• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خود بخود ٹھیک ہونے والی بیماری ’اوور ٹریٹ منٹ‘ سے خطرناک ہورہی ہے

عکّاسی: عارف نجمی

ڈینگی کا مرض پاکستان میں مختلف ادوار میں حملہ آور ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں عموماًصوبۂ پنجاب ہی اس کا نشانہ رہا۔جیسا کہ2011ء میں ڈینگی نے وبائی شکل اختیار کی، تو عوام اور سابق حکومت کی راتوں کی نیند،دِن کا چین بربادہوگیا۔ کئی انسانی جانیں لقمۂ اجل بنیں۔ تاہم، حکومت نے بَھرپور تگ و دو کے بعد بالآخر اس پر قابو پالیا۔ البتہ رواں برس یہ حکومت اور عوام کے لیے سخت اذّیت کا باعث یوں ہے کہ اس باراس نےچاروں صوبوں میں وبا ئی شکل اختیار کرلی ہے۔ 

بلوچستان ، سندھ ،خیبر پختون خوا، پنجاب، کسی صوبے کے عوام اس مخصوص مچھر کے ڈنک سے محفوظ نہیں۔ اب تک مریضوں کی تعداد مجموعی طور پر 40 ہزار سے تجاوز کرچُکی ہے، جب کہ لقمۂ اجل بننے والے بھی سیکڑوں سے کم نہیں ۔ ڈینگی کیا ہے،اس کےپھیلاؤ کے ذرائع کون سے ہیںاور وہ کون سی علامات ہیں، جن کے ظاہر ہونے پر معالج سے فوری رابطہ ضروری ہے ۔

نیز، کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ ڈینگی سے محفوظ رہاجا سکے؟ اِن ہی سب سوالات کے لیےہم نے گزشتہ دِنوں یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، لاہور کے وائس چانسلر، پروفیسر آف میڈیسن ،ڈاکٹر جاوید اکرم سے تفصیلی بات چیت کی۔

خود بخود ٹھیک ہونے والی بیماری  ’اوور ٹریٹ منٹ‘ سے خطرناک ہورہی ہے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

ڈاکٹر جاوید اکرم مُلک کے نام وَر فزیشن ، پروفیسر آف میڈیسن ہونے کے ساتھ چھے کتابوں ، 400سے زائد ریسرچ پیپرز کے مصنّف ہیں۔ ایف اے سی سی، ایف آر سی پی، ایم آر سی پی اور دیگر کئی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ایک ریسرچ لیڈر کی حیثیت سے پاکستان میں ڈینگی پر سب سے پہلی ریسرچ کی، جب کہ آج کل کلوننگ اور ڈی این اے کے مختلف شعبوں میں تحقیقات کررہے ہیں، جن سے پاکستان میں ادویہ سازی کی دُنیا میں ایک انقلاب برپا ہونے کی توقع ہے۔

ڈاکٹرجاوید علّامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل اورچیف ایگزیکٹیو ،جناح اسپتال، لاہور کے طور پر بھی فرائض انجام دے چُکے ہیں۔ اوراپنی خدمات کے سبب پرائم منسٹر گولڈ میڈل کے ساتھ 2011ء میں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازے گئے۔انٹرویو کی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔

س:ایک عام فرد کے سمجھنے کے لیے بتائیں کہ ڈینگی دراصل کیاہے؟

ج:ڈینگی (Dengue)ہسپانوی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہڈّیوں کا ٹوٹنا ہے۔چوں کہ اس مرض میں مبتلا مریض کے جوڑوں اور ہڈیوں میں شدید درد ہوتا ہے،لہٰذا مرض ہی کو’’ڈینگی‘‘کا نام دے دیا گیا۔ 

ویسے، اسے بریک بون فیور(Break Bone Fever)بھی کہا جاتا ہے۔ مچھروں کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے ایک قسم وہ بھی ہے ،جس سے ملیریا ہوتا ہے۔ تاہم، ڈینگی کا محرّک ایک مادّہ مچھر "Aedes aegypti" ہے۔ 

ماہرینِ طب نےڈینگی کی موجودگی1779ء میں ریکارڈ کی۔ بعدازاں، دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے مختلف مُمالک میں موجود پایا گیا،جب کہ 20ویں صدی میں اس مرض کے حوالے سےمفصّل آگاہی حاصل ہوئی،جس کے بعد ہی ڈینگی کا باقاعدہ ریکارڈ مرتّب کیا جانے لگا۔ اگرچہ ابتدا میں اِسے خطِ استوا کے مُمالک کی معمول کی بیماری سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا، لیکن اب اس سے نظریں اس لیے بھی نہیں چُرائی جاسکتیں کہ یہ بیماری عالم گیر حیثیت اختیار کرچُکی ہے۔آج ڈینگی دُنیا کےلگ بھگ 147مُمالک میں پایا جاتا ہے، البتہ ایشیا،مشرقِ بعید اور جنوبی امریکا کے مُمالک میں اس کی شرح زیادہ بُلند ہے۔

