• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کرہ ارض کی سلامتی، ساڑھے سات ارب انسانوں کی جانوں اور تمام زمینی، سمندری حیاتیات اور نباتات کو بہت سے گھمبیر خطرات کا سامنا ہے۔ دنیا میں غربت، ناانصافی، بھوک، پسماندگی، آلودگی اور ظلم و جبر میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ برسوں اور رواں سال دنیا کے بہت سے ممالک میں پرتشدد مظاہرے، احتجاج، جلائو گھیرائو، عوام اور سیکورٹی فورسز کے مابین جنگ و جدل کے ہولناک واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر ہم دنیا کے منظرنامے پر ایک نظر ڈالیں تو تمام براعظموں میں کہیں نہ کہیں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔ فرانس میں گزشتہ کئی ماہ سے عوام کی بہت بڑی تعداد پیلی جیکٹ پہنے احتجاج کرتی نظر آرہی ہے۔ فرانس کے عوام مہنگائی اور افراط زر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، تاحال تین سو سے زائد افراد ہلاک، سیکڑوں زخمی اور گرفتار ہو چکے ہیں، کروڑوں ڈالر کی املاک کو نذرآتش کیا جا چکا ہے۔ برطانیہ چند برسوں میں یورپی یونین کا حصہ رہے گا یا نہیں، کے مخمصے میں الجھا ہوا ہے۔ برطانیہ کے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف یورپی ممالک برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے پر ناخوش ہیں۔ اس فیصلے سے یورپ کمزور ہو جائے گا اور انتہاپسند قوتیں یہاں چھا جائیں گی۔ 

افریقی ملک لائبریا جو غریب ترین ممالک کی صف میں شمار ہوتا ہے، غربت، بھوک، بیروزگاری، خانہ جنگی، خشک سالی اور قدرتی وسائل کی غیرملکی اداروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہے، براعظم افریقا کے بیشتر ممالک یورپ کی ماضی کی نوآبادیات اور ان کے استحصال کے صدمات سے باہر نہیں آ سکے ہیں، تقریباً براعظم بدامنی، غربت، ناخواندگی، ظلم و جبر کا شکار ہے۔ شمالی افریقا کا ملک الجزائر کئی برسوں سے فوجی آمریت کے جبر کا شکار ہے، معمر ترین صدر جس کو فوج کی پوری حمایت حاصل ہے، پانچویں بار صدر بننے کی تیاری کر رہا ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں، مگر حزب اختلاف کے رہنما کا کہنا ہے کہ دولت کی ہوس اور اقتدار کے لالچ نے ملک کی اشرافیہ کو اندھا بنا دیا ہے، ہمیں مزید صبر کرنا ہو گا۔ 

عراق میں گزشتہ کئی روز سے حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ ہزاروں جانیں تلف ہو چکی ہیں، سیکڑوں زخمی ہیں، عوام مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن سے شدید پریشان ہیں۔ 

یورپی ملک کاتولینا جس پر ایک طویل عرصے سے اسپین قابض ہے وہاں علیحدگی کی تحریک پھر سر اٹھا چکی ہے۔ ریفرنڈم کے طے شدہ پروگرام کے باوجود عین پولنگ کے وقت ہسپانوی فورسز نے دھاوا بول کر ووٹنگ کو سبوتاژ کیا، بیلٹ باکس اٹھا لئے، جس پر لاکھوں عوام غم و غصے میں سڑکوں پر آ گئے، سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں۔ لبنان میں عوام کرپشن، بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت نے واٹس ایپ، انٹرنیٹ پر ٹیکس عائد کیا، جس پر عوامی ردعمل سامنے آیا تاحال وہاں امن قائم نہیں ہوا ہے۔

