• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو بتایا کہ شام کے صوبے ادلب کے ایک گائوں میں دولت اسلامیہ یا داعش کے رہنما ابوبکر بغدادی کو امریکی خاص دستوں نے ایک آپریشن میں گھیر لیا تھا۔ جس کے بعد بغدادی نے خود اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اگر نقشے میں دیکھا جائے تو ادلب شام کے انتہائی شمال مغربی علاقے میں واقع ہے جہاں مبینہ طور پر بغدادی نے پناہ لی ہوئی تھی۔ ادلب، حلب سے صرف ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 

جب2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی اس وقت سے اس شہر پر باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور یہاں شام کی ایک متبادل حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ چونکہ یہ علاقہ ترکی کی سرحد سے متصل ہے اس لئے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ان باغیوں کو ترکی کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ 2019ء میں اس علاقے پر تحریرالشام نامی باغی گروہ نے قبضہ کر لیا تھا جوکہ خود ایک سلفی جہادی تنظیم ہے۔ واضح رہے کہ بغدادی بھی سلفی جہادی ہی تھے۔

ابوبکر بغدادی کے سر کی قیمت امریکا نے کوئی پچیس ملین ڈالر رکھی ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ، بغدادی ادلب صوبے کے ایک گائوں باریشا میں موجود تھے جہاں ایک کمپائونڈ یا پناہ گاہ میں انہیں گھیر لیا گیا تھا۔ یہ گائوں ترکی کی سرحد سے صرف پانچ کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور یہ پورا علاقہ شامی صدر بشارالاسد کے مخالف لڑنے والی افواج کا گڑھ رہا ہے اور باقی شام سے جب ان سلفی جہادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا تو انہوں نے اس خطے میں پناہ لے لی تھی جہاں بغدادی مارے گئے ہیں۔

ویسے تو ادلب کا علاقہ گزشتہ پچاس سال سے حکومت مخالف قوتوں کا گڑھ رہا ہے۔ 1980ء کے عشرے میں بھی یہاں حافظ الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے اور سرکاری املاک پر حملے ہوتے رہے تھے، جب2011ء میں دیگر عرب ممالک میں بھی نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے بغاوتیں ہوئیں یا کروائی گئیں تو ادلب کے علاقے میں بھی بے چینی پھیلی تھی جو بعد میں باغیوں کے مکمل قبضے میں آ گیا تھا۔ اب بھی اس صوبے میں جہادی اتحاد کے لوگوں کی اکثریت ہے لیکن یہاں کے لوگ دولت اسلامیہ کے بھی مخالف رہے ہیں۔ اس کے باوجود دولت اسلامیہ کے سیکڑوں جنگجو یہاں آ کر ادلب میں مقیم ہو گئے تھے۔

اسامہ بن لادن کے برعکس جو ایبٹ آباد (پاکستان) میں ایک بڑی حویلی میں رہ رہے تھے، جب کہ بغدادی کا ٹھکانہ بہت سی سرنگیں تھیں جو ان کی پناہ گاہ کے اردگرد بنائی گئی تھیں، کیونکہ حملے کا خطرہ موجود تھا اس لئے سرنگوں میں چھپنے کا بندوبست کیا گیا تھا لیکن جب اصل حملہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ان سرنگوں میں سے زیادہ تر اندھی تھیں یعنی ان سے آگے نکلنے کا راستہ نہیں تھا۔ اسامہ بن لادن پر حملے کی طرح اس حملے میں بھی ایک بڑی ٹیم نے حصہ لیا جو کم از کم آٹھ ہیلی کاپٹروں پر مشتمل تھی، جب حملہ ہوا تو بغدادی ایک سرنگ میں قید ہو گیا اور وہیں خود کو اڑا لیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پتہ کیسے چلا کہ جس شخص نے خود کو اڑا لیا ہے، وہ بغدادی ہی تھا۔ صدر ٹرمپ کے دعوے کے مطابق کچھ ڈی این اے ٹیسٹ لئے گئے جن سے تصدیق ہو گئی کہ وہ بغدادی ہی تھا۔ اب شاید یہ نمونے ان نمونوں سے ملائے گئے ہوں گے جو بغدادی کی امریکی حراست کے دوران لئے گئے تھے جس سے بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ ایک اور دعوے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ، دولت اسلامیہ کے ترجمان، ابو حسن المہاجر بھی شمالی شام میں ایک اور حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں لیکن اس حملے میں کردوں کی قیادت میں لڑنے والے شامی جمہوری جنگجو جنہیں ایس ڈی ایف یا سیرین ڈیموکریٹک فائٹرز کہا جاتا ہے، نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