س: ڈینگی کی علامات اورتشخیص کے حوالے سے بھی بتائیں؟

ج: مخصوص مادّہ مچھر کے کاٹنے کے دو سے سات دِن کے درمیان علامات ظاہر ہوتی ہیں، جن میں تیز بخار ، سَردرد،قے،شدید تھکاوٹ،جسم کا ٹوٹنا اور آنکھوں سے پانی بہنا وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، بہت کم کیسز میں خون پتلا ہوکر نالیوں سے رِستا ہے،جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ تشخیص کے لیے عموماً ظاہری علامات دیکھتے ہوئے خون کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے، جس سے وائرس کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔

حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اور یہ وہ مرحلہ ہے، جس میں ڈاکٹر کا کردار اہم ترین گردانا جاتا ہے۔مریض کی ظاہری علامات اور ٹیسٹ رپورٹ کی روشنی میں معالج یہ بھی تجویز کرسکتا ہے کہ مریض صرف آرام اور متوازن غذا کا استعمال کرے۔ایسے مریضوں کو ادویہ کی ضرورت نہیں ہوتی،جب کہ بعض کیسز میں اسپتال داخل کروانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ویسے پوری دُنیا میں اس مرض میں شرحِ اموات بہت کم ہے۔

س:ڈینگی کےعلاج میں کام یابی کا تناسب کتنا ہے؟

ج: اصل میں صحت یابی کا دارومدارمعالج کی قابلیت پرہے۔ اکثر مریض غیر معیاری اور نامناسب علاج ہی کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ میں ایک بار 78ہزار کیسز میں سے صرف ایک بچّہ ہلاک ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ وہ ہیپاٹائٹس میں مبتلا تھا۔

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ڈینگی کے مرض میں درست علاج کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔چاہے مریض اسٹریچر پر آئے، لیکن اسے اپنے قدموں سے چل کر گھر جانا چاہیے۔ ڈینگی سے ہونی والی اموات کو روکنا زیادہ آسان ہے،بشرطیکہ بروقت اور درست تشخیص ہو۔ مرض تشخیص ہونے کے ابتدائی 48گھنٹے بہت نازک اور اہم ہوتے ہیں ۔ 

اس دوران معالج کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مریض کو دوا کی ضرورت ہے یایہ خود ٹھیک ہوجائے گا۔ یوں بھی وائرل انفکیشن کے لیے تو ویسے ہی کوئی خاص دوا تجویز نہیں کی جاتی۔ صورتِ حال اُس وقت زیادہ پریشان کُن ہوتی ہے، جب خون پتلا ہوکرنالیوں سے رِسنا شروع ہوجائے۔ 

مخصوص مادّہ مچھر اگر دس ہزار افراد کے جسم میں وائرس داخل کرتی ہے، تو آٹھ ہزاراافراد کو کچھ نہیں ہوتا۔ہاں،کچھ مریضوں کومعمولی بخار ہوجاتاہے،تو بعض مریض زیادہ دِن بخار میں مبتلا رہ کر تن درست ہوجاتے ہیں۔ 

البتہ ایک سے دو سو کیسز میں خون کی نالیوں کی حفاظتی تہہ لیک ہوجاتی ہے،نتیجتاًجسم میں موجود پانی اور پلازما مِکس ہوجاتا ہے۔ یہ پلازما جسم کے اندر ہی رہتا ہے اورزیادہ تر کیسز میں خون کی نالیوں کی یہ شکست و ریخت 48گھنٹوں کے اندر بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہوجاتی ہے۔یعنی پانی اور پلازما اپنی اپنی جگہ چلا جاتا ہے۔ تاہم،مریض کی حالت تب بگڑتی ہے،جب بلڈپریشر کم ہوجائے اور معالج اِسے بہتر کرنے کے لیے ڈرپ لگائے۔

دراصل، ڈرپ لگانے سے جسم میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے،نتیجتاً دِل، پھیپھڑوں اور گُردوں پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے، چناں چہ اس وقت ڈرپ لگانے سے حتی الامکان احتراز برتا جائے۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ اگر ڈینگی سے ایک مریض مَرتا ہے، تو9غلط علاج سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ان ناتجربہ کارمعالجین کا احتساب بہت ضروری ہے۔ 