جنوبی امریکا کے ملک چلی میں جہاں معیشت مستحکم اور عوام مطمئن تھے، کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی کہ اچانک اس خبر پر بھپر کر سڑکوں پر آ گئے کہ، صدر مچلا کے بیٹے نے چلی میں ایک قیمتی اور اہم زمین کا سودا کیا ہے۔ چلی کے عوام اس پر تاحال سراپا احتجاج ہیں اور سیاسی بحران سر اٹھا رہا ہے۔ ہانگ کانگ کے عوام کئی ہفتوں سے بہت بڑے مظاہرے کر رہے ہیں۔ 

وہاں کے عوام کو اس پر غصہ ہے کہ، چین نے نوے کی دہائی کے ایک معاہدہ کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ قانون لاگو کر دیاکہ اگر ہانگ کانگ میں کسی فرد پر شبہ ہے کہ یہ کسی جرم میں ملوث ہے، اس کو گرفتار کر کے اس پر چین میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ عوام اس قانون کے خلاف شدت سے آواز اٹھا رہے ہیں۔ جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک برازیل کے عوام اعلیٰ سطح پر سیاست دانوں اور اشرافیہ کی کرپشن، لوٹ مار سے تنگ آ کر سڑکوں پر آ گئے ہیں، وہاں بیروزگاری، مہنگائی اور بدامنی کے خلاف عوام پہلے ہی سے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے اب احتجاج کا سلسلہ زور پکڑ گیا اور ملک سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ جنوبی امریکا کا ملک، کولمبیا ایک عرصے سے بدامنی اور گوریلا جنگ کا شکار تھا۔ 

گزشتہ حکومت نے گوریلا گروپ کے رہنما کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر کے ملک میں امن قائم کیا تھا۔ اب نئی حکومت نے معاہدہ منسوخ کر دیا، جس پر عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، کیونکہ اس جنگ و جدل سے ہزاروں جانیں تلف ہو چکی تھیں، ملکی معیشت کا دیوالیہ ہو چکا تھا، عوام بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے۔ نئی حکومت کے فیصلے نے پھر اسی آگ میں اُنہیں جھونک دیا۔ جنوبی امریکا کے خوشحال ملک، وینزویلا میں قدامت پسند حزب اختلاف کی جماعتوں نے بائیں بازو کے رہنما اور صدر شیواز کے انتقال کے بعد ملک میں احتجاج اور سازشوں کا سلسلہ دراز کر دیا۔ 

امریکی تجارتی ادارے بھی حزب اختلاف کے ساتھ ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ وہ مراعات جو بائیں بازو کی حکومت نے عوام کو دی تھیں، واپس لی جائیں۔ اس پاداش میں امریکا نے پہلے ہی سے وینزویلا پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے یہ خوشحال ملک بحرانوں اور احتجاجی سیاست کا گڑھ بن چکا ہے۔

دنیا کے دو بڑے تنازعات ایک فلسطین اور دوسرا مقبوضہ کشمیر، جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا تین سے زائد جنگوں سے گزر چکے ہیں مگر تنازعات اپنی جگہ جوں کے توں ہیں۔ عالمی رائے عامہ، اقوام متحدہ بھی چپ ہے تو او آئی سی بھی خاموش ہے جب کہ ان تنازعات کی وجہ سے ہزاروں حریت پسند شہید اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں۔ مگر اب مقبوضہ کشمیر میں نئے بحران نے شدت سے سر اٹھایا ہے اور بھارتی حکومت کی جارحیت کے خلاف لاکھوں کشمیری عوام اپنے حق کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہیں۔ 

اگر بھارت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا اور ضد پر ڈٹا رہا تو یہ خطرہ موجود ہے کہ اس سے نہ صرف جنوبی ایشیا کا امن بلکہ عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بھارت سمیت یورپی ممالک، افریقا اور جنوبی امریکا میں نو سے زائد علیحدگی پسندوں کی تحریکیں جاری ہیں۔ براعظم افریقا کے بیشتر ممالک جیسے زمبابوے، سینٹرل افریقہ، مڈغاسکر اور دیگر ممالک میں بھی غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور ناانصافی کے خلاف تحریکیں جاری ہیں۔ 