اب ان دونوں اموات کی آزادانہ تصدیق تو ممکن نہیں ہے لیکن کہا یہی جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ چونکہ شدید تنقید کا نشانہ بن رہے تھے کہ انہوں نے دولت اسلامیہ کو دوبارہ ابھرنے کا موقع دیا ہے اس لئے ٹرمپ نے یہ کارروائیاں کرائی ہیں تاکہ وہ بھی امریکا کے سابق صدر، بارک اوباما کی طرح اس بات کا سہرا اپنے سر باندھ سکیں کہ اسامہ بن لادن کی طرح ٹرمپ نے بغدادی کو گھیر کر ہلاک کروا دیا ہے۔

یاد رہے کہ البغدادی2014ء سے خبروں میں تھے، جب انہوں نے شام اور عراق میں ’’اسلامی خلافت‘‘ کے قیام کا اعلان کر کے خود کو خلیفہ مقرر کر لیا تھا اور تمام دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سب بغدادی کو اپنا خلیفہ تسلیم کر کے مغربی طاقتوں کے خلاف لڑائی شروع کر دیں۔

اس کے بعد بغدادی کی قیادت میں دولت اسلامیہ یا داعش کے جنگجو بڑی جنگی کارروائیاں کرتے رہے جن میں ہزاروں افراد ہلاک، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوئے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ داعش کے زیر حکومت علاقوں میں تقریباً اسی لاکھ افراد رہتے تھے جو بغدادی کی سخت گیر اور طالبان نما حکومت کے زیرعتاب رہے جنہوں نے دعویٰ تو خلافت کا کیا لیکن ظلم و استبداد کی انتہا کر دی۔ اس کے ساتھ ہی بغدادی کے مبینہ پیروکار دیگر ملکوں میں بھی حملے کرتے رہے۔ 

اس طرح بغدادی کا گروہ دنیا میں خوفناک بن گیا یا بنا دیا گیا، جیسا کہ اسامہ بن لادن کے ساتھ ہوا تھا۔ بغدادی پر حملے کے اعلان سے پہلے صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ کی کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر واقعے کو بہت بڑا واقعہ قرار دیتے ہیں مثلاً شمالی کوریا کے صدر سے ملاقات کو انہوں نے ’’بہت بڑا واقعہ‘‘ قرار دیا مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ واقعہ اتنا بڑا نہیں جتنا کہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اب دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا صدر اپنی فوج کے ہاتھوں ایک جنگجو رہنما کی ہلاکت کو بہت بڑا واقعہ قرار دے رہا ہے۔

یہ بات سوچنے کی ہے کہ2010ء میں منظرعام پر آنے سے پہلے بغدادی جنوبی عراق میں امریکا کی زیرحراست تھے اور ایک امریکی کیمپ میں قید تھے جہاں مبینہ طور پر انہوں نے دولت اسلامیہ کے دیگر لوگوں سے تعلقات استوار کئے۔

مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جو شخص2010ء تک امریکا کی قید میں ہو اور سلفی اور جہادی بھی ہو، اسے امریکا نے کیسے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دوران حراست اپنے گروہ کی تشکیل کرتا ہے اور آزادی کے بعد اچانک ایک بڑے جنگجو لشکر میں شامل ہوتا ہے اور پھر اس کا سربراہ بھی بن جاتا ہے۔

2003ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد جب صدام حسین کی سنی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو کئی سنی رہنما نئی عراقی حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے جن میں بغدادی بھی تھے جو بعد میں شام میں بھی سرگرم ہو گئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل القاعدہ کو بھی ایک بڑی قوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا پھر کہا گیا کہ، بغدادی نے القاعدہ کے بچے کچھے دھڑوں کی فوج بنا کر2013ء میں موصل شہر پر قبضہ کر لیا۔ 

لگتا ہے کہ ان کی پانچ سالہ ’’خلافت‘‘ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ تقریباً اتنا ہی دور ہے جو طالبان نے افغانستان میں1996ء سے2001ء تک حکومت میں کیا تھا۔ اب امید کی جانی چاہئے کہ بالاخر اس خطے میں امن و سکون ہو، لیکن اگر افغانستان کے واقعات سے موازنہ کیا جائے تو ایسا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے۔

تازہ ترین