معالجین سے یہ درخواست ہے کہ ان کے پاس جب کوئی مریض بخار یا دوسری علامات کے ساتھ آئے، تو سب سے پہلے ٹیسٹ کرواکےدرست تشخیص کرلی جائے۔جب کہ 95فی صد مریض جن کی علامات معمول کی ہوں، انہیں علیٰحدہ کرکے سیریس مریضوں پر خاص توّجہ دی جائے۔ایسے مریضوں کو مسلسل خاص نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مریض کا خون گاڑھا نہیں ہورہا اور جسم کے اندر پلازما بھی لیک نہیں ہوا ،تو اس کی زندگی کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ۔خون کے سفید ذرّات کی کم تعداد بھی قدرتی طور پر پوری ہوجاتی ہے۔

یاد رہے، ایک مستند معالج ہی تمام علامات کو مدِّنظر رکھ کر علاج میں ردّوبدل کا مجاز ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا چیئرمین ہونے کی ناتے مَیں نے ڈینگی کے علاج کا ایک سیٹ فارمولا اور گائیڈ لائنزدے دی ہیں، جو عام ڈاکٹروں کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر علاج کی ضمن میں مریض کو بیرونی طور پر fluid دینا ہو، تو پہلے جسمانی کیفیات دیکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ 48گھنٹوں میں مریض کو fluidکی کتنی مقدار کی ضرورت ہے۔میرے نزدیک ڈینگی خودبخود ٹھیک ہونے والی بے ضرر بیماری ہے،البتہ "Over Treatment"سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

س: پاکستان میں یہ بیماری کب اور کیسے آئی؟

ج: پوری دُنیا میں ڈیڑھ، دو سو سال سے ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً اس کے مریض سامنے آتے رہے،تاہم 1980ء میں پہلی مرتبہ حکومت نے بیرونِ ممالک سے پُرانے ٹائر درآمد کرنے کی اجازت دی، تو تھائی لینڈ سے ٹائرز منگوائے گئے۔

بہ ذریعہ سمندر، بنکاک سے کُھلی کشتیوں پر جب یہ ٹائر پیکنگ کے بغیر روانہ ہوئے، تو راستے میں ہونے والی بارش اور دوسرے عوامل کے سبب ڈینگی مچھروں کا لاروا بھی ساتھ آگیا، کیوں کہ کُھلے آسمان تلے کشتیوں میں پڑے ٹائرز میں بارش کا پانی جمع ہوگیا تھا، تو وہاں ڈینگی کے لاروے نے پرورش کے مراحل طے کیے۔ 

یوں ان کے انڈے کراچی کی بندرگاہ تک پہنچ گئے۔ ڈینگی میں پانچ قسم کے وائرس پائے جاتے ہیں، لہٰذا سب سے پہلے مادّہ مچھروں نے اُن مزدوروں کو اپنا نشانہ بنایا، جو سامان اُتار رہے تھے۔یوں آٹھ مزدور اس مرض کا شکار ہوگئے، لیکن تب اسےمعمولی مرض سمجھ کر کوئی خاص توّجہ نہیں دی گئی۔بعدازاں بھی ڈینگی کے اکّا دکّا واقعات ہوتے رہے، لیکن مَیں نے تب ہی بھانپ لیا تھا کہ ڈینگی قطعاً معمولی مرض نہیں اور آگے چل کر یہ بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

س:آپ کوکن وجوہ کی بنا پر خدشات لاحق ہوئے،حالاں کہ بیماریاں تو اور بھی ہیں؟

ج: مَیں نے بین الاقوامی سطح پر ایسے مُمالک کا جائزہ لیا ، جہاں ڈینگی کا مرض پھیل چُکا تھا اور یہ تمام مُمالک ہمارے اِسی خطّے سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں ایشیا اور مشرقِ بعید کہا جاتا ہے۔اور یہ وہ مُمالک ہیں، جہاں کی آب و ہوا گرم و مرطوب ہے، خطِ استوا کے قرب و جوار کے ان مُمالک میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر دُنیا کی آبادی7ارب ہے، تو 3ارب افراد اِسی خطّے میں بستے ہیں، جہاں ڈینگی کے امکانات زیادہ موجود ہیں۔ ایسی ہی کئی اور بیماریاں بھی ہیں۔

