
جب وہ اپنی امریکی اہلیہ کے ساتھ دوبارہ جاپان آتا ہے، تو اُس کی جاپانی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والا بچّہ تین سال کا ہو تا ہے۔ اس موقعے پر جاپانی عورت کا دُکھ قابلِ دید ہوتا ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں اوپیراز میں پیش کی گئی کہانیاں پاکستان کے حالات سے مماثلت رکھتی ہیں۔ تاہم، بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں ایک بھی اوپیرا ہائوس موجود نہیں کہ جہاں انہیں دکھایا جا سکے۔
نیز، گزشہ پون صدی سے ہم صرف اسلحہ و بارود بنانے، جنگی ہیروز کے نغمے گانے اور طبلِ جنگ بجانے ہی میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے آج ہم میں کوئی فرانکو زیفی ریلی موجود نہیں۔