• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیل مہاسوں،جھائیوں کا ہوجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔عموماً نوجوانی میں چہرے کی جِلد پرکیل مہاسے نمودار ہو ہی جاتے ہیں،جب کہ جھائیاں عُمر کے کسی بھی حصّے میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تصوّر عام ہے کہ جھائیاں صرف شادی شدہ خواتین ہی کو متاثر کرتی ہیں، تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ نہ صرف خواتین( شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ )، بلکہ مَردوں تک کے چہرے پر نمودار ہوجاتی ہیں، البتہ خواتین کی نسبت صرف 10فی صد مَرد ان سے متاثر ہوتے ہیں۔

عام طور پر جھائیاں چہرے کے درمیانی حصّے، مثلاً ناک اور گالوں کے اُبھرے ہوئے حصّوں کے علاوہ پیشانی اور ٹھوڑی پر ظاہر ہوتی ہیں،جس کے بے شمار اسباب ہیں۔ ماہرینِ امراضِ جلدان تمام عوامل کودو بنیادی گروپس میں تقسیم کرتے ہیں۔پہلے گروپ میں اندرونی اور دوسرے میں بیرونی عوامل شامل کیے گئے ہیں۔ 

اندرونی اسباب ،اینڈو کرائن غدود کی خرابی، بیضہ دانی کی بیماریاں، خرابیٔ جگر اور خون کی کمی وغیرہ ہیں،جب کہ بیرونی عوامل، اندرونی عوامل کی نسبت زیادہ اہم اور عام ہیں،جن میں چہرے پر کسی قسم کے کیمیکل یا مختلف اقسام کی بیوٹی کریمزکا استعمال، بلیچ یا پرفیومز وغیرہ کا استعمال شامل ہیں۔ 

بعض اوقات کچھ ادویہ بھی جھائیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ نیز، متعدد خواتین میں دورانِ حمل یا بچّے کی پیدایش کے بعد جھائیاں نمودار ہوتی ہیں، تو کبھی مینوپاز بھی اِن کاسبب بن جاتاہے ۔ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ نوّے فی صد لڑکیاں میں جھائیوں کی وجہ مختلف قسم کے کاسمیٹک بلیچ اور اشتہاری بیوٹی کریمز کااستعمال ہے۔

ہمارے یہاں گوری رنگت کے لیے فارمولا کریمز کا استعمال بھی عام ہے۔ان کریمز میں اسٹرائیڈز اور دیگرکیمیکلز شامل کیے جاتے ہیں،جو ابتدا میں تو بظاہر بہت اچھے نتائج دیتے ہیں، مگر کچھ عرصے بعد جب ان کے مضر اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں، توپھر نہایت پریشان ہوکر کسی معالج کی طرف رُخ کیا جاتا ہے۔ 

فارمولاکریمزکے استعمال سے جِلد اس حد تک متاثر ہوجاتی ہے کہ بعض اوقات چہرے پر غیر ضروری بال بھی نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ چہرے پر باریک باریک خون کی دھاریاں نمودار ہوجاتی ہیں، جو دیکھنے میں نہایت بدنما لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘ کے مصداق ان اثرات کو زائل کرنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔ 

یہاں یہ بتانا نہایت ضروری ہے کہ رنگت گوری کرنے کی آج تک کوئی ایسی دواایجاد نہیں ہوئی، جو مضر اثرات سے بالکل پاک ہو۔ یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ رنگ گورا ہونا کوئی بڑی بات نہیں، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چہرے پر صحت مندی کی چمک نمایاں ہو اور یہ صرف اُسی صُورت ممکن ہے، جب چہرے پر غیر ضروری اشیاء استعمال نہ کی جائیں۔ متوازن غذا کے ساتھ پھلوں، سبزیوں اور زائد پانی کا استعمال کیا جائے، نیند پوری ہواور سب سے بڑھ کرباقاعدگی سے ہلکی پھلکی ورزش کی جائے۔