جیسا کہ ذیا بطیس، ہارٹ اٹیک، ہیپاٹائٹس سے لاکھوںمریض مَرجاتے ہیں، لیکن یہ بیماریاں طویل ہوتی ہیں اورمریض خاموشی سے داعیٔ اجل کو لبّیک کہہ جاتےہیں، البتہ ڈینگی کا مرض خوف و ہراس کی علامت اس لیے بن گیا کہ اگر مریض کی حالت سیریس ہوجائے، تو چند ہی دِنوں میں موت واقع ہوجاتی ہے۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مریض کے اچانک بیمار ہونے اور پھر مرض کے تکلیف دہ مراحل نے اسے خوف وہراس کی علامت بنادیا ہے۔ 

پھر دَورِ حاضر میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے ٹرینڈ نےتو اسے مزید سنسنی خیزکر دیا ہے۔ اب ڈینگی طبّی مسئلے کے ساتھ ایک سیاسی مسئلہ بھی بن چُکاہے۔ حالاں کہ یہ بیماری اتنی مہلک نہیں، جتنا اس کے حوالے سے شور مچایا جاتا ہے۔ یاد رکھیے، جان لیوا بیماریوں میں یہ سب سے نچلے درجے میں شمار ہوتی ہے،مگر اس سے متعلق Noise Level بہت زیادہ ہے۔

س: کیا مرض کا مریضوں کی عُمر سے بھی کچھ تعلق ہے؟

ج: یہ ہر مُلک کے ماحول اور حالات پر منحصر ہے۔ پوری دُنیا میں نوجوان ڈینگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں،لیکن پاکستان میں زائد عُمر کے افراد اس کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔تاہم، زیادہ تر کیسز میں عُمر کی کوئی قید نہیں۔ البتہ ایسے افراد جو بہت صاف ستھرے علاقوں میں مقیم ہوں اور خود بھی صفائی کا خیال رکھتے ہوں وہ عموماً ڈینگی کا شکار نہیں ہوتے۔ 

نیز، مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے والے بھی اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ گندگی اور انتہائی گنجان آباد علاقوں میں رہنے والوں کو ،چاہے وہ بچّے ہوں، جوان یا بوڑھے، یہ مرض زیادہ متاثر کرتا ہے۔

س:کیا کسی مُلک نے اس وبا پر مکمل طور پر بھی قابو پایا؟

ج: اس وقت دُنیا کے147ممالک میں یہ مرض کبھی نہ کبھی سَر اُٹھاتا ہے، لیکن ایک سو سے زائد مُمالک کو اس سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے پھیلاؤ میں دو چار سال کا وقفہ تو آسکتا ہے، لیکن تاحال کوئی بھی مُلک اس سے مکمل طور پرنجات حاصل نہیں کرسکا،کیوں کہ ایک بار یہ مرض جس مُلک میں داخل ہوجائے، پھروہ کبھی بھی’’ ڈینگی فِری زون‘‘نہیں کہلاسکتا۔ 

سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی اس سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کرسکے ۔ چین میں بھی یہ مرض بہت عام ہے۔البتہ جن مُمالک میں یہ مرض پایا جاتا ہے، وہاںطبّی ماہرین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی انسانی جان ضایع نہ ہونے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بروقت تشخیص اور موثر علاج سے شفایابی کی شرح 98فی صد سے بھی زائد ہے۔

س: پاکستان میں ڈینگی کا سب سےبڑا حملہ کب ہو اور اس پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ؟

ج: اگرچہ 1980ءکے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ مرض کچھ سالوںکے وقفے سے سَراُٹھاتا رہا،لیکن 2011ء میں ڈینگی کا مرض جس طرح حملہ آور ہوا، اُسے دُنیا کے بڑے وبائی امراض میں شمار کیا جاتا ہے،کیوں کہ مُلک بَھر میں 30,25ہزار کیسز رپورٹ ہوئے،جن میں تقریباً 500افراد لقمۂ اجل بن گئے۔سب سے زیادہ افراد لاہور میں متاثر ہوئے،جن میں مرنے والوں کی تعداد 350 تھی۔ تاہم، اسپتال میں داخل ہونے اور نازک حالت تک پہنچنے والوں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ 

چوں کہ پاکستان کو اس مرض سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا،اسی لیے یہ وبائی صُورت اختیار کرگیا۔ لاہور میں ڈاکٹروں، اتائیوں اور نیم حکیموں نے بلا سوچے سمجھے ڈرپس لگانا شروع کردیں، جس سے مریضوں کی حالت بگڑ گئی۔ ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اُس وقت ڈاکٹروں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں۔ 