یوکرین، البانیہ، سائبیریا، پیرو اور ایکوڈور بھی پرتشدد مظاہروں کی زد میں ہیں۔ ہر طرف لگ بھگ ایک جیسے مسائل ہیں، غربت، بیروزگاری، مہنگائی، افراط زر، ناانصافی، ناہمواری، انسانی حقوق کی پامالی اور انتہاپسندی کے علاوہ دنیا کا بڑا گھمبیر مسئلہ گلوبل وارمنگ، موسمی تغیرات اور آلودگی میں اضافہ ہے۔

دنیا میں تین ارب کی آبادی نوعمر اور نوجوانوں پر مشتمل ہے جو دس سے چوبیس سال تک کے ہیں۔ یہ نوجوان اور طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپ کے کئی ممالک کے طلبہ نے جن کی عمریں پندرہ سال سے کم تھیں، بڑے مظاہرے کرکے عالمی رائے عامہ کو حیران کر دیا۔ دنیا کے تمام رہنمائوں سے نوجوان نسل کا پرزور احتجاج ہے کہ اس دنیا کو آلودگی سے پاک کرو۔ وہ اپنے بزرگوں سے صاف ستھری، ماحول دوست دنیا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

تلخ حقیقت یہ ہے کہ اجارہ دار سرمایہ دارانہ نظام کے معماروں نے اس دنیا کو بے شمار مسائل کی بھٹی میں جھونک دیا ہے، اس میں اس دھرتی اور دھرتی کے قیمتی خزانوں کی لوٹ مار بھی شامل ہے۔ زمین اب لگ بھگ کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ اجارہ داروں نے مسابقت اور کاروباری اصولوں تک کو تیاگ کر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔ دنیا کے تقریباً ایک سو خاندانوں کے پاس دنیا کی 65 فیصد دولت جمع ہے، جب کہ35فیصد دولت پر ساڑھے سات ارب انسانوں کو گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ آئس کریم سے لے کر ہوائی جہاز کے ٹکٹ فروخت کرنے تک پر ان کی اجارہ داری قائم ہے۔ 

گوگل کے پاس اس کے نوے فیصد مارکیٹ حصص ہیں جب کہ فیس بک کے پاس سوشل نیٹ ورک کے اسی فیصد سے زائد حصص ہیں، یہ دونوں بڑے ادارے کسی بھی ضابطے یا اصول کے پابند نہیں ہیں۔ اجارہ دار اشیائے صرف کی روزانہ پوری دنیا میں قیمتیں مقرر کرتے ہیں اور کارٹیل سسٹم کے تحت کاروبار چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، تجارت کا روایتی نظام ختم ہو چکا ہے، کم سے کم ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر منافع کو دوگنا اور چوگنا کر رہے ہیں۔

یہ سلسلہ کب تک اور کہاں تک چلے گا، کوئی نہیں جانتا۔ روس کے صدر، پیوٹن نے ایک بیان میں کہا کہ، یہ اجارہ دار اب اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کے لئے روبوٹس تیار کروا رہے ہیں تاکہ ان کے منافع میں مزید اضافہ ہو سکے۔ صدر پیوٹن کو آئندہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد بھی خطرے میں نظر آ رہا ہے۔

دنیا کے انسان دوست ماہرین معاشیات، سیاسیات اور سماجیات کا کہنا ہے کہ …اس دنیا کو ایک نئے عمرانی اور سماجی معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ اجارہ دار سرمایہ داری کے نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔ دھرتی پر غیرمنصفانہ اور غیرموزوں نظام کے دائرے میں زندگی گزارنے کے بجائے اب وقت آ گیا ہے کہ اس کرہ ارض اور انسانیت کو بچانے کے لئے موزوں اور انسان دوست نظام وضع کیا جائے۔

تازہ ترین