یاد رکھیں، چہرے کی جِلد علیٰحدہ سے کوئی شے نہیں، بلکہ چہرہ ایک ایسا آئینہ ہے کہ اگرکوئی جسمانی طور پر صحت مند ہے، تواس کے اثرات چہرے پر بھی ظاہر ہوں گے، وگرنہ گوری رنگت بھی پھیکی پڑجاتی ہے۔پھر دُنیا بَھر میں خُوب صُورتی کی تعریف یک ساں نہیں۔ہر علاقے، خطّے میں خُوب صُورتی کا معیار الگ الگ ہے۔کہیں گہرا سیاہ رنگ خُوب صُورتی کی علامت ہے، تو کہیں سفید۔لہٰذا رنگت گوری کرنے لیےاشتہاری فارمولا کریمزہرگز استعمال نہ کی جائیں، بلکہ اس ضمن میں گھریلو ٹوٹکے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں کہ جن کی بدولت سانولی رنگت بھی پُرکشش دکھائی دیتی ہے۔

یاد رکھیں،ہمارے یہاں مختلف کمپنیز بیوٹی کریمز میں Hydroquine نامی فارمولا استعمال کررہی ہیں،جب کہ بیرونِ مُمالک بھی اس فارمولے میں کئی کریمز اور سن بلاکس دستیاب ہیں،تو ان تمام بیوٹی کریمز اور سن بلاکس کے استعمال میں جن میں ہائیڈروکوائن شامل ہو، نہایت احتیاط برتی جائے۔ ہائیڈروکوائن زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں تک تو استعمال کرسکتے ہیں، مگر ایک خاص مدّت گزرجانے کے بعد اس کے پیدا ہونے والےضمنی اثرات ناقابلِ تلافی ہوجاتے ہیں۔

جن میں سرِ فہرست تو چہرے کی رنگت کی مستقل تبدیلی ہے،جو سلیٹی رنگ سے مشابہت رکھتی ہے اور کسی صُورت ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس ضمن میںمریض سے تفصیلی طور پر یہ دریافت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اب تک اس فارمولے کی کتنی کریمیز استعمال کرچُکا ہے اور ان کی مدّتِ استعمال کتنی ہے۔ یہ سوال بےحد اہم ،خاص طور پر جھائیوں کے علاج کے سلسلے میں تو اہم ترین بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے،لہٰذا معالجین بھی بغیر تفصیلی پوچھ گوچھ کے اس فارمولے کی دوا ہرگز تجویز نہ کریں، کیوں کہ تقریباً99فی صد مریض پہلے ہی ایک طویل مدّت تک ہائیڈروکوائن فارمولےکی مختلف کریمز استعمال کرچُکے ہوتے ہیں۔

چہرے کی رنگت خراب ہونے کی ایک اہم وجہ دھوپ کی تمازت بھی ہے، جس سے چہرے کو ہرصُورت بچانابےحد ضروری ہے۔اس ضمن میں صرف دوپٹے یا چادر کا استعمال کافی نہیں، بلکہ پرس ، کتاب یا کیپ کے ذریعے چہرے پر سایا بھی ضروری ہے ۔ سن بلاک کا باقاعدہ استعمال صرف علاج کے دوران اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہونا چاہیے۔ 

روزانہ اور بغیر احتیاط کے سن بلاک کا استعمال مناسب نہیں اور اگرمعالج سن بلاک تجویز کرے، تب بھی چہرے پر سایا ضروری ہے ،کیوں کہ سورج کی روشنی میں بعض شعائیں ایسی بھی پائی جاتی ہیں،جن کے ضمنی اثرات سے تحفّظ سن بلاک سے بھی ممکن نہیں ۔ مختلف تحقیقات کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آسمان پر بادل ہونے کے باوجود سورج کی مخصوص شعائیں اسی طرح زمین کی طرف چھن کر آتی ہیں، جس طرح نکلی ہوئی دھوپ میں آتی ہیں، لہٰذا ابر آلود موسم میں بھی چہرے پر سایا ضرور رکھیں۔ 

نیز، چہرے کی رنگت صرف گرمی کی جھلستی دھوپ ہی میں کالی نہیں پڑتی ، اگر سردیوں کے اوائل ہی سے چہرے کی حفاظت نہ کی جائے، تو سرد موسم میں بھی یہ خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمی کے مقابلے میں سردی کے موسم میں سورج کی الٹرا وائلٹ شعائیں زیادہ عمودی ہوجاتی ہیں اور براہِ راست ایک سیدھ میں زمین کی طرف سفر کرتی ہیں،جو چہرے کی رنگت کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ موسم چاہےگرم کا ہو یاسرد کا یاپھر ابر آلود، چہرے پر سایا بہت ضروری ہے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور ضیاء الدین اسپتال کے شعبہ ڈرمٹالوجی سے وابستہ ہیں)

تازہ ترین