تاہم ہمارے ہاں اس وبا کے بعد پہلی مرتبہ اس مرض سے منظّم طور پر نمٹنے کا شعور پیدا ہوا اور ہم نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ خاص طور پر سری لنکا، تھائی لینڈ اور ملائشیا سے آنے والے ڈاکٹروں نے کافی رہنمائی کی۔ پھر جب موسم تبدیل ہو ا، تو مرض کی شدّت میں خود بخود کمی آتی چلی گئی، لیکن 2011ء میں ڈینگی کی یہ وبا ہماری سماجی اور طبّی تاریخ پر نہ مِٹنے والے اثرات چھوڑ گئی۔

س: رواں برس یہ مرض پھر بے قابو ہو گیا ہے، تو کیاہم نے 2011ء سے کوئی سبق نہیں سیکھا یا حقائق کچھ اورہیں؟

ج: دیکھیں،ڈینگی سے بچاؤ کے لیے صرف ایک دن، ایک ہفتے یا ایک مہینے کی کوشش نہیں، بلکہ پورے سال کی تگ و دو درکار ہے۔2011ء کے بعد ایسی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی ،جو مستقل بنیادوں پر جاری رہتی۔ اگرصرف صفائی ستھرائی ہی پر خاص توّجہ دی جاتی،تو گندگی ،غلاظت کے ڈھیر مچھروں کے لارووں کی پرورش گاہیں نہ بنتے۔ 

بنیادی طور پر ڈینگی دیہات کا نہیں ، گنجان آباد شہروں کا مرض ہے ،جہاں مچھروں کو انسانی خون کی وافر مقدار دستیاب ہوتی ہے۔ مچھر کی پرواز تو چند کلو میٹر تک محدودہوتی ہے اور یہ صرف آس پاس ہی کے افرادکو کاٹتا ہے۔اسی لیےان دیہات میں جہاں آبادی پھیلی ہو، وہاں اس کا نشانہ محدود ہو تا ہے ۔یاد رکھیں،اگرماحول صاف ستھرا ہوگا،تو صرف ڈینگی ہی نہیں ،کئی اور امراض کو بھی پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔ 

سیدھی سی بات ہے،جب گڑھوں، نالیوں میں صاف یا گندا پانی اور بارش کا پانی نشیبی علاقوں میں جمع نہیں ہو گا، گھروں میں بھی صفائی ستھرائی ہوگی،چھتوں ،گملوں میں بھی پانی کھڑا نہیں ہو گا،تواس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ آپ نےمرض کی جڑ، ایسی پرورش گاہیں ختم کردی ہیں، جہاں یہ مادّہ مچھر انڈے دیتی ہے۔2011ء میں مادّہ مچھر کے لارووں کی ایسی پرورش گاہوں کی نشان دہی کا سائنسی اور کمپیوٹرائزڈ نظام بھی وضع کرلیا گیا تھا، 

جس سے خاصی مدد ملی، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چار پانچ سال میں ہمارے سماجی ،معاشرتی اور بلدیاتی نظام،نیز شہری سہولتوں اور صفائی ستھرائی میں کافی تنزّلی آئی ہے،خاص طور پر کراچی تو اب ’’کچرا گھر‘‘ بن چُکا ہے،تو ان حالات میں آپ کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں ڈینگی جیسے امراض جنم نہ لیں ۔ ایک مربوط صفائی کا نظام ہی اس مرض پر قابو پانے کا واحد حل ہے۔ یہ اسپرے وغیرہ محض عارضی اور نمایشی حل ہیں۔

س:کیا یہ درست ہے کہ یہ موسمی وبا ہے اور موسم بدلتے ہی اس میں خود بخود کمی آنا شروع ہو جاتی ہے؟

ج:جی یہ سو فی صد درست ہے۔ اس مچھر کا لاروا زیادہ سردی میں زندہ رہ سکتا ہے اور نہ زیادہ گرمی میں۔ اس کی افزایش تب ہوتی ہے، جب موسم بدل رہا ہو۔چاہے موسمِ گرما، سرما میں بدل رہا ہو یا سردیاں، گرمیوں میں۔نیز، مرطوب فضا میں یہ لاروا پرورش پاتا ہے،اسی لیےیہ مرض بارشوں میں زیادہ پنپتا ہے۔ اس وقت بھی مُلک میں مرض کی جو شدّت پائی جارہی ہے، وہ دسمبر میں خود بخود کم ہو جائے گی۔

اس وقت لاہور سے زیادہ مُلک کے دوسرے علاقے زیادہ متاثر ہیں، کیوں کہ لاہور والوں میں اس مرض کو برداشت کرنے کی قوّتِ مدافعت 2011ء ہی میں پیدا ہوگئی تھی۔یاد رہے کہ اگر ایک بارکوئی ڈینگی کا شکار ہوجائے، تو پھر دوبارہ اس کا نشانہ نہیں بنتا۔رواں برس کراچی، راول پنڈی اور اسلام آباد کے رہایشی اس کےنشانے پر ہیں۔ 

کراچی میں صفائی ستھرائی کے فقدان پر عالمی سطح پر بات کی جارہی ہے،جب کہ اسلام آباد اور راول پنڈی کے درمیانی علاقوں میں متعلقہ میونسپلٹی ادارے صفائی کی ذمّے داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو برّی الذمّہ قرار دے رہے ہیں۔ اور جب مُلک کے بڑے شہروں کی حالت یہ ہو، تو پھر مرض نے تو منہ زور ہونا ہی ہے۔

س:یعنی وبا سے نمٹنے کے لیےمُلک بھر میں مربوط یعنی CO-ORDINATED مساعی ہونی چاہئیں؟

ج:سو فی صد۔اب تک ہو یہ رہا ہے کہ جس شہر میں یہ مرض پھیلتا ہے، ہم اس شہر کی سطح پر انسدادی کوششیں کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور دوسرے شہروں سے کوئی رابطہ یا معلومات کا تبادلہ نہیں ہوتا،یہ بالکل غلط طرزِعمل ہے۔ڈینگی سے نمٹنے کے لیے مُلکی سطح پر مربوط اور منظّم کوششیں ہونی چاہئیں۔ ایکشن پلان کے تحت اس مرض سے نمٹنے کے لیے دو شعبے قائم کیے جائیں۔ 

پہلے شعبے کے ذمّے علاج معالجہ ہو اور دوسرا شعبہ احتیاطی تدابیر کے ذریعے اس کی روک تھام کرے، لیکن ان کا سربراہ ایک ہی ہو۔ ہم سے ماضی میں اس ضمن میں جو کوتاہیاں ہوئیں، ان میں سے ایک آئین کی 18ویں ترمیم بھی ہے، جس کے تحت صحت کے معاملات صوبوں کے سپرد کر دیئے گئے۔ اس طرح وفاقی سطح پر ایک ایسے ادارے (منسٹری آف ہیلتھ) کا فقدان ہوگیا، جو صحت کے مسائل کے سلسلے میں چاروں صوبوں میں کوآرڈی نیشن کا کام کرتا تھا۔ اس صوبائی خود مختاری سے اجتماعی اور مشترکہ مساعی کو نقصان پہنچا ہے۔ 

یہ کسی ایک صوبے کا مرض نہیں ۔جو بھی فرد اس سے متاثر ہوتا ہے، اگر آج وہ لاہور کا ہے، تو کل کراچی، پرسوںپشاور یا کوئٹہ کا بھی ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ یہ مرض ایک سے دوسرے فرد کو نہیں لگتا، لیکن دیکھ بھال اور علاج معالجے جیسے مسائل تو پیدا ہوتے ہیں۔ پھر اس مرض کا باقاعدہ ٹریک ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ 

اس لیے وفاقی سطح پر ایک منظم ادارے کے زیرِاہتمام مربوط اور مشترکہ کوششیں ہونے چاہئیں۔نیز، آگاہی مہمات بھی اِسی ادارے کے تحت شروع کی جائیں۔ ڈینگی کی روک تھام میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر 30کے قریب سرکاری اور غیر سرکاری محکمے شامل ہوتے ہیں،لہٰذا ان سب کی کوششوں کو ایک مربوط نظام کے تحت یک جا کرنا ضروری ہے۔

س: انفرادی سطح پرکون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں؟

ج: دینِ اسلام کا سُنہرا اصول، ’’صفائی نصف ایمان‘‘ ہمارے لیےایک بہترین گائیڈ لائن ہے۔ گھروں میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ چھتوں ، گملوں ، پرندوں کے پانی کے برتنوں اور گھروں کے سامنے گڑھوں میں صاف یا گندا پانی جمع نہ ہونے دیں۔ موسم بدل رہا ہو، تو بچّوں اور بڑوں کو پوری آستین والے کپڑے پہننے چاہئیں۔ 

بچّوں کو اس موسم میں شارٹس وغیرہ نہ پہنائیں۔ اسکولز میں خاص طور پر ہاتھوں اور چہروں پر ایسے لوشنز لگائیں، جن سے مچھروں سے تحفّظ ملے۔ کُھلی جگہوں پر سوئیں، تو مچھر دانی استعمال کریں۔ زیرِ تعمیر علاقوں کے مزدور اور دیگرافراد خاص احتیاط برتیں کہ وہاں پانی زیادہ استعمال کیاجاتا ہے۔ مشرق بعید کے کئی مُمالک میں حکّام نے خصوصی ٹیمز کے ذریعے صفائی کے لیے ایک دِل چسپ مہم شروع کی۔ وہ گھروں کے مکینوں کو گھر کی صفائی دیکھ کر ایک سبز جھنڈا دیتے ہیں، جوگھرکی چھت پر اعزاز کے طور پر لہرا دیا جاتا ہے اور عموماًگھروں کے بچّے سبز جھنڈے کے لیے خاص طور پر محنت کرتے ہیں۔ 

ان میں مقابلے بازی کا ساسماں پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں متعلقہ حکّام کو سب سے پہلے تو سڑکوں کی تعمیر اور صحت و صفائی کا نظام بہتر بنانا چاہیے، جو اس وقت پستیوں کو چُھو رہا ہے۔بعض شہروں میں جھیلیں بھی ہیں اور پانی کے چھوٹے ذخائر بھی۔

اگر ان جھیلوں یا چھوٹے دریائوں میں وہ مخصوص مچھلیاں جن کی غذامچھروں کے لاروےہیں،چھوڑ دی جائیں، تو یقیناًمچھروں کی افزایش نہیں ہوگی۔ یہ بھی مرض کے تدارک کاایک انوکھا قدرتی طریقہ ہے۔ نیز،بچّوں کے تعلیمی نصاب میں ڈینگی اور دیگر امراض کے حوالے سے احتیاطی تدابیر شامل کی جائیں۔

س:ڈینگی سے مکمل نجات کے لیے مُلکی یا بین الاقوامی سطح پر کیا کام ہو رہا ہے؟

ج: دَورِحاضر میں جینیٹک انجینئرنگ بہت ترقّی کرچُکی ہے۔ اگرچہ ڈینگی کے علاج معالجے میں اموات کی شرح (بشرطیکہ صحیح علاج ہو) زیرو تک آچُکی ہے کہ مرنے والے صرف غلط اور غیر معیاری علاج کی بھینٹ چڑھتے ہیں، لیکن میڈیسن کے ساتھ ساتھ اب جینیٹکس میں بھی اس کا حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ جین یا خلیہ انسانی جسم کا بنیادی بلڈنگ بلاک ہے، جس میں پورے جسم کی معلومات ملفوف ہوتی ہیں۔ 

اب لیبارٹریزمیں اس پر تحقیق جاری ہےکہ ڈینگی کے مادّہ مچھر میں جین کی ترتیب کا فارمولا اس طرح تبدیل کر دیا جائے کہ اس میں جرثوما لے جانے کی صلاحیت ہی باقی نہ رہے۔ یعنی اگر وہ کسی کو کاٹ بھی لے، تو کسی بھی طرح کے مضراثرات ظاہر نہ ہوں۔ ہماری یہاں یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ جینیٹکس میں اس پر تیزی سےکام جاری ہے۔مجھے حال ہی میں چین جانے کا اتفاق ہوا،تو وہاں کے سائنس دانوں اور ماہرین کوبھی اپنے ان تجربات اور تحقیقی کاوشوں سے آگاہ کیا۔ 

اس ضمن میں اب ہمیں چین کا تعاون حاصل ہے اورہمارے درمیان ایم او یو بھی سائن ہو چُکے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ دونوں مُلکوں کے طبّی سائنس دانوں کی کوششوں سے یہ کام طب کی دُنیا کا’’جے ایف7تھنڈر ‘‘ثابت ہوگا۔ جین کے ذریعے مچھر کی بنیادی خصوصیات اور ساخت تبدیل کرلینا اب کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں۔ 

ایسے مخصوص مچھر پہلے لیبارٹری میں تیار کیے جائیں گے، پھر انہیں فضا میں چھوڑ دیا جائے گا۔ جب ان کی بریڈنگ ہو گی، تو رفتہ رفتہ مچھروں کی وہ نسل ختم ہو جائے گی، جو انسان کو کاٹ کر ڈینگی میں مبتلا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ میں یہ تجربات بعض جانوروں، چاول اور گندم کی فصلوں، پھولوں پر پہلے ہی کام یابی سے ہم کنار ہو چُکے ہیں۔

ڈینگی اور مختلف ٹونے ٹوٹکے

ہمارے معاشرے میں مختلف امراض کے حوالے سے ٹونے ٹوٹکوں کا استعمال عام ہے۔ ان ہی میں سے کئی ٹونے ٹوٹکے ڈینگی کے لیے بھی فائدہ مند سمجھے جاتے ہیں،لیکن اگر یہ پپیتے کے پھل اور پتّوں تک محدود ہیں، تو محض دِل کی تسلّی کے لیے انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے،مگر صرف انہی پر انحصار نہ کیا جائے،اس کے ساتھ مستند معالج کی نگرانی میں علاج بھی کروایا جائے۔ 

ویسے میری رائے میں تو ٹونوں ٹوٹکوں سے احتراز ہی بہتر ہے، تاکہ کسی قسم کی پیچیدگی پیدا نہ ہو ۔2011ء میں جب لاہور میں یہ مرض عروج پر تھا، تو پپیتے کے درختوں سے پتّے توڑ توڑ اُنہیں گنجا کر دیا گیا، مگر اس دوران کوئی ایسا مریض نہیں ملا، جو صرف ان ٹوٹکوں سے صحت یاب ہو ا ہو۔

 پاکستان ڈینگی کی سب سے بڑی افزایش گاہ بن جائے گا ؟

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے قیام کے 72سال بعد بھی اُن بدقسمت مُمالک میں سرِفہرست دکھائی دیتا ہے، جہاں عوام صاف پانی، صفائی ستھرائی ،تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔

اس پس منظر میں ماہرینِ طب نے اگرپاکستان کو آج اور مستقبل میں بھی ڈینگی کی سب سے بڑی افزائش گاہ (BREEDING GROUND)بننے کا خطرہ قرار دیا ہے، تو یہ ناقابلِ فہم نہیں۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 1995ء سے 2004ء کے درمیان ڈینگی کے سات سو کیسز مُلک کے صرف تین اضلاع میںرپورٹ ہوئے، جن میں 6افراد جاں بحق ہوئےتھے۔

جب کہ 2005ءسے 2018ءکے درمیان ان اعدادوشمار میں اضافہ ہوا اور متاثرین کی تعداد (جو باقاعدہ رپورٹ ہوئے) ڈیڑھ لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد 700سے زائد ہوگئی۔ان برسوں میں ڈینگی 105اضلاع تک پھیل چُکا تھا۔رواں برس ماہرین نے اس کی شدّت میں 35گنا اضافہ بتایا ہے اور راول پنڈی اور اسلام آباد میں متعلقہ حکام کی مرتّب کی جانے والی رپورٹس میں خدشہ ظاہر کیا گیاہے کہ سرکاری اسپتالوں میں اگلے دو ماہ (دسمبر، جنوری) میں روزانہ اوسطاً 365مریض داخل ہوں گے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، اسلام آباد کے مطابق صرف راولپنڈی میں یکم تا 16ستمبر 10ہزار ڈینگی کے کیسز رجسٹرکیے گئے۔ بلاشبہ یہ کیسز موسمی تبدیلیوں اور مچھروں کے لیے سازگارآب وہوا کے نتیجے میں انسدادی اقدامات کے فقدان کے سبب سامنے آتے ہیں۔

اور اب جب کہ ایک عالمی ادارے نے پاکستان کو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا دُنیا کا 12واںبڑا مُلک قرار دیا ہے، تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ہمیں کتنا سنجیدہ ہونا پڑے گا۔اگرچہ پاکستان کے مختلف طبّی اور تحقیقاتی اداروں نے اب تک ڈینگی سے ہونے والی تباہ کاریوں کے حوالے سے گرافس اور اعدادوشمار سے مزّین ’’شان دار‘‘رپورٹس تیار کیں، لیکن حفاظتی تدابیر کے حوالے سے عوام کو ڈینگی کے رحم وکرم ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

1994ءسے2019ءتک کا جان لیوا سفر 

اکتوبر2019ء کے اختتام پر نیشنل ڈینگی کنٹرول سیل نے جو اعدادو شمار جاری کیے، اُن کے مطابق پاکستان میں ڈینگی وائرس کا پہلا باقاعدہ کیس 1994ء میں سامنے آیا۔مُلک میں ڈینگی نے وبائی صُورت 2005ء میں کراچی، جب کہ 2011ء میں پنجاب میں اختیار کی۔ کیس اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ اس بار بلوچستان میں کوئٹہ، لسبیلہ، گوادر اور کیچ، جب کہ سندھ میں کراچی کے ضلع وسطی و جنوبی زیادہ متاثر ہیں۔ 

اسلام آباد اور راول پنڈی میں اب تک 18ہزار کیسز سامنے آئے، جب کہ 24 اموات ہو چُکی ہیں۔حالیہ وبائی بیماری میں اکتوبر کے آخری ہفتے تک مُلک میں 34ہزار سے زائد کیسز سامنے آچُکے تھے،جب کہ 50اموات ہوئیں اور اس بار مُلک میں ڈینگی وائرس کی ٹائپ وَن، ٹواور تھری کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔

تازہ